سیاسی جماعتیں اگر وقت و حالات کے ساتھ اپنا جائزہ لینے سے قاصر رہے ،آئین و منشور کو فراموش کرتے رہے،آئین کو عمل میں لانے سے گریز کرتے رہے، افکار و نظریات پس منظرمیں چلے گئے،اظہار رائے کے آزادی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے،جمہوریت پسندی محض خواب ہی رہے ،تنقید برائے تعمیر خود ساختہ منصبی و شخصی وقار و آبرو کی بے توقیری سے مربوط رہے،سیاسی سوال منصبی و شخصی مخالفت سے منسلک ہوتے رہے،احتسابی عمل معیوب سمجھے جانے لگیں،کارکناں کی خدشات و تحفظات کی کوئی وقعت نہ رہے،آئین و منشور سے منحرف اراکین، عہدیداران اور نماہندگان کے خلاف موئثر تادیبی کاروائی(سزا و جزا کا عمل)ماند پڑھ جائے، تو یقینی طور پر ایسی سیاسی جماعتوں کو وقت کی بے رحم موجیں بہا کر لے جاتی ہیںیا حالات کی سخت تپش انہیں پگھلا دیتی ہے۔
اوروہ اپنے اصل ہیئت و ساخت سے ہٹ کر نئی روپ دھارنے لگتے ہیں۔پھر وہ سیاسی جماعت نہیں ہجوم بن جاتے ہیںاور رہنما ہجوم پسند ہوتے ہیں۔آخر کار وہ عوام، قوم اور وطن پرستی کے مقدم نمائندگی سے ہاتھ دھو کر زوال پذیر جماعتیں بن جاتی ہیں۔اور زوال پذیر جماعتیں کبھی بھی قومی و عوامی نمائندگی نہیں کرسکتیں۔نہ ہی قومی اہداف کے حصول کو ممکن بنا سکتی ہیں۔اور وقت و حالات کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی جماعتیں درحقیقت جماعتی اقدار و حیثیت کھودیتی ہیں۔اور حق نمائندگی کھونے کے بعد گروئی مفادات کا محافظ گروہ یا ٹولہ بن کر نئی صورت میں عوام اور قوم کے سامنے نمودار ہوتی ہیں۔بظاہر وہ جماعتی حیثیت سے عوام اور قوم سے التجاء کرتی رہتی ہیںاور اپنی جماعتی حیثیت منوانے میں مصروف عمل رہتی ہیںمگر عوام ان پرکبھی بھی اعتماد نہیں کرتی کیونکہ ان کی بدترین و مایوس کن کارکردگی عوام پر عیاں ہوچکی ہوتی ہے۔اور وہ عوامی دکھ،درد، اورتکالیف کو محسوس کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔اسی طرح ان میں باہمی اختلافات شدت کے ساتھ نمایاں ہونے لگتی ہیں۔وہ شدید انتشار و خلفشار کی صورتحال میں اپنے بنیادی اور قومی اہداف کے حصول میں بری طرح ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔
مزید برآں،ان جماعتوں میں غضب کی بے حسی پروان چڑھتی ہے۔ انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتاکہ کارکنان کی قدر و منزلت کیا ہے؟اور کیسے سیاسی کارکنان فکر ونظریات پر کاربند رہ کر زندگی کے پر مسرت ایام جماعتوں کے نام پر وقف کرکے خدمت خلق کے عظیم جذبوں سے سرشار ہو کر خودی کو بھلادیتے ہیں۔کیسے سیاسی کارکنان زندگی دائو پر لگا کر تپتی دھوپ اور سخت سردی میں قیادت کی ہر حکم بجا لاتے ہیںحتیٰ کہ بعض اوقات احتجاجی مظاہروں،جلسے و جلوس،سخت تر ین احتجاجی حکمت عملی کے ردعمل میں یادیگر حادثات کی وجہ سے جام شہادت نوش کرتے ہیں۔اسی طرح جوان، کماش اور بزرگ سیاسی کارکنان تمام تر تکالیف کے باوجود فکر ونظریات پر ثابت قدمی سے آخری سانس تک قائم رہتے ہیںحتیٰ کہ اصول،فکر اور نظریات بالخصوص جماعتوں کی سربلندی پر جان تک نچاور کرتے ہیں۔
مگر جب یہ جماعتیں جیسے ہی اقتدار تک پہنچتی ہیںتو بے حسی و لاپرواہی کے باعث سب سے زیادہ استحصال انہی کارکنان کا کیا جاتا ہے جو یقینا ان جماعتوں کی وجہ سے سب سے زیادہ ذلت اٹھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان زوال پذیر جماعتوں میں چند نااہل ترین لوگ قیادت کرنے لگ جاتے ہیںاور انہیں جماعتوں کے اغراض ومقاصد،منشور اور آئین سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔نہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیںکہ ان جماعتوں میں کیسے باصول اراکین و رہنماء ہوا کرتے تھے۔جو اصول، میرٹ اور جمہوریت کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے لیکن آج کے نمائشی عہدیداران مصالحت کی نذر ہوچکے ہیںاور آئین،آئینی مدت اور فورمز خواہشات کی تابع بن رہے ہیں۔چند بدعنوان لوگ مجموعی طور پر جماعتوں کے وقار، عظمت اور سربلندی کو خاک میں ملا کر تاریخی بے حسی اور بد عنوانی رقم کررہے ہیںاور احتسابی عمل مکمل طور پر اپاہج بن گیا ہے۔کوئی کسی سے باز پرس نہیں کرسکتا ۔نہ ہی یہ نااہل قیادت خود کو کہیں جوابدہ سمجھتے ہیں۔
مزید یہ کہ عوامی سیاست ان کی ترجیحات میں نہیں۔نہ ہی وہ عوامی مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہیں وہ تو یوں ہی چڑھتی سیڑھیوں سے مقام بالا تک پہنچے ہیں۔پھر وہ انہی سیڑھیوں کے سہارے جہاں چاہے پہنچ سکتے ہیں۔ انکی بدعنوانیاں آشکار ہوچکی ہیںاور ان کی بدترین کارکردگی درحقیقت سیاسی عمل سے وابستہ تمام دوستوں کو بیگانگی کی دلدل میں دھکیل رہی ہے لیکن ان بدعنوان عہدیداران سے کوئی بھی کارکن اگر منظم سیاسی پلیٹ کی بات کرے یا کوئی بھی سیاسی موضوع زیر بحث لائے تو وہ ہر عمل کے ذمہ دار کارکنان ہی کو ٹھہرا کر صبح و شام مگر مچھ کی طرح آنسو بہاتے رہتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اپنے مایوس کن کارکردگی کے باعث کارکنان اور ذمہ داران کا گلہ گھونٹ چکے ہیںاور وہ یقینی طور پر قیادت کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن بدقسمتی سے براجمان ہیں۔
یہ ان سیاسی جماعتوں کا زوال نہیں بلکہ بلوچ قومی و جمہوری سیاست کی زوال ہے۔ایسی صورت حال میں عام لوگ تو درکنار حقیقی سیاسی کارکنان اور پڑھے لکھے تعلیم یافتہ نوجوان سیاسی جماعتوں کی بدترین کارکردگی کو دیکھ کر سخت متنفر ہورہے ہیں۔سیاسی عمل سے دور ہورہے ہیںجس سے ان میں سیاسی بیگانگی جنم لے رہی ہے۔اور سیاسی بیگانگی سے سماجی بیگانگی کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ بعض اوقات یہی سیاسی کارکنان و تعلیم یافتہ نوجوان حقیقی سیاسی جماعتوں کی بجائے ان قوتوں کاسہارا لینے پر مجبور ہورہے ہیںجو عرصہ دراز سے بلوچستان میں بلوچوں پر جبر روا رکھے ہوئے ہیں۔ یقینا ان نوجوانوں کے تابناک مستقبل کا ذمہ دار بھی یہی سیاسی جماعتیں ہونگی جو سیاسی کارکن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاسی مقام یا رتبہ دینے میں بری طرح ناکام ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے۔کہ سیاسی جماعتیں وقت وحالات کے ساتھ خود کی خبر رکھیں،حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں،آئین کو مقدم رکھ کر اسے عمل میں لائیں۔ نظریات و انتخابی منشور کو اولیت دے کر سیاسی کارکنان و نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں،انہیں ان کا جائز مقام دیں،بدعنوان عناصر کا فوری محاسبہ کرکے احتسابی عمل کو مضبوط اور بلاتفریق قابل عمل بنائیں۔آزادانہ اظہار رائے،تنقید برائے تعمیر اور جمہوریت کو فروغ دیںتاکہ سیاسی جماعتیں پروان چڑھ کر اپنے مطلوبہ قومی و جمہوری اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔