پچھلے چند روز سے مختلف اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر “پارہ پچاس ڈگری پر پہنچ گیا،گرمی سے بچے سکولوں میں بے ہوش ہو گئے” اور پچھلے کئی دنوں سے پڑنے والی شدید گرمی کو خود محسوس کر کے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔بنی نوع انسان کی پیدائش کیلیے جن اجزاء کا ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ان میں سے ایک مٹی Soil بھی ہے۔کرہ ارض کی بالائی تہہ مٹی کہلاتی ہے۔
مٹی کی تہہ چند انچ سے لے کر کئی فٹ موٹی ہو سکتی ہے۔مٹی کئی اجزاء کا مرکب ہے۔مٹی کے نامیاتی اجزاء میں پودوں اور جانوروں کی باقیات اور زندہ پودوں کی جڑیں و خورد بینی جاندار بھی آتے ہیں۔زراعت کا سارا عمل مٹی کے اوپر کیا جاتا ہے۔پانی زندگی اور مٹی ماں ہے۔ماں کے بغیر کیسی زی روح کی پیدائش ممکن نہیں۔
مٹی یعنی زمین ختم ہو گئی تو ہر قسم کی زندگی کے باقی رہنے کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔بڑھتی ہوئی انسانی آبادی نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ ایسی ہی ایجادات کیں جو کرہء ارض یعنی زمین پر پیدا ہونے والے جاندار، مخلوقات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوئیں۔
1750ء میں آنے والے صنعتی انقلاب کے بعد فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔انسانی صحت کے لیے مضر متھین گیس اور دیگر خطرناک گیسوں کا روز بروز اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔موجودہ دور کے درجہ حرارت کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں بھی سال بہ سال مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سمندر کا پانی زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے پھیل رہا ہے اور سمندر کے کنارے واقع کئی انسانی آبادیوں کے ساتھ ساتھ انتہائی زرخیز زمینوں کو بھی نگل چکا ہے جس کی واضح مثال سندھ کے ساحلی علاقے ہیں۔زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے پہاڑوں کے گلئیشیرز اور قطبی برف کی تہہ بھی پگھل رہی ہے۔بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مصنوعی سائنسی ایجادات نے زمین پر ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے۔ جس سے انسان اور دیگر جاندار ناقابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی سے مٹی یعنی زمین کی زرخیزی روزبروز ختم ہوتی جا رہی ہے جس سے ریگستان بڑھ رہے ہیں۔زمین کی زرخیزی ختم ہونے سے فصلات کی پیداور میں نمایاں کمی ہو رہی ہے۔جانوروں کو اپنی خوراک مطلوبہ مقدار میں نہیں مل پا رہی جس سے جانوروں کے حاملہ ہونے اور بچے پیدا کرنے کا وقفہ بڑھ گیا ہے جس سے گوشت اور لحمیات کی مطلوبہ مقدار انسانوں کو نہیں مل رہی۔اس سے انسانی صحت اور قوت میں کمی آ رہی ہے۔
زمین کی زرخیزی کم ہونے سے کئی کروڑ انسانوں کو خوراک اور پانی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔جو مستقبل قریب میں مختلف ملکوں کے درمیان جنگ کا باعث بھی بن سکتا ہے۔زمین پر موجود قدرتی خود رو اور کاشتہ درختوں کی مسلسل کٹائی جاری ہے۔ہر سال اربوں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں۔لیکن افسوس کاٹے گئے درختوں کی جگہ نئی تعداد میں درخت نہیں لگائے جاتے۔مختلف ممالک کی حکومتیں اور کروڑوں روپے فنڈ لینے والی این جی اوز صرف الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے اپنا مدعا بیان کر کے سائیڈ پر ہو جاتیں ہیں عملی میدان میں کچھ بھی نہیں کرتیں۔
ہم انسان اپنے ہاتھوں سے اپنی اور اپنے آنے والی نسلوں کی بربادی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔جن علاقوں میں آج درجہ حرارت اتنا بڑھ چکا ہے کیا کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ ان علاقوں میں سے پچھلے دس سالوں میں کتنے درخت کاٹے گئے ہیں۔کیا کاٹے گئے درختوں کا دسواں حصہ کاشت بھی کیا گیا اور ان کی حفاظت کی گئی۔صرف ضلع راجن پور کے علاقہ میں کم از کم چالیس مواضعات رکھ کے ناموں سے موجود ہیں۔مثلاً رکھ ریگستان شمالی،رکھ ریگستان جنوبی اور رکھ ریگستان غربی(مضمون کی طوالت کے باعث سارے مواضعات کا نام لکھنا مشکل ہے) موجود ہیں۔
جن کی زمینیں حکومتی ملکیتی ہیں اور جنگلات کے لیے مخصوص ہیں۔جہاں پر تھوڑی محنت کرکے باآسانی جنگلات اگائے جا سکتے ہیں لیکن بڑے دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ ان مواضعات سے کروڑوں کی تعداد میں خود رو درختوں کو چوری سے کاٹ لیا جاتا ہے۔حکومت وقت عرصہ چالیس سال سے یہ علاقے عرب کے شہزادوں کو شکار کرنے کیلیے دیتی ہے۔کیا یہ شہزادے ان علاقوں میں درخت لگوا دیں تو کیا اس علاقے کی جاندار مخلوق ان کو دعائیں نہیں دے گی؟
ضلع راجن پور کا علاقہ پچادھ جو خود رو درختوں جال(پیلوں)،کیکر،کرینہہ،دیسی بییر،کنڈا،کابلی کیکر، ٹولہے، بیبلی اور لئی لانڑے کا خوبصورت مسکن تھا۔ان سب کا انتہائی بے دردی سے صفایا کر دیا گیا ہے۔اگر ہم سب اپنی بقا چاہتے ہیں تو ہمیں دوبارہ قدرتی ماحول کی طرف آنا ہو گا۔زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ان کی حفاظت کرنی ہو گی۔ہر شخص کو ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا۔دعوؤں اور کھوکھلے نعروں سے اجتناب کرنا ہو گا۔ان علاقوں کی تپتی مٹی کسی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسے لوگوں کا درخت لگانے کیلیے انتظار کر رہی ہے۔(اگر کوئی اپنا نام لکھوانا چاہے تو داجل سے مغرب کی طرف ہڑند روڈ موضع رکھ ریگستان شمالی چوکی ریخ پر اپنے نام کے ساتھ یہ الفاظ بھی لکھوا دے)۔
” اس گلستان کی آبیاری میں ہمارا بھی ہاتھ ہے”
(مضمون نگار یونیورسٹی آف اکاڑہ میں زیر تعلیم ہیں)