پروردگار نے ہمیں ایک ایسی سرزمین سے نوازا ہے جس میں قدرتی وسائل کا انبار ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہاہے کہ بلوچستان کے باسی کس حال میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں اس کا اندازہ کوئی لگا نہیں سکتا۔ہر طرف غربت ، پسماندگی ، ناانصافی اور بیروزگاری کا عالم ہے۔نجانے کیوں ہمارے ساتھ یہ سلوک روا رکھاجارہاہے؟ کیا ہم اس ملک کا حصہ نہیں ہیں؟
گوادر کو پاکستان کا دل اور پتہ نہیں کیا کیا کہاجاتاہے لیکن اس کے باسی کس حال میں زندگیاں گزار رہے ہیں کیا آپ کو اندازہ ہے’ہر روز گوادر کے باسی پانی اور بجلی کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔پاکستان کے دل میں لوگ پانی اور بجلی کے لیے ترس رہے ہیں۔آپ تو کہتے ہیں کہ گوادر نے ترقی کی حدیں تمام کردی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیا اسٹیڈیم اور پارکس بنانے سے شہر میں خوشحالی ، امن اور ترقی ہوگا ؟
لاوارث بلوچستان کی تعلیمی حالت زار آپ سب کے سامنے روز روشن کی عیاں ہے۔بدقسمتی سے بلوچستان کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں اب تک سکول کی عمارتیں ہی نہیں ۔طلباء کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ صوبہ بلوچستان تعلیم اور معاشی اعتبار سے دیگر صوبوں کی نسبت کافی پسماندہ ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں ایک وجہ یہ ہوسکتا ہے کہ وفاق اس طرف توجہ نہیں دے رہاہے ، ایک دوسری وجہ یہ کہ ہمارے حکمران نہیں چاہتے کہ ہم تعلیم حاصل کریں اور ہم باشعور ہو ں اور کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 59% بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں اس کے بھی کئی اسباب ہیں ایک یہ کہ اسکول نہ ہونے کی وجہ اور دوسرا غربت کی وجہ سے تعلیم جیسے انمول نعمت سے محروم ہیں یہ سب ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہے۔
لاوارث بلوچستان میں شعبہ صحت نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ بلوچستان میں دوران زچگی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس صوبے میں زچگی کے دوران شرح اموات (ایم ایم آر650) فیصد سے زیادہ ہے، جو قومی اوسط سے دوگنا اور پاکستان کے کسی بھی دوسرے صوبے سے کافی زیادہ ہے۔بلوچستان میں دیگر مسائل کی طرح صحت کے شعبے کی زبوں حالی کی اہم وجہ بلوچستان میں موجود سیکورٹی کی ابتر صورتحال کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ بلوچستان ہی کے بہت سے علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں ایمرجنسی کی صورتحال بھی نہیں لیکن وہاں بھی پرائمری ہیلتھ اور زچہ و بچہ کے مراکز سہولیات سے محروم ہیں جس میں بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ، تربت ودیگر بڑے شہر بھی شامل ہیں۔ایک سروے کے مطابق ایک سال کے دوران بلوچستان کی مختلف شاہراہوں پر حادثادث کے سبب 8 ہزار لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ،جبکہ پچھلی دہائی میں دہشتگردی کی وجہ سے مارے گئے افراد کی تعدار 2238 ہے اگر دیکھاجائے تو بلوچستان میں سب سے زیادہ اموات ان شاہراہوں کی وجہ سے ہورہی ہیں لیکن حکومت کو کرونا وائرس کی پڑی ہے کہ کرونا وائرس سے لوگ مررہے ہیں لیکن ان شاہراہوں کی وجہ سے اموات نظر نہیں آ رہیں۔اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کرونا پر توجہ نہ دی جائے،لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دیگر مسائل پر بھی توجہ دینا اْتنا ہی ضروری ہے جتنا کرونا پر۔۔
مالامال صوبے میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے لئے رقم نہیں ہے۔جس صوبے میں کوئلہ ، گندھک ، کرومائٹ ، لوہا ، سنگ مرمر ، کرومائیٹ، چونا پتھر او ر بلوچستان میں دنیا کا سب سے بڑا تانبے ،سونے اور تیل کا ذخیرہ موجود ہو اس صوبے میں تنخواہوں اضافہ کرنے کے لئے رقم نہ ہو۔کیا ایسا ہوسکتاہے لیکن لاوارث بلوچستان میں ایسا ہی ہورہاہے۔
بلوچستان کا ایک بڑا مسئلہ (مسنگ پرسنز) لاپتہ افراد کا ہے آئے روز ایک نہ ایک شخص کی گمشدگی کی اطلاع ضرور مل جاتی ہے۔یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ گمشدہ کرنے کی وجہ کیاہے؟ کیوں ان کو لاپتہ کیاجاتاہے؟ کیا ملک میں نظام انصاف نہیں ہے؟ چند ماہ قبل ایک پاکستانی کوہ پیما K2 پر گمشدہ ہوا تو میڈیا میں 24 گھنٹے اس کاچرچا رہا اور حکومت پاکستان نے ان کی تلاش کے لئے ہر طریقہ استعمال کیا لیکن بدقسمتی سے لاوارث بلوچستان کے ہر گھر میں آپ کو لاپتہ افراد مل جائیں گے لیکن نہ حکومت اور نہ ہی میڈیا نے ایک دن ان کے لئے آواز بلند کی۔
بلوچستان کے پانی پر ڈاکے، ارسا اور بلوچستان کی خاموشی
گستاخیاں/ولی محمد زہری
بلوچستان ملک کے 43 فیصد رقبے کا حامل بڑا اور پسماندہ صوبہ ہے بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جس کا وسیع رقبہ ہونے کے باوجود انڈس واٹر سہولیات سے یکسر محروم چلا آ رہا ہے۔ سابق صدر ایوب خان کے دورمیں زرعی پانی کے حصول کیلئے صرف دو کینال تعمیر کئے گئے تھے جبکہ کچھی کینال کا جنرل مشرف کے دور میں افتتاح کیا گیا جس کا اب تک فیز ون ڈیرہ بگٹی تک لایا گیا ہے۔ کچھی کینال اب تک زیر تعمیر ہے جس کے فیز ٹو کی تعمیر سے بلوچستان میں زراعت کی ترقی کاخواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ دریائے سندھ کے گڈو بیراج سے پٹ فیڈر کینال جس کی پانی کی کیپسٹی6700 کیوسک حصہ ہے اور اسی پٹ فیڈرکینال سے بھی سندھ کے کچھ علاقے سیراب ہوتے ہیں جبکہ دوسرا کھیر تھر کینال جوکہ سکھر بیراج سے نکلتا ہے جس کا شیئر2300 کیوسک ہے لیکن ارسا کی تقسیم کے باوجود سندھ نے کبھی بھی بلوچستان کو اس کا حصے کا مکمل اور جائز یا پورا پانی فراہم کرنے میں ہمیشہ لیت ولعل سے کام لیتا رہا ہے
اگر یوں کہا جائے کہ صوبہ سندھ ہمیشہ بلوچستان کے پانی پر ڈاکے ڈالتا آ رہا ہے جس کے باعث ان دونوں کینالوں کے کمانڈ ایریاز اب غیرآباد اور بنجر بنتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان باالخصوص نصیرآباد کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں واضح رہے کہ بلوچستان کازیادہ تر رقبہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جبکہ نصیرآباد ڈویژن کا علاقہ ہی بنجر اور میدانی علاقہ پر ہی مشتمل ہے جہاں نصیرآباد ڈویژن کے پچاس فیصد علاقے ان دو کینالوں کی بدولت زرخیر اور شاداب ہیں اور اسی وجہ سے ان علاقوں میں لوگ معاشی میدان میں کسی حد تک خود کفیل ہیں ۔بلاشبہ پٹ فیڈر کینال ہی صوبے کا معاشی شہ رگ اور زرعی حب ہے اسی وجہ سے نصیرآباد ڈویژن میں معاشی سرگرمیاں تیزی سے جاری و ساری ہیں2010اور2012 کے تباہ کن بارشوں اور سیلابوں کے باعث پٹ فیڈر کینال مکمل طور پر منہدم ہو گیا تھا جس کیلئے وفاق نے خطیر رقم جاری کی تھی لیکن اس کے باوجود پٹ فیڈر کینال اب تک بحال نہ ہو سکی ہے یا پھر حکومتی فنڈز پٹ فیڈر کینال کی بحالی کے بجائے مبینہ طور پر کرپشن کی نظر ہو گئے۔
لیکن ایک بار پھر اسی پٹ فیڈر کینال کی مکمل بحالی کیلئے ملک کے نامور ادارے نیشنل لاجسٹک سیل( این ایل سی) کی خدمات حاصل کی گئیں اور وفاقی حکومت نے اربوں روپے دے کر پٹ فیڈر کو مکمل بحال کرنے کے ساتھ ساتھ کینال کی ڈی سلٹنگ کناروں کی بحالی کو یقینی بنانے کا پراجیکٹ لانچ کیا لیکن این ایل سی کے اس پراجیکٹس کے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے ۔اگر اس طرح کہا جائے کہ این ایل سی کی ڈی سلٹنگ منصوبہ بھی پٹ فیڈر کینال کی بحالی میں مددگار ثابت نہ ہوسکا توبے جا نہ ہوگا۔واضح رہے کہ پٹ فیڈر کینال میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے حوالے سے نیب میں بھی کیسز چل رہے ہیں جس میں کئی آفیسران جیل کے یاترا کر چکے ہیں۔ جبکہ کئی ٹھیکیداروں کو رقم ابتک جاری نہیں کی گئی ہے اور صوبائی حکومت نے پٹ فیڈر کینال میں مبینہ بے ضابطگیوں پر انکوائریز بھی کرائی تھیں لیکن اس کے باوجود پٹ فیڈر کینال کی بحالی اور ڈی سلٹنگ کا خواب ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ بلوچستان کی معاشی شہ رگ پٹ فیڈر کینال کی بدولت بلوچستان آباد و شاداب اور سر سبز ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی تمام صوبائی حکومتوں کی شاید ترجیحات میں پٹ فیڈر کینال کی بحالی شامل نہیں۔
نصیرآباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے آٹھ سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی موجودہ کابینہ میں وزیر ہیں اور تین قومی اسمبلی کے ممبر ہیں۔خوش قسمتی سے یہ تمام نصیرآباد ڈویژن کے بڑے بڑے زمیندار ہیں لیکن اس کے باوجود پٹ فیڈر کینال بدحالی اور تباہی سے دوچار ہے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ محکمہ اری گیشن کی وزارت بھی نصیرآباد ڈویژن کے پاس ہے۔ محکمہ اری گیشن یا تو مفلوج ہو چکا ہے یا پھر وہ سیاست اور سفارش کے بوجھ تلے دب کر مکمل خاموش ہو چکی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ اس سال پٹ فیڈر کینال میں67 سو کیوسک کے بجائے دو سے تین ہزار کیوسک پانی آ رہا ہے جو کہ علاقے کیلئے تباہی کا پیغام ہے ۔پانی کی کمی سے جہاں چاول اور کپاس کی فصل متاثر ہوگی وہاں کسان اور چھوٹے زمیندار نان نفقہ کے محتاج ہو جائیں گے۔ اور ساتھ ہی کاروباری طبقہ کے افراد بھی کسمپرسی سے دوچار ہو جائیں گے
جبکہ وفاق کا رویہ بلوچستان سے اب تک سوتیلی ماں جیسا ہے بلوچستان حکومت کی جی حضوری اور غلامی کے باعث صوبے کے عوام اب تک پسماندگی و محرومیوں کے شکار چلے آ رہے ہیں اور ان میں وفاق اور صوبہ دونوں ذمہ دار و برابر کے شریک ہیں ۔اگر نصیرآباد ڈویژن کی گرین بیلٹ کو برقرار رکھنا مقصود ہے تو پٹ فیڈر کینال پر مکمل توجہ دینا ہوگا اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت کو خود پہل کرنا ہوگا۔ بلوچستان حکومت وفاق کو پٹ فیڈر کینال کی مکمل بحالی کیلئے مجبور کرے اور پٹ فیڈر کینال کیلئے مرکز پر پریشر ڈال کر کینال کی بحالی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے تاکہ صوبے کے اکنامی و معاشی حب کی بحالی ممکن ہو سکے۔ اگر پٹ فیڈر کینال بحال نہ ہو سکا تو عوام نقل مکانی کرکے چلے جائیں گے تو پھر سیاست دانوں کو عوام کے بجائے کیا
بنجر زمینیں ووٹ دیں گے؟ پٹ فیڈر کینال کی بحالی ہی صوبے باالخصوص نصیرآباد ڈویژن کے سیاست دانوں کی عوامی سیاست اور قسمت کے سمت کا فیصلہ کریگی اگر خدا نہ خواستہ پٹ فیڈر کو بحال نہ کیا گیا تو یہ ہزاروں سرسبز وشاداب و زراعت پر مشتمل ایکٹر بنجر بن جائیں گے اور پھر یہ علاقہ تھر کے صحرا کا منظر پیش کرے گا پھر عوام کے بغیر سیاستدانوں کیلئے کون زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگائے گا؟ یقینا پھر نہ تو سیاست ہو گی اور نہ ہی وزارت؟ اب وقت آ گیا ہے کہ نصیرآباد ڈویژن کے صوبائی وزرا حاجی محمد خان لہڑی سردار یار محمدرند میر سلیم خان کھوسہ نوابزادہ طارق خان مگسی میر جان محمد خان جمالی میر عمر خان جمالی میر سکندر خان عمرانی ڈاکٹر ربابہ بلیدی و اراکین قومی اسمبلی نوابزادہ طارق خان مگسی میر خان محمد خان جمالی نوابزادہ شاہ زین بگٹی سمیت تمام سابق وزرا حکومتی و اپوزیشن اراکین کو لیکر وزیر اعلیٰ جام کمال خان سے ملاقات کریں اور پھر یہ سب وزیر اعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں وزیر اعظم سے ملاقات کریں اور پٹ فیڈر کی مکمل بحالی ڈی سلٹنگ اور سیمنٹ سے پختہ کرانے جیسے عظیم منصوبے کا مطالبہ کریں تاکہ بلوچستان بلخصوص پٹ فیڈرکینال مزید زبوں حالی اور تباہی سے بچ جائے وہی وفد بعد ازاں وزیر اعلی سندھ سے ملاقات کرے اور اگر سندھ حکومت لیت ولعل سے کام لے تو بلوچستان اس کو حب ڈیم سے پانی کی فراہمی بند کردے۔
پٹ فیڈر کینال کی بحالی ہی سے بلوچستان کی ترقی عوام کی خوشحالی امن و امان کی بحالی ممکن ہے اور پھر زندہ باد و مردہ بعد کی سیاست بھی چلتی رہے گی جب عوام اور علاقے معاشی خود کفالت حاصل کریں گے تو یقینا وہاں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا بصورت دیگر پٹ فیڈر کی عدم بحالی بلوچستان اور صوبے کی سیاست کیلئے اچھا نہ ہوگا اور پھر حالات بھی تباہی کا منظر پیش کریں گے جس کی تدارک پھر کسی کے بس میں نہ ہو گی جبکہ اب بھی وقت ہے کہ بلوچستان کے موجودہ بجٹ میں پٹ فیڈر کینال کی بحالی کیلئے خطیر رقم مختص کی جائے اور اسی مختص رقم سے کینال کو پختہ کرکے بلوچستان کی زرخیزی اور سرسبز وشادابی کو یقینی ئی جائے تاکہ بلوچستان زرعی حوالے سے خودکفیل ہو سکے۔