وبائیں یا پھر بڑی بڑی قدرتی یا انسانی آفتیں، ہمیشہ بڑے اور ناقابل فراموش سبق دے جاتی ہیں ، ان ناقابل فراموش اسباق کی بنیاد پر انسان اپنی زندگی اور مستقبل کے معاملات طے کرتا ہے ،لیکن، ہم ایسی اقوام میں سے ہیں جو کبھی بھی کسی بڑی مصیبت یا پھر وبا سے کچھ بھی نہیں سیکھتے اور سب کچھ بہت جلد بھول جاتے ہیں، ہماری یادداشت بطور قوم بہت ہی کمزور ہے۔ نیز، ایک عجیب و غریب نفسیاتی خوش فہمی کے کنویں میں رہتے ہیں کہ ہم بہت ہی اعلیٰ درجے کے انسان ہیں۔ لیکن، طے شدہ حقائق بالکل بھی اس کے برعکس ہیں، عقل و فہم کے بجائے ضد، ڈھٹائی اور جہالت کو فروغ دینے سے مستقبل کے روشن دان ہم پر کبھی بھی نہیں کھل سکتے۔ آج کل معاملات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ ہر بندہ خود ساختہ ارسطو بنا پھرتا ہے۔ عقل کسی کی میراث تو نہیں لیکن چند سوشل میڈیائی مجاہدین اپنی تھوڑی بہت سنی سنائی کے دم پر عوام کے صحت سے متعلقہ مستقبل طے کرنے کے لئے میدان میں نکلے ہوئے ہیں اور کورونا اور اس کی ویکسین کے حوالے سے بڑے پیمانے پر افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
ہمارے ایک دوست ، شہدادکوٹ کے رہائشی ماما مولا بخش جونیجو ہوا کرتے تھے، ان کی عمر لگ بھگ ستر کے قریب تھی، جب سے کورونا کی وبا آئی ہے، تب سے لکھاری ان کو گھر سے باہر نکلنے، ماسک پہننے، لوگوں سے سماجی فاصلہ رکھنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن وہ بضد “کورونا کچھ بھی نہیں سب ڈرامہ ہے، ہمیں بہت سی بیماریاں نہیں مار سکیں تو کورونا کیا مارے گی۔” آخری وقت میں ہٹے کٹے تھے۔ جیسے تیسے کرکے کورونا کی دو لہروں سے بچ نکلے، لیکن تیسری لہر میں موصوف جانبر نہ ہو سکے اور مختصر علالت کے بعد گورستان چل پڑے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ موصوف پہلے سے ہی جگر کے مرض میں مبتلا تھے، کورونا نے اس کے اندرونی اعضاء کو بالکل ہی ختم کر دیا، لہٰذا، زمانے کو چلتا چھوڑ کر راہ اجل کو چل پڑے۔
ماہرین کا خیال ہے کورونا وائرس جب بھی حملہ کرتا ہے تو وہ جسم میں پہلے سے موجود جاں لیوا بیماریوں، شوگر، ہیپاٹائٹس، ایڈز، فالج، دمہ وغیرہ کو مزید خراب کر دیتا ہے، اور ان کی شدت تین چار گنا بڑھا دیتا ہے، نتیجے میں انسان کا مدافعتی نظام بڑے پیمانے پر متاثر ہو جاتا ہے اور موت واقع ہوتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دیگر بیماریوں کو ملنے والی تقویت ہلاکتوں میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔
ہمارے ہاں دل کی بیماریاں عام ہیں، اس کے تین بڑے اسباب ہیں، ایک تو فارمی مرغیوں کی پرورش میں استعمال ہونے والی انجیکشنز، چربی والے گھی کا کثرت سے استعمال اور ضرورت سے زیادہ سگریٹ نوشی ۔ سندھ میں دل کی بیماریوں کے لئے ایک ہی خیراتی ہسپتال این آئی سی وی ڈی ہے۔ جس نے سندھ بھر میں بیس سے زیادہ دل کے امراض اور سینے کے درد کے یونٹ کھول رکھے ہیں۔ ایسے یونٹ کھولنے کا بنیادی محرک یہ تھا کہ چونکہ دل کے دورے کے بعد مریض کے لئے ایک گھنٹہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اگر وہ ایک گھنٹے کے اندر اندر ہسپتال نہیں پہنچتا تو اس کی زندگی کو خطرات بڑھ جاتے ہیں، اور بروقت نہ پہنچنے کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اور چار گھنٹوں کے اندر اندر دل کے دورے کا مریض جاں بحق ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارہء صحت ڈبلیو ایچ او کے غیر سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں دل کے امراض کی وجہ سے روزانہ ایک ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ادارے کا اندازہ ہے کہ سنہ 2025 تک دل کے امراض کا شکار افراد کی یومیہ اموات کی شرح دو ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔
کورونا کی موجودہ وبائی صورتحال میں پہلی لہر سے تیسری لہر تک سفر میں پاکستان میں لاکھوں لوگ اس وبا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ پاکستان میں امراض قلب کے سب سے بڑے ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو وسکیولر ڈزیز (این آئی سی وی ڈی) پری وینٹوِ کارڈیولوجی کا شعبہ قائم کرکے ایک ناقابل فراموش کارنامہ سرانجام دیا ہے، یہ شعبہ پاکستان میں سب سے پہلے این آئی سی وی ڈی کراچی میں قائم کیا گیا ہے۔ اس شعبے کے قیام سے عوام کو ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ امراض قلب میں مبتلا متعدد مریض جب کورونا وائرس کا شکار ہوئے اور این آئی سی وی ڈی کے پری وینٹوِ کارڈیولوجی میں پہنچے تو صحت یاب ہوگئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صحت کی بہترین سہولیات موجود ہیں، کورونا کے باعث امراض قلب کے مریضوں میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے اور مختلف ممالک میں امراض قلب کے ماہرین نے پری وینٹوِ کاردیولوجی کا استعمال کرتے ہوئے مریضوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا۔ پاکستان میں یہ طریقہ کار محدود حد تک موجود ہے۔ لیکن ٹھہرئیے۔۔۔۔سوال یہ ہے کہ آخر پری وینٹوِ کارڈیالوجی کیا ہے؟ یہ سمجھ لیتے ہیں۔
تو جواب یہ ہے کہ یہ ایک قسم کا طریقہ کار ہے، جس کے تحت امراض قلب کی شدت کو روکنا ، اور دل کا دورہ پڑنے کے خطرات کو کم کرنا ہے۔ این آئی سی وی ڈی کے حکام کے مطابق، امراض قلب کا شکار افراد جب کورونا وائرس کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی زندگی بچانا بہت مشکل ہو جاتاہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، پاکستان میں روزانہ فالج اور امراض قلب کے باعث اموات کی تعداد ایک ہزار یومیہ ہے اور دل کے امراض کورونا سے بھی زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہیں، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا ملکی معیشت لوگوں کو بچانے کی کوششوں میں ہی تباہ ہو جائے گی۔تشویش کی بات یہ ہے کہ کورونا وائرس امراض قلب میں مبتلا افراد کی زندگیوں کو خطرات میں شدید حد تک اضافہ کر دیتا ہے، ایسی صورتحال میں پری وینٹوِ کارڈیولوجی بہتر تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔
یہ شعبہ این آئی سی وی ڈی میں قائم کرنے کا مقصد تھا کہ دل کے امراض کی روک تھام کی جائے ، علاج کے ساتھ ساتھ دل کے مرض کو بڑھنے سے روکا جائے،، کورونا کی وبا کے باعث جب امراض قلب میں مبتلا افراد کی ہلاکتوں میں اضافہ ہونے لگا تو این آئی سی وی ڈی انتظامیہ نے لوگوں کی زندگیاں بچانے کی کوشش کے طور پر پری وینٹوِ کارڈیولوجی کے شعبہ کا بڑا فائدہ لیا جیسا کہ کچھ بیماریاں متعدی اور کچھ غیر متعدی ہوتی ہیں، کورونا تیزی سے پھیلنے والی متعدی بیماری ہے، لیکن عوام اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ حالانکہ ، ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی چھینک میں خارج ہونے والے ایک قطرے میں کورونا کے بارہ لاکھ وائرس موجود ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں لوگوں کو بہت ہی محتاط رہنے اور اس سے بچنے کے طے شدہ اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عوام الناس کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ متعدی بیماری تیزی سے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہو رہی ہے۔ کچھ بیماریاں طویل المیعاد یا مستقل ہوتی ہیں، جیسا کہ ذیابطیس، امراض قلب، فالج، ہیپاٹائٹس کے وائرس سے ہونے والی بیماریاں عام ہیں، تاہم دنیا میں اسی فیصد افراد محض امراض قلب کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح اور بھی زیادہ ہے۔
این آئی سی وی ڈی کے ایک ڈاکٹر خاور کاظمی کا کہنا ہے کہ کورونا ایک موتمار بیماری ہے، لوگوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے نئے طریقے تلاش کرنے چاہئیں، غیر سنجیدہ رویہ ناقابل قبول ہے۔ امراض قلب کا شکار افراد کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں یومیہ ایک ہزار ہلاکتوں کے باوجود کوئی بھی اس کو سنجیدہ لینے کے لئے تیار نہیں۔ ہمارے یہاں لوگوں کی یادداشت یا حافظہ بہت ہی کمزور ہے، وہ بہت جلد چیزیں بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ، 2025 تک پاکستان میں امراض قلب کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد دگنی ہو کر دو ہزار یومیہ تک پہنچ سکتی ہے اور کورونا کی موجودہ صورتحال میں اگر اس کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو امراض قلب کا شکار لوگوں کی ہلاکتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوسکتا ہے۔
طب سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر اور بلند فشار خون (بلڈ پریشر) کا شکار افرا میں کورونا کا وائرس زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتا ہے، موٹاپے کا شکار اور بزرگ افراد بھی اس بیماری کا آسانی سے شکار ہوسکتے ہیں، امراض قلب میں مبتلا افراد بھی کورونا وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ، اس لئے لوگوں کو بیماری کو روکنے والے اصولوں کے تحت ورزش اور احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ مرض کی شدت کو کم کیا جا سکے۔