|

وقتِ اشاعت :   June 13 – 2021

بلوچستان کے ضلع خضدار کا نام سنتے ہی ایک طرف معروف سیاستدان کے نام یادآتے ہیں جنہیں ملکی کی سیاست کا محور کہاجاتا ہے۔ اس ضلع نے بلوچستان کو چار وزرائے اعلیٰ اور ایک گورنر بھی دیا۔دوسری جانب یہ ضلع اغوا برائے تاوان سمیت دیگر سماجی برائیوں کاگڑھ بھی سمجھاجاتا ہے۔ جہاں مختلف مضبوط و منظم گروہ سرگرم ہیں۔یہاں تاجروں اور سیاسی کارکنان کااغواروز کامعمول بن چکاہے۔ 2008 سے اب تک مختلف علاقوں سے 85 ہندو تاجروں کو تاوان کے لئے اغواکیاگیاجن میں سے تین کو مزاحمت پر قتل کردیاگیا جس کی وجہ سے کئی لوگ نقل مکانی کر کے سندھ اور انڈیا بھی چلے گئے۔

حال ہی میں ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں ہندو تاجر اشوک کمار کوگولیاں مار کر قتل کردیاگیاجس کے بعد ہندو برادری اور تاجروں نے کوئٹہ کراچی شاہراہ کو بند کر کے احتجاج بھی کیا۔ اطلاعات کے مطابق اشوک کمار کو اس وقت نشانہ بنایاگیا جب وہ وڈھ بازار میں واقع اپنی پرچون کی دکان میں موجود تھے۔ فائرنگ سے اشوک کمار شدید زخمی ہوئے اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گئے۔ ضلع خضدار کے مختلف علاقوں میں ہندو کمیونٹی کے پانچ سے چھ ہزار لوگ رہتے ہیں جن میں سے اکثریت چھوٹے تاجر اور دکاندار ہیں۔

وڈھ بزرگ بلوچ رہنما ء اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل اورسابق نگران وزیراعلیٰ میر نصیر مینگل کا آبائی علاقہ ہے۔ علاوہ ازیں اس ضلع نے بڑے بڑے نامور سیاستدان پیدا کئے جن میں سابق گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، سینیٹر میر حاصل خان بزنجو، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔

یہ بلوچستان کا واحد ضلع ہے جہاں 2014 میں اجتماعی قبر بھی دریافت ہوئی۔ خضدار کے علاقے توتک سے 16 افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ اس اجتماعی قبر کی دریافت کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت بلوچ قوم پرست تنظیموں اور جماعتوں نے احتجاج بھی کیا۔ بلوچ قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وہاں سو سے ڈیڑھ سو تک افراد کی لاشیں قتل کرنے کے بعد دفن کی گئیں ہیں۔

بلوچستان حکومت نے اجتماعی قبر اور وہاں سے لاشوں کی برآمدگی کے واقعے کی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل عدالتی ٹریبیونل قائم کیا تھا۔ ٹریبیونل سے اجازت ملنے کے بعد ملنے والی ناقابل شناخت لاشوں کی مقامی انتظامیہ نے خضدار شہر کے مقامی قبرستان میں اجتماعی تدفین کی تھی جبکہ جن دو لاشوں کی شناخت ہوئی تھی۔ انہیں ان کے رشتہ داروں کے حوالے کیاگیا تھا۔شناخت شدہ ان دو لاشوں کا تعلق ضلع آواران کے علاقے سے تھا۔

صحافتی سرگرمیوں کے حوالے سے ضلع خضدار بدنام ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں چھ صحافی قتل کردیے گئے۔ خضدار پریس کلب کے سابق صدر محمد خان ساسولی کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے قتل کردیا۔ پانچ دیگر صحافیوں کو ہدف بنا کر قتل کیاگیا۔ دھمکیوں کے باعث نہ صرف بعض صحافیوں کو خضدار چھوڑ کر دوسرے شہروں میں پناہ لینا پڑا بلکہ خضدار پریس کلب کے سابق صدر ندیم گرگناڑی کے دو نوجوان بیٹوں کے علاوہ صحافی ریاض مینگل کے ایک بھائی کو بھی ہدف بناکر قتل کیاگیا جس کی وجہ سے خضدار پریس کلب کو دو دفعہ بند کرنا پڑا تھا۔

ضلع میں مزار اور درگاہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ 2016 کو ضلع خضدار میں دربار شاہ نورانی میں دھماکے کے نتیجے میں 54 زائرین جاں بحق ہوگئے تھے۔ شاہ نورانی انتظامی طور پر ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کا حصہ ہے۔ شاہ نورانی میں سید بلاول شاہ نورانی کا مزارہے۔ جہاں ہر وقت کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں سے زائرین کی ایک بڑی تعداد آتی ہے۔ شاہ نورانی کے مزار میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ ویسے تو دیکھاجائے بلوچستان میں یہ تیسرا بڑا خود کش واقعہ ہے۔ اس سے قبل کوئٹہ میں سیٹلائٹ ٹاؤن، سول ہسپتال کوئٹہ اور پولیس ٹریننگ کالج پر خود کش حملے ہوئے تھے۔جن میں مجموعی طور پر 167افراد ہلاک اور 250سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان خود کش حملوں میں زیادہ تر ہلاک ہونے والوں میں پولیس اہلکار اور وکلاء شامل تھے۔

ضلع خضدار سی پیک کی نہ صرف ایک اہم گزرگاہ ہے بلکہ یہ سی پیک کا ایک جنکشن بھی ہے۔ جہاں ڈرائی پورٹ بنانے کامنصوبہ بھی ہے۔گزشتہ کئی سال سے یہ منصوبہ سرد خانے کی نذر ہے۔ یہ ایک اہم منصوبہ ہے جس کے لئے حکومت کی خاموشی حیران کن ہے۔اس منصوبے سے مستقبل میں خضدار خوشحال علاقوں میں شمار ہوسکے گا۔

یہاں کا ذریعہ معاش زراعت پر منحصر ہے۔ زمینداروں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ خضدار میں “دریائے مولا” واقع ہے۔ اس دریا پر ایک بڑا ڈیم تعمیرکرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس پانی کو زراعت کے شعبے میں استعمال کیا جاسکے۔ خضدار میں بے شمار دیگر ایسے علاقے ہیں جہاں بارانی ندی نالوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے جاسکتے ہیں۔ دوسری جانب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے زراعت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ضلع میں تعلیمی ادارے مسائلستان بن چکے ہیں۔ کہیں عمارتیں ہیں تو وہاں اساتذہ کی کمی ہے۔ کہیں طلبہ ہیں تو عمارتیں نامکمل ہیں۔ جن میں انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار، جھالاوان میڈیکل کالج، شہید سکندر یونیورسٹی، ڈگری کالج خضدارگرلز، ڈگری کالج خضدار بوائز، ٹیچنگ ہسپتال، انٹر کالج وڈھ، انٹرکالج زہری اور انٹر کالج نال سمیت دیگر تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سہولیات کے حوالے سے طلبا نے ہر سطح پر چیخ و پکار کی۔ مگر افسوس کسی نے بھی اس جانب توجہ نہ دی۔ حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے ضلع خضدار میں تعلیمی شرح تنزلی کا شکار ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ خضدار کے تعلیمی اداروں کی جلد تعمیر،انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار میں ڈیپارٹمنٹس کی تعداد بڑھانے،بوائز وگرلز ڈگری کالجوں میں پروفیسرز و لیکچرارز کی تعیناتی سمیت تمام تعلیمی اداروں کے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
بلوچستان کی تاریخ میں خضدار کی بہت بڑی اہمیت رہی ہے۔ خضدار ایک چھوٹی سی زرخیز اور پانی سے بھرپور جھالاوان کی چھوٹی مگر بہت خوبصورت وادی ہے۔ ساتویں صدی میں عربوں نے اس خطہ کو فتح کیاتھا۔خضدار نام عربی کے دو الفاظ کا مرکب ہے۔ خض! کا مطلب ہے مضبوطی سے قائم رہنا جبکہ دار! کا مطلب ہے جگہ یا گھر۔ اس طرح خضدار کا مطلب مضبوطی سے قائم رہنے کی جگہ یاگھر ہے۔
عرب حکمرانوں نے خضدار شہرکو دو حصوں میں تقسیم کیاتھا۔ ایک حصہ گورنر کی رہائش گاہ کے طورپر استعمال ہوتاتھا۔ جبکہ دوسرا حصہ عوامی سرگرمی اور کاروبار کے لئے مختص تھا۔

ایک راستہ جوایران سے نکلتا تھا۔خضدار کوشمال میں قلات،گنداوہ سے ہو کرآگے ملتان سے ملاتاتھا۔ اور دوسرا راستہ خضدار کو کیرتھر پہاڑ سے ارباب کے راستے سیون سندھ سے ہوکر پورے سندھ سے ملاتا تھا۔

مورخین کے مطابق 1869 میں خان آف قلات میر خدائیداد خان نے خضدار کو فتح کیا۔ میر خدائیداد خان نے یہاں ایک قلعہ بنایا تھا جو آج بھی خستہ حالت میں موجود ہے جس کو خان خدائیداد کا قلعہ کہاجاتا ہے۔ اس قلعہ کو خان صاحب نے 1872ء میں تعمیرکروایا تھا۔اس قلعہ کی تعمیرکا مقصد یہاں سے گزرنے والے کاروانوں کی حفاظت کرناتھا۔ اس قلعہ میں ریاست قلات کی لیویز فورس ہوا کرتی تھی۔ ریاست قلات کو پاکستان سے الحاق کے بعد یہ قلات ضلع کا حصہ تھا۔خضدارکو 1974 میں ترقی دے کر الگ ضلع بنادیاگیا۔

محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت اور عدم توجہی کی وجہ سے خضدار کے چار تاریخی قلعے بارشوں کے نظر ہوگئے ہیں اور مزید اپنے وجود کے مٹ جانے کے دہانے پر ہیں۔ ان تاریخی قلعوں میں کوہیر قلعہ، حلوائی کی چوٹی کا قلعہ، شاہی باغ قلعہ، اور خان خدائیداد خان کا قلعہ شامل ہیں۔حکومت بلوچستان کو چاہئے کہ ان کی بحالی اور اصل حالت میں لانے کے لئے ان کی مرمت کی جائے۔ تاکہ مستقبل کی نسل اپنی تاریخ سے آگاہ ہوسکے۔