|

وقتِ اشاعت :   June 18 – 2021

ڈاکٹر کہور خان ،افضل مراد،وحید زبیر،اے ،ڈی بلوچ،پناہ بلوچ،قیوم بیدار،نور خان نواب ،ڈاکٹر تاج رئیسانی،محمد اکبر بگٹی،رستم بلوچ،نور خان بلوچ،حمل بلوچ،حنیف بلوچ،قاضی محمد ظریف،پروفیسر حسین ساجد اور چند دوسرے
مکتبہ یوسف عزیز مگسی کی جانب سے ادب زندگی اور سیاست کے موضوع پر ایک مباحثہ بمقام ’’لنجو‘‘پارک ہزار گنجی بتاریخ 13جون 2021کو منعقدہ ہوا۔

مذاکرے میں حصہ لیتے ہوئے درج بالا مندوبین نے ادب ،زندگی اور سیاست کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے ماضی کے سماجی اقتدار ادب سے منسلک تھے جو زندی کی علامت تھے ۔سماجی زندگی اور ترقی پسند سیاست سے وحدت جوڑ کر معاشرے کی ارتقائی عمل میں اپنا بنیادی کردار ادا کررہے تھے لیکن اکیسویں صدی کے دوران عالمی سیاسی صورتحال،سماجی اتھل پتھل اور غیر سیاسی پنپر مبنی پاور پولیٹکس کی سیاست نے ہمارے ہاں سماجی اقدار پر کاری ضرب لگا کر انہیں گزند پہنچایا،ہمیں پاور پولیٹکس کے منفی رویوں کے خلاف اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔

بلوچ قوم میں جو کہ ایک جغرافیہ حدودمیں پھیلا ہوا ہے مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔بلوچی براہوئی ،سندھی ،سرائیکی،پنجابی،کھیترانی،دہواری‘ بلوچ قوم میں بولی جانیوالی ان زبانوں کے اشتراک سے بلوچ قومی ادبی تشکیل پاتا ہے لیکن یہاں ہر ایک اپنے دائرہ محدود ہے اگر بلوچ قوم کی بولی جانیوالی زبانوں کے اکیڈمیز کو دیکھا جائے تو پبلکشنز کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرتے،لیکن ہمارے سیاسی پارٹیاں بھی اس جانب توجہ دینے سے قاصر ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آپ کا ادب سیاست کو ڈکیٹ کرتا ہے یا آپ کی سیاست ادب کو؟
مذاکرے میں شریک مندوبین نے اس سوال کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارے سماج کے اندر سیاسی ورکر ادیب،شاعر اور دانشور کا نقطہ نظر کتنا وسیع ہے ۔اگر اس کا نقطہ نظر وسیع ہوتو اس کی سیاست اور معاشرت پر مثبت اثرات پڑیں گے اگر وہ محدود زاویہ سے سوچھے گا تو اس کے اثرات سماج اور ادب وسیاست پر منفی پڑیں گی ہماری سوچ کا معیار یہ ہوناچاہیے کس کے وژن نے کتنا اثر ڈالا ہے چاہے وہ کسی پارٹی سے ہو یا ایک ادیب کے حوالے سے سوچتا ہو۔ہمیں فرد کے بجائے فکر کو دیکھنا چاہیے فرد سے اختلاف کے باوجود کہ وہ کسی پارٹی سے ہے لیکن ہمیں اس کی پارٹی نہیں بلکہ فکر پر توجہ دینیچاہیے۔ اگر فنکار دانشوریا کسی سیاست دان کا فکر سماجی ارتقاء سے مطابقت نہیں رکھتا اور محدود اور منفی سوچے گا تو اس کا اثر معاشرہ اور شہر پربھی پڑے گا
سماج کو آگے بڑھانے کی سوچ سماجی حیثیت اقدار روایات جس مرحلے پرہونگے اس کے Reflecionاتنا ہی ہوگا لیکن موبلائزیشن کے ذریعے سماجی ارتقاء کی رفتار کو تیز کیا جا سکتا ہے جس کا ارتقائی عمل میں بڑا عمل دخل ہے ۔
یورپ میں پہلے آگ بجھانے کا تصور ابھرا اس وقت فائر بریگیڈ کا عملہ موٹر ٹرک کی بجائے گھوڑا گاڑی پر پانی کا ٹینک لادکر آگ بجھانے کا کا م سرانجام دیتا تھا ۔ایمبولینسزبھی گھوڑا گاڑی پر مبنی تھے لیکن آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ہماری بلوچ سوسائٹی اس سے بھی پسماندہ زندگی گزار رہی ہے ۔

قوموں کے اندر لیڈر شپ سماج کے باشعور لوگ ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں لیڈر شپ اسٹیبلشمنٹ کے سلیکٹڈ لوگوں پر مبنی ہے اسی طرح ہمارے ٹریفک کا بے ہنگم نظام بتاتا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں برداشت نظم وضبط کا معیار کیا ہے؟۔
ہمارے ہاں کے سیاست کے معنی منفی حوالے سے متعارف کیا گیا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ سیاست سماجی سائنس ہے سماج کے اندر کے رہنے والے لوگوں کے درمیان کمیونیکیشن کا نام ہے لیکن ہمارے ہاں سیاست کے فائدہ مند ثمرات کو منفی ثمرات میں بدل دیا گیا ہے۔


عام آدمی کا پہلا مسئلہ معاش کا ہے وہ زندگی کو گزارنے کے لئے تگ ودو شروع کرتا ہے ایسی تگ ودو سے وہ سرمایہ کو پیدا کرتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔
لیکن آج کی منفی سیاست اس کی ضروریات زندگی کی خواہش کو پر فریب نعروں کے ذریعے تابع بناتا ہے اس کا استحصال کرتا ہے اور اسے اپنے سورس آف پاور کیلئے بروئے کار لاتا ہے ۔

ہمیں سیاست کے اس مروج کلچر کو جو مروج ہے بدلنا ہے اس مروج کلچر کو ہمارا حکمران طبقہ ، ریاستی مشینری نے اپنے مختلف مافیاز کے ذریعے ہمارے سروں پر تھونپا ہے اس کے بدلنے کیلئے ہمیں مثبت اور سماجی ارتقاء سے مربوط سوچ کے ذریعے مائنڈ سیٹ کے لئے آگے بڑھنا ہے نئے خیالات اور سماجی اقدار میں جدت پیدا کرنے والے سوچ کو فروغ دیتا ہے کیونکہ کسی بھی سماجی تبدیلی سے دانش و علم کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا سماجی تبدیلی میں دانشوروں کا رول بنیادی رہا ہے کارل مارکس ، ٹالسٹائی ، چیخوف ، میکسیم گورکی ، ٹیگور اور دوسرے اہل علم کا زول اہمیت کا حامل رہا ہے بلکہ نشان راہ کی حیثیت حاصل کی ہے ہمیں بھی اپنے افکار کو سماجی ارتقاء اور مثبت اقدار کیلئے بروئے کار لانا ہے ،
ہمارے ادب میں سماجی تضادات پرمبنی کوئی بھی کتاب نہیں ہے وہ ادب جو ہمارے فکر کو تحریک بخشتا ہے وہ نہ بلوچی میں ہے اور نہ براہوی میں اسی طرح بچوں اور عورتوں کے حوالے سے جدید دور سے مطابقت رکھنے والا ادب ناپید ہے زندگی گزارنے کیلئے دولت پیدا کرنے کے جو وسائل ہیں اس میں ہمارے ادب میں کوئی بھی مواد دستیاب نہیں نہ ہی سیاسی معیشت پر ایک صفحہ لکھی گئی ہے ۔
رائٹر یہاں تنہا ہے اس کی فکر کو آگے بڑھانے کیلئے سوائے اکادکا وسائل کے کوئی بھی ادارہ نہیں وہ کلچر جو چالیس سال پہلے یہاں رائج ہوا تھا وہ ٹوٹا نہیں وہ روزبروز ہمارے سماج کو پستی کی طرف لے جانے میں مصروف عمل ہے چالیس سالوں سے ہمارے ہی لوگ اقتدار میں موجود ہیں جنہوں نے پستی کے ان عوامل کو توڑا نہیں بلکہ ان سے سمجھوتہ کر کے سماجی اقدار کو ختم کرنے والے عوامل کو پروموٹ کرتے رہے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے شہروں میں باہر کا جو کلچر ہم پر تھونپا گیا اس سے تمام رولز و قوانین کا ستیاناس کر دیا ہمارے ہاں کوئی تھنک ٹینک نہیں سیاسی پارٹیاں روایتی ڈگر پر چل رہی ہیں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہت پیچھے رہ گئے دنیا نے زبان ، علم وانصاف سے ترقی کیا ور ہم نے اپنے مثبت سماج و قبائلی ا قدار کا بھی ستیا ناس کر کے رکھ دیا ۔

ہم آپس میں الجھے ہوئے ہیں ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں ہمارے مسائل بھی الجھے ہوئے ہیں ان مسائل کو سلجھانے کیلئے علم کی ضرورت ہے جس کی ہم میں کمی ہے اور نہ ہی کوئی اجتماعی پارٹی نے اس بگاڑ کو سلجھانے میں پہل کی ہے ہمارا معاشرہ خراب ہے بہت ہی خراب ، پہلے ہم انفرادی پاگل پن کے مرض میں مبتلا تھے اب اجتماعی پاگل پن اب ہم سب اپنے آپ کو ابنارمل محسوس کرتے ہیں ہم نے اپنے آپ میں وہ جنوں بھی پیدا نہ کر سکے جو اپنے منزل تک پہنچنے کیلئے ہاتھ اور پیر مارے ہم تو کپڑے پہنے ہوئے پاگل ہیں ہمارا اپنا کوئی ٹارگٹ بھی نہیں ہے ہم جنوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں ہم اپنے دانشوروں اور سیاسی اکابرین کی پاگل پن کو محسوس کرتے ہیں لیکن زبان پر چپ ساد لئے ہوئے ہیں کہنے سے ہچکچاتے ہیں ۔
ہمارا حال اس گدھے کی ہے جس کی قیمت دس ہزار ہے جو باربرداری کرتا ہے کماتا ہے لیکن جب وہ حادثہ میں بے کار ہو جاتا ہے تو اس کی قیمت بڑھ کر تیس ہزار ہوتی ہے ۔

آج ہمارے سیاست سلیکٹڈ ، نواب سلیکٹڈ ، سب سلیکٹڈ اقدار پامال ، روایات ختم ، جرگے ختم ابھی تو ہر قبیلے کے تین چار سردار ہیں فیصلے اوپر سے لاگو کئے جاتے ہیں ۔
انگریزوں نے ہمارے روایتی جرگوں میں تبدیلی لا کراسے اپنے مفادات کے تحت ڈیزائن کیا اب ہمارے جو حاکم بنے ہیں انہوں نے اپنے مفادات کے تحت انہیں پھر سے ڈیزائن کر رہے ہیں ہم نے 89ء میں پروگریسو یوتھ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے ایک فیصلہ کیا کہ ہم اپنے معاشرے کے مختلف طبقوں کے رہن سہن و ان کی معیشت کا تجزیہ کریں اور اس حوالے سے ہم ان کے مسائل سے آشنا ہو کر انہیں اپنی جدوجہد کا حصہ بنائیںگے لیکن تقسیم در تقسیم نے ہمیں اپنے پروگرام سے بہت دور لے جا کر ہمیں ناکامی سے دوچار کیا سیاست میں ہمیں اپنے معاشرے کے مسائل کو ساتھ لے کر اپنی حکمت عملی بنانی چاہئے لیکن ہماری سیاسی پارٹیاں اپنے پروگرام کے حوالے سے اپنے عوام کی معاشی زندگی کے مسائل سے مطابقت نہیں رکھتے وہ ان سے نابلد ہیں جس کی وجہ سے ہم پستی کی طرف گامزن ہیں ہمارا سیاستدان دانش سے دور ہے اور ہمارا دانشور سیاست سے پرے ہے ادبی حوالے سے ہمارا اپنے معاشرے میں متاثر کرنے کی رفتار بہت ہی آہستہ ہے ہمارے سماج میں سیاسی پراسز نوخیز ہے ہمارے سیاسی زعماء نے ابتداء میں سیاست کے جو بھی موثر ہتھیار تھے انہیں استعمال کیا لیکن اب گزشتہ چالیس برسوں سے پاور پالیٹکس کی روایات سامنے آئے ہمارے حکمران طبقہ سیاسی پراسز کو چلنے نہین دیتا کبھی باپ بناتا ہے کبھی ماں پھر کبھی ان سب کو اکٹھا کر کے ان کا مغلوبہ بناتا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست ادب کا پیدوار ہے جو کہ ڈاکو منٹس سے پیدا ہوتا ہے اگر لٹریچر نہ ہو گا تو سیاست کا حال غیر سیاسی پن ہو گا سیاست نہیں کہلائے گی لٹریچر سیاست کو جاندار بناتا ہے لٹریچر جتنا جاندار ہوگا سیاست اتنا ہی توانا ہوگا ۔

ہمارے ملک مین سوال کو مار دیا گیا ہے ہم نے جب نوجوانوں کو سوال کرنا سکھایا تو جرات پیدا ہوگی ہمارے ہاں تنقید ناقابل برداشت ہے ہمیں تنقید کو ابھارنا ہے جب تک ہم اپنے روایتی دائرے سے نہیں نکلیں گے آگے نہیںبڑھیں گے ہمیں اپنے خول سے نکلنا ہے آگے بڑھنا ہے ۔

ہمارے دیہاتوں میں بجلی آنے سے پرانے لوگوں میں ہیجان پیدا ہوا وہ بول اٹھے کہ اب تو ہم برباد ہو گئے تباہ ہوگئے ہماری عورتیں کسی کام کے نہ رہے اب بٹن دباتے ہی پانی نکل آتا ہے پہلے لکڑی سے روٹی پکاتے تھے اب گیس سلنڈر ہے پہلے پانی اور لکڑی کیلئے دور دور جاتے تھے اب گھروں میں بے کار بیٹھی ہوئی ہیں ہمیں اس قدیم میتھ کو بدلنا پڑے گا ہمیں انسانوں کی طرح سوچنا پڑے گا ۔

ہماری شناخت کا مسئلہ اور سماجی مسائل کے انبار اپنی جگہ لیکن جب ہم سیاست کو پاور کے طور پر پرلیں گے تو اس کا حال یہی ہوگا ہماری پارٹیاں سیاسی قبائل ہیں جب تک یہ پاور گیم کا سرکل نہیں ٹوٹے گا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے رول آف گیم کو تبدیل کرنے سے اپنی سیاست کو اپنے سماجی مسائل سے مطابقت پیدا کرنے سے ہم سماجی تبدیل کے ارتقائی مراحل میں قدم رکھ سکتے ہیں سماجی تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ ہمارا سیاستدان دانش سے رعنبت رکھے اور ہمارا دانشور سماجی مسائل کو اپنے فکر کا ماخذ بنا کر نشان راہ دکھا سکے ۔