|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2021

عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے بلوچستان کی محرومی ختم کرنے کے بجائے اپنے مفادات کیلئے اسمبلی میں لڑرہے ہیں۔اور عوام کو سبزباغ دکھانے اور خوشنما نعروں کی بنیاد پر سیاست چمکانے والوں نے عوام پر مہنگائی اور بے روز گاری مسلط کر رکھی ہے بلوچستان کے عوام کو غربت کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔بلوچستان میں اب موروثی سیاست کا راج ہے ہر پارٹی سربراہ کی کوشش ہے کہ اقتدار اس کی اگلی نسل تک منتقل ہو جائے اور ان جماعتوں میں شامل دیگر رہنما پارٹی قیادت کی غلامی کر رہے ہیں۔بلوچستان میں منتخب ہونے والے عوامی نمائندگان کے پاس اپنا کوئی سیاسی پروگرام نہیں آپ دیکھیں کہ 80 فیصد وہی لوگ ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں رہے۔

یہ سب نظریات کی بجائے اپنے مفادات کیلئے آئے ہیں۔اور اسمبلی میں صرف مفادات کی سیاست ہو رہی ہے نظریات اور غریب عوام کی کسی کو فکر نہیں سیاسی جماعتیں اقتدار اور اپنے جیبوں کو بھرنے کیلئے جنگ لڑ رہی ہیں کسی کو بھی صوبہ کے عوام کا مفاد عزیز نہیں، اگر کسی بھی پارٹی کو لوگوں کا مفاد عزیز ہوتا تو اسمبلی میں ایک دوسرے پر الزامات ،ہاتھاپائی دیکھنے کو نہیں ملتا۔اگر بلوچستان کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے مخصوص مفادات اور سیاسی بندوبست کے تحت راتوں رات بننے والی پارٹیاں یا تو انتخابات میں بڑی قوت کے طور پر ابھرتی ہیں جیسے ہی سیاسی مقاصد اور مفادات بدلتے ہیں تو ایسی جماعتیں محض الیکشن کمیشن کی فائلوں میں ہی باقی رہتی ہیں۔یہ لیڈران اپنی مقبولیت اور عوامی خدمات کے بجائے آئینی عہدوں کی بدولت پہچانے جاتے ہیں اور جیسے ہی ان عہدوں سے ہٹتے ہیں تو پھر منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔

افسوس مگر اس بات کا ہے کہ بلوچستان میں لیڈر شپ اور سنجیدہ منشور کے ساتھ سیاست کرنے والی پارٹیاں نایاب ہیں۔چند قبائلی شخصیات جنھیں لوگوں سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں وہ لیڈر شپ کا کردار ادا نہیں کرسکتے ،یہ وہی آزمائے ہوئے لوگ ہیں جنکا اقتدار جب خطرے میں ہوتا ہے تو یہ تمام سیاسی حربے استعمال کرکے اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دیتے ہیں اور نتائج عوام کے سامنے اسمبلی میں گالم گلوچ ،تشدد اور ایک دوسرے پر مختلف قسم کے الزامات لگاکر پیش کرتے ہیں،پھر عوام میں مایوسی اور ناامیدی جنم لیتی ہے۔