بلوچستان میں روز اول سے ہی ہر صوبائی حکومت نے عوام کی صحیح ترجمانی کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے وفاق اور طاقتور طبقات کی خوشنودی کیلئے عوام پر حکمرانی کی ہے جس کا واضح ثبوت ہر سال بجٹ سے قبل بلوچستان کی ترقیاتی فنڈز کا اربوں روپے لیپس کرا کر ان آقاؤں کی خوشنودی حاصل کی جاتی رہی ہے۔ صد افسوس عوامی بجٹ لیپس کرنے والے ان حکمرانوں نے بلوچستان کی بربادی، تباہی، بد حالی، پسماندگی اور احساس محرومیوں کو ختم کرنے کے بلند و بانگ دعوے،وعدے اور اعلانات کرنے کے باوجود اربوں روپے کی ترقیاتی فنڈز کولیپس کراکر بلوچستان کے عوام کے حقوق پر شب خون مارنے کے مترادف کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت باالخصوص وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، چیف سیکرٹری بلوچستان محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ،محکمہ خزانہ اور صوبائی بیوروکریسی کا بلوچستان سے مخلصی کا اعلیٰ اور بے مثال ثبوت ہے۔
اپوزیشن کی نااہلی یا حکومت کی قلیل اور محدود تنخواہ پر گزارہ یعنی اپنی نوکری کو مزید مضبوط کرنے کے عیوض بلوچستان کو بھوک و افلاس بیماریوں اور بدحالیوں سے دوچار کرنے سمیت جدید ترقی یافتہ دور میں بھی تمام تر سہولیات سے محروم رکھنا بھی حکومت اور اپوزیشن کے کڈی کڈی کھیل کا حصہ ہے یا یوں کہنا حق جانب ہوگا کہ صوبے کو ترقیاتی عمل سے دور رکھنے کی ایک مذموم سازش ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ جام کمال حکومت کی صوبے کی ترقی اور عوامی خوشحالی شاید ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہے۔ بلوچستان بھر میں طبی سہولیات انتہائی ناقص اور نہ ہونے کے برابر ہیں ان چالیس ارب ترقیاتی فنڈز کو مبینہ طور پر لیپس کرنے والے حکمران اگر فنڈز کو قابل استعمال لا کر بلوچستان میں سندھ طرز کے جدید سہولیات سے لیس اسپتالز بنا کر عوام کو بیماریوں سے مارنے کے بجائے انہیں علاج سے بچائی جا سکتی تھی۔
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہسپتال یا شفاء خانے علاج کے بجائے موت کے کے اڈے بن چکے ہیں جس کا واضح ثبوت تیس لاکھ کی آبادی کے حامل شہر میں پرائیویٹ ہسپتالز کی بھر مار ہے جہاں عوام سرکاری ہسپتالوں کے بجائے ان ہسپتالوں میں مہنگے علاج معالجہ پر مجبور ہیں جہاں سرکاری ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں کے بجائے اپنے پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔ اندرون بلوچستان کے ہسپتالوں میں صرف چند فزیشن ڈاکٹرز کے باقی ماہرڈاکٹرز کی قلت ہے جہاں اربوں روپے ہیلتھ بجٹ کے باوجود ہسپتال ویران اور بھوت بنگلے کا روپے دھار چکے ہیں معمولی حادثات کے مریضوں کو ریفر کرنے کا ریکارڈ بلوچستان بھر کے ہسپتالوں کو حاصل ہے۔ جام کمال خان اور اس کی حکومت جتنا روڈ سیکٹر اور اسپورٹس پر توجہ دے رہے ہیں اگر اتنا توجہ تعلیم صحت پبلک ہیلتھ پر دیتے تو بلوچستان میں شرح اموات اور بیماریوں میں کسی حد تک کمی واقع ہوسکتی تھی لیکنصوبائی حکومت کا ایک اور انوکھا اورلاڈلہ فیصلے نے محکمہ طب کو بہتر کرنے کی بجائے مزید تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ اندورن بلوچستان کے بتیس اضلاع میں ریٹائرڈ ہونے والے ڈاکٹرز کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر دوبارہ ان سرکاری ہسپتالوں میں تعینات کر دیا گیا ہے ایسے ڈاکٹر یاجنرل سرجنز جنہوں نے اپنی پوری سروس میں چند چھوٹے آپریشن کے علاوہ کچھ نہ کیا ہو اور انکے ہاتھ ٹانکے لگاتے وقت کانپتے ہوں وہ کیا تیر ماریں گے جبکہ ان ڈاکٹرز کی پوری سروس اپنی پرائیویٹ کلینکس پر گزری ہو وہ اب کونسا تیز ماریں گے۔
کیا بلوچستان کے ینگ اور بے روزگار ڈاکٹرز کو عارضی طور پر تعینات نہیں کیا سکتا؟ مجھے قوی امید ہے کہ بلوچستان کے ینگ ڈاکٹرز ان پرانے اور کٹھارے ڈاکٹرز سے بہت بہتر سروس عوام کو فراہم کر سکتے ہیں۔نصیرآباد ڈویژن ہو یا قلات،ژوب،لورالائی مکران رخشان یا سبی ڈویژن کہیں بھی آپ کو مثالی یا بہترین شفاء خانے نہیں ملیں گے۔نصیرآباد ڈویژن صوبے کا گنجان آبادی کا حامل ڈویژن ہے جہاں خوش قسمتی سے وزارت صحت کا انچارج پارلیمانی سیکرٹری ایم پی اے ڈاکٹر ربابہ بلیدی صاحبہ ہیں آپ کو پورے نصیرآباد ڈویژن کے ہسپتالوں میں چند عام ڈاکٹرز کے علاوہ مختلف شعبوں کے ماہر ڈاکٹرز نہیں ملیں گے اور عوام کی خوش قسمتی کہیں یا بد بختی ان تمام ہسپتالوں میں مریضوں کو ریفر کرنے کا ایک پرنٹ کیا ہوا لیٹر ہمہ وقت تیار رکھا ہوتا ہے کسی بھی حادثے یا معمولی زخمی مریضوں کو لاڑکانہ سکھر کوئٹہ ریفر کرنے کا شاہی حکم فوراً صادر کیا جاتا ہے اور ان ریفر کیسوں کی بدولت ایمبولینسز بھی ہمہ وقت مصروف سفر رہتے ہیں۔
نصیرآباد ڈویژن کے اکثر مریض ان پرانے اور سہولیات سے محروم ایمبولینسز میں ہی دم توڑتے ہیں ان ایمبولیسنز میں نہ تو ائرکنڈیشن اور نہ ہی وینٹی لیٹرز کی سہولیات ہوتی ہیں صوبے کے ہسپتالوں کی طرح ایمبولینسز بھی شفاء خانوں کے بجائے موت کے اڈے بن چکے ہیں لیکن سلام ہے بلوچستان کے باشعور عوام، سیاسی قیادت، سماجی ورکرز سوشل ایکٹوسٹ میڈیا پرسنز کو جو کسی حق گو صحافی کی حقیقت بیانی پر سیخ پا ہو کر ریلی نکالنے، کسی ریل کے حادثے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کرنے، کسی بلاسٹ میں شہید ہونے، اراکین اسمبلی کے حق میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے اور جدید ترقی دینے کے تعریفی بیانات یا کسی حکومتی وزیر کی شخصی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان ایک کرنے والے قصیدہ گو لکھاریوں نے کبھی ان بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی حکومتی غفلت عوامی بدحالی پر احتجاجی مظاہرہ یا کبھی لب کشائی کی گستاخی کی ہو؟ دراصل ہم اب تک ستر سالوں سے غلامی کی سوچ سے نکلنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور اب بھی ہم مزید کئی سال غلامی کی زندگی گزار کر ان حکمرانوں کو مزید طاقتور اور عوام کو بدحال کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔ وزیر اعلیٰ جام کمال خان اپنے خاندان کی تیسری نسل کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ دادا باپ اور اب خود بلوچستان پر حکمرانی کر رہے ہیں جو تین نسلوں سے بلوچستان کی ترقی کے دعوے کرنے کے باوجود بلوچستان کی بدحالی اور محرومیوں کو دور نہ کر سکیں، وہ اب کون سا انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔
باعمل اور متقی وزیر اعلیٰ کی مخلصی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ امسال مبینہ طور پر لیپس ہونے والے ان چالیس ارب کی رقم سے بلوچستان میں جدید اور بہترین ہسپتال قائم کیے جا سکتے تھے۔ تعلیمی ادارے، صاف پانی کی فراہمی جیسے منصوبے، کوئٹہ میں میٹرو بس یا اورنج ٹرین جیسے عظیم منصوبے بن سکتے تھے لیکن بلوچستان کی بد قسمتی جو ستر سالوں سے دور ہونے کا نام نہیں لے رہی تو اب ریاست مدینہ کے دور میں کیونکر دور ہو۔بلوچستان میں ہماری سیاسی قیادت رہبر کے بجائے رہزن کا روپ دھار چکی ہے جب رہبر کے بجائے صوبے پر رہزن حکمران ہوں ان سے ترقی و خوشحالی کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ سیاسی رہزنوں کا کام ہی یہی ہے ہم تو ریاست مدینہ کے حاکم سے پوچھیں گے۔ بقول شاعر
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے۔