گزشتہ چند دہائیوں سے پاکستان بشمول بلوچستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک ، ملکی اور عالمی اداروں کے پلیٹ فارمز پر ماحولیات کی موجودگی کے خطرات اور ان کی بیخ کنی کے لئے منصوبہ بندیوں میں پیش رفت اور موثر اور کار گر نتائج اور اثرات کے حصول کے بارے میں پالیسیوں کے سنجیدگی کے ساتھ پیش رفتوں کے سلسلہ ہائے انبار نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ماحولیات کے بارے میں منصوبہ کو زیر عمل لاکر ان کے نتیجے میں انسان دوستی کے جذبات اور احتساب پر توجہ دے کر ان سے مطلوبہ اثرات و نتائج حاصل کرنے پر توجہ اور کوششیں مرکوز کی گئیں۔
پاکستان اس کے دیگر صوبوں سمیت بلوچستان میں ماحولیات کے خطرات کے بارے میں آوازیں بلند ہونے لگیں اور ان کی وجہ سے انسانی زندگی کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے حوالے سے مربوط اور جامع منصوبوں کی تشکیل اور انہیں نتیجہ خیز طور پر عملدرآمد بنانے کی کوششیں نہ صرف کہ ترقی کے پائپ لائن میں ان منصوبوں کی موجودگ کے منصوبے حکمرانوں اور با اختیار اداروں کی توجہ کا منبع اور مرکز بنتے گئے۔
بلکہ ان کی عملیات کو انسان کو درپیش مسائل کے خاتمے اور ان ے جامع منصوبے تیار ہوکر زیر عمل آنے لگے اگرچہ اس بارے میں صدائیں اور توجہ تو کوئی صدیوں پہلے دکھائی اور سنائی دینے لگے اور بلوچستان سمیت پاکستان کی دیگر اکائیوں میں ماحولیات کے خطرے کو بھانپ پر اس بڑھتے ہوئے خطرے کو کافور کرنے کا سلسلہ سلسلہ چل نکلا ویسے تو عالمی سطح سے لے کر پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں بھی ماحولیات کے مضر اور انسانی زندگی کو لاحق خطرات کا ادراک ہونے لگا با ایں وصف صوبہ بلوچستان کی موجودہ حکومت کے سربراہ جام کمال خان نے اس آفت اور مصیبت کو اپنی سنجیدہ توجہ کے فریم ورک میں داخل کرکے اس سلسلے میں باقاعدہ وژن کو مشعل راہ بناکر منصوبہ بندی کو اولیت دی گئی۔
چنانچہ آج پاکستان کے دیگر صوبوں سے بڑھ کر ماحولیات دور اندیشوں کو عدم موخود رنگ دینے کی تدبیروں کا صرف چرچا ہی نہیں ہوا بلکہ اس کے مطلوبہ اثرات اور نتائج بھی حاصل ہونے کے امکانات تیزی سے بڑھنے لگے اور جام کمال خان نے خود اور ان کی حکومت نے اس خطرناک پہلو کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے کے سلسلے شروع ہوگئے ویسے تو تپ دق، پولیو، ملیریا، طاعون اور دیگر انسان دشمن امراض پر توجہ دی جانے لگ مگر اس وقت ماحولیات کا عفریت بھی موجود تھا مگر اس پر توجہ کا سلسلسہ بڑی حد تک مفقود ہی نظر آتا ہے۔ مگر بیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں ماحولیات کو باقاعدہ ایک بڑے خطرے کا درجہ دے کر اس کے خاتمے کی تدبیریں ہونے لگیں کیونکہ ماحولیات کی بائی پروڈکٹس کے طور پر ماحولیات کو دوسری بیماریوں اور انسانی زندگی سے چمٹے ہوئے خطرات کو عملیات کی پائپ لائن میں ڈالنے کا سلسلہ چل نکلا ہر چند کرونا اور دوسری مہلک بیماریوں سے انسان کی مصیبتوں اور آفت کا خیال پختہ تر ہوتا گیا۔
کرونا نے ان سب پر جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس حوالے سے اس امر کی بھی تصدیق ہونے لگی کہ ماحولیات در اصل دیگر انسان دشمن بڑی بیماریوں کے خطرات کی کرونا سے بڑھ کر ماحولیات کو ماں کا درجہ حاصل ہے اور یہ شک یقین میں بدل گیا کہ ماحولیات کا گلہ دبانے سے انسان کو کامل صحت یابی کی نعمت مل سکتی ہے۔راقم السطور زیل میں ماحولیات کی یلغار سے ابھرنے میں خطرات کا ذیل میں اجمالی طور پر ذکر کرکے آگے بڑھے گا اور بتائے گا کہ اس جان لیوا خطرے کو کیسے سیاست کرنے کے منصوبے زیر عمل آرہے ہیں۔ اور اس انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے نجات دلانا در اصل دیگر خطرات امراض سے بھی نمٹنے مے مترادف ہے یہ بات کوئی مبالغہ نہیں رکھتی کہ انسان اس کرہ ارض کا مرکزی جزو او رحصہ ہے۔
اور بتدریج اللہ پاک کی اس مخلوق کے ماہرین نے انسان کے لئے سہولیات کے ساتھ زندگی گزارنے کے امکانات کو حقیقت کا روپ دیا اور مزید اس میں بڑھاوا لارہا ہے۔ یہ اس لئے بھی لازمی اور امر مبرم ہونا چاہئے کہ اس المیہ کا اصل پش منظر کیا ہے اس کی جانکاری سے ہی اس پیش منظر مرئی ہوسکے گا۔ چنانچہ آج کی انسان اور اس کی دانش مندوں اور ماہرین اور فکری و عملی کلچروں نے اپنے گوشوں اس حوالے سے مربوط کرنا شروع کردیا ہے۔ ان مساعی ہائے جمیلہ کو ثمر آور بناکر انسانی زندگی کو مستقبل کے المیوں اور خطروں سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
ہم نے بالا سطور پر انسان کی انسانی حیات کے لئے پیدا کرنے والی سہولتوں کا ذکر کیا تھا سہولتیں یقینا انسانی حیات کے لئے فکری اور عملی سے قطع نظر جسمانی آسائشوں سے بھی انہیں تعبیر کرسکتے ہیں۔ یعنی انسانی حیات جس طرح کے ماضی اور حال میں مقید تھی اس کا تقاضا ہی بنتا تھا کہ اس ماحول کو تبدیل کرکے انسانی حیات کے لئے زندگی بخش امرت دھارے کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے کیونکہ اس سے انسانی ذہن کی نشو و نما بھی ممکن بنتی ہے۔ آسائشوں کے حصول کی دوڑ میں اپنے لئے سہولتوں سے اپنے لئے آرام ، سکون اور اطمینان قلب کے سہاب کا حصول یقینی بناتا آرہا ہے اس تگ و دو میں بلا شبہ انسان کے لئے مزید مسائل ایک چیلنج سے بڑھ کر سر اٹھاتے رہے یعنی اچھے اور برے دونوں پہلو ایک دوسرے پر غالب آنے کی جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اس نوع کی کشمکش نے انسان کے لئے مزید آزمائشیں، امراض اور خطرات بھی پیدا کردیئے ہیں۔ اور اس سے کرہ ارض مزید مسائل اور مشکلات کے شکنجے میں جکڑی جانے لگی جن مشکلات کا اس عاجز نے ذکر کیا ہے انسان کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اس میں درجہ حرات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اس میں درجہ حرارت (AZONE) میں بگاڑ اور خرابی درآنے کے پریشان کن موجودگی کے مناظر ابھرنے لگے اور کمال یہ ہے کہ درجہ حرارت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ گلیشیئرز کے پگھلنے کی مقدار اور تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہونے لگا ہے۔ اس صورتحال سے آبی حیات خطرات کی زد میں آتی جارہی ہے اور انسان کی مشکلات اور پریشانیاں بڑھتے ہوئے محسوس ہورہی ہیں اور اس پہلو سے ماحولیات میں اضافے کے اسباب موثر ہوکر بڑھتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں جنگلات کا ذکر بھی ناگزیر ہے۔
کیونکہ ان کی بے دریغ کٹائی کے بلواسطہ اور بلاواسطہ انسانی زندگی کے لئے ’’زہر قاتل‘‘ کا سا کام سر انجام دینا شروع کر رکھا ہے اور اس پر غضب یہ کہ انسان کے زیر استعمال گاڑیوں اور کارخانوں و فیکٹریوں سے دھواں اگل کر فضاء کو آلودہ کرنا شروع کررکھا ے اور عملی صدیوں اور دہائیوں سے تواتر کے ساتھ شروع ہے اس سے انسانی زندگی کے علاوہ دیگر جانوروں، پھلوں ، سبزیوں اور زندگی اور جانوروں کی خوراک بننے والی چیزیں آلودہ ہورہی ہیں۔ گویا کرہ ارض پر موجود انسان ہی نہیں بلکہ حیوانات ، نباتات اور گردوپیش کے ماحول اور اس میں موجود ہر شے آنے لگی ان صورت احوال انواع و اقسام کی بیماریوں کے سیلاب آنے شروع ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی صورتحال ماحولیات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ طرح طرح کی انسانی اور جانداروں کو جلدی امراض، سانس کی بیماریاں بھی غیر معمولی تعداد میں پیدا ہوچکی یں۔
یعنی آلودہ فضاء نے کرہ ارض کے چپے چپے کو المناک اور خطرناک امراض کا گڑھ بناکر رکھ دیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کا 10بلین ٹری اس بڑھتے ہوئے خطرے کے قدم روک سکتا ہے۔ انہی معاملات نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کو فکر مندی کے ساتھ ساتھ ایک وژن کی دولت بھی عطاء کی ہے۔ جنہوں نے اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دن رات ایک کرکے رکھ دیا ہے اور مختلف منصوبے زمین پر بھی نظر آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ پودوں کی شجرکاری بھی اہمیت رکھتی ہے۔ جاری معلومات کے مطابق ہمارے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عملی اور وژن کو عملی رنگ اور روپ دینے کو ایک بڑی اہمیت دی ہے اور اسے بنی نوع انسان کی بقاء اور زندگی کے لئے ایک بڑے اقدام سے تعبیر کیا۔
ماحولیات کو بڑھتے ہوئے عفریت پورے کرہ ارض کے انسانوں کے لئے لا تعداد نفسیاتی مسائل بھی پیدا کردیئے ہیں۔ کیونکہ یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ اگر انسان کے لئے اردگرد کا ماحول خوشگوار اور بے ضرر ہو تو انسانی فکر، عمل میں بھی انسان دوست رویہ اور فکری انداز ابھرتے ہیں اس حوالے سے انسان اچھے عمل اچھی سوچ کے ابھرنے سے پوری انسانی زندگی پر اس کے م؟ثبت اور جانفر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان سب سے اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انسان امراض سے نجات پاکر صحت مند زندگی کا حامل ہوجاتا ہے اور اس کی انسانی کاوشیں مزید ثمر آور اور با آور ہوجاتی ہیں۔
ماحول کی بہتری، انسان کے لئے پید اہونے والی چیزیں یعنی گندم ، چاول اور دوسری فصلیں ، پھل اور انسانی ضرورت اور پسند کی دیگر اشیاء بھی ماحول کی بہتری سے کماحقہ ہو فائدہ حاصل کرتے ہں کیونکہ ماحولیات سے اس کے دائرے اور اثرات میں آنے والی انسان سمیت ہر شے آلودگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے کیونکہ انسانی زندگی جب خوراک اور دوسری خوردونوش کی اشیاء آلودگی کی وجہ سے کیمیائی مادوں کی لپیٹ میں آئے ہوتے تو بھی مضر ہوکر نا قابل استعمال ہوجاتی ہیں۔ اس طرح قلت کے اسباب، پیدا ہوکر بحران کا رنگ حاصل کرلیتے ہیں۔ بلوچستان کا ذکر اس حوالے سے خصوصی طور پر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سرزمین کا ایک بڑا حصہ اور اس کا فضاء کی ساخت اس نوعیت ہے۔ فضائی آلودگی کی زد میں ہوتا ہے اس حوالے سے ہی کوئٹہ شہر کو پہلے دنیا بھر میں آلودگی کے حوالے سے اول درجہ پر فائز تھا پھر اسے پانچویں نمبر پر ٹھہرایا گیا۔
حالیہ رپورٹ کے مطابق ہمارا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو رہائش کے قابل نہیں۔ یعنی جہاں ملک کی سب سے زیادہ آبادی ہے ان کی زندگیاں ہمہ وقت خطرات کی زد میں ہوتی کوئٹہ اور صوبے کے دیگر شہر پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے پیالے کی سی شکل میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ آلودگی کے ’’مارے‘‘ ادھر ادھر جانے کی بجائے ’’پیالے‘‘ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ نکاسی آب کا نظام بھی درہم برہم ہیں یہ آلودگی کو بڑھانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ کوئٹہ سمیت پورے ملک کے شہر ٹریفک کی گاڑیوں وغیرہ کے دھواں سے ہمہ وقت اپنے اندر آلودگی کے ’’مرغولے‘‘ سمیٹتے ہیں کوئٹہ کے شہر میں اس دھواں اور نکاسی آب کے ذریعے سے جو مارے پیدا ہوتے ہیں اس کی وجہ کوئٹہ شہر کے لوگوں کی ذہنی کیفیت نسبتاً دوسرے شہروں کے باسیوں سے زیادہ منفی انداز میں متاثر ہوتی ہے۔
موضوع تو بہت طوالت مانگتا ہے۔ راقم السطور نے مختصراً بالا تحریر میں ذکر کیا ہے جس میں بلوچستان کا ذکر شامل ہے۔ اس میں آلودگ کے وافر مقدار میں ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں اور مسائل کی بناء پر وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو اس گھمبیر اور جان لیوا معاملات کے بارے میں یہ وژن عطاء کیا کہ کم از کم اس صوبے کے باسیوں کو آلودگی کی قہر مانیوں سے نجات دلانے کے لئے فکری کے بعد عملی طور پر متحرک کیا یہ سب ان کے وژن کا کمال ہے جس کا چرچا ملک کے اندر اور باہر ہورہا ہے۔ ہم ذیل میں ان وژن کے مطابق اب تک پیش رفت ہے اس کا ذکر کرتے ہیں۔ جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ حکمران عوام کو لاحق المناک اور مہلک امراض اور مسائل کا ادراک اور احساس رکھتے ہیں۔
جام کمال نے اس بارے میں جو منصوبہ بندی کی ہے اور جن پر عملدرآمد کا آغاز کیا اس کا اجمالی سا ذکر اپنے قارئین کرام کی معلومات کے لئے کرتے ہیں۔ پانی کی قلت بھی بلوچستان کا اہم مسئلہ ہے۔ اس کی چھوٹی بڑی 23 وادیاں پانی سے اٹی پڑی ہیں لیکن وہ پانی بے مصرف چلا جاتا ہے۔ ڈیمز اور نہریں بلوچستان کے لئے سونے چاندی کی کانیں ثابت ہوسکتی ہیں۔ پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ بارشوں کی کمی ہے۔ اگرچہ جغرافیہ والوں کے مطابق اب مون سون ہوائوں کے رخ چند سال سے بدل گئے ہیں ان سے بلوچستان میں بارشوں کے بڑھنے کے امکانات تھے مگر اب تک قدرت کی فراخدلی کے زیادہ آثار ہویدا نہیں ہوں اس پانی کی قلت کی وجہ بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ نے جہاز کے ذریعے پہاروں پر نقلی بارش کا سلسل شروع کیا تھا مگر یہ بہت گراں تھا صرف ایک منٹ پر 30 ہزار روپے خرچ ہوتے تھے۔ کاریزیں اور چشمے خشک ہوگئے ہیں۔ زراعت اور آبپاشی کی بساط لپٹی جارہی ہے۔ اس صورتحال میں ڈیمز کی تعمیر لازمی ہے۔ بلوچستان دریائے سندھ سے اپنے حصے کے پانی کو نہروں کے ذریعے سرحدی علاقے کی زرعی زمینوں سیرآب کیا جاسکتا ہے۔
بعض کوئٹہ کے لئے دریائے سندھ کے پانی کو پائپوں تک لانے کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ پانی کی اگر بات کریں تو اگر زرعی زمینوں کی پیاس بجھادی جائے تو بلوچستان سونے کی چڑیا حقیقت میں بن سکتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے ذہن میں اس نوع کے متعدد منصوبے ہیں انہوںنے کرونا کی بیخ کنی کرکے دوسرے صوبوں کے لئے مثالی کام کیا ہے۔ وزیر اعظم سمیت دیگر حقیقت پسند سیاستدان اس کا ذکر کرتے ہیں انہوں نے دوسرے شعبوں میں قابل ذکر اور قابل ستائش اقدامات کئے ہیں۔
ماحولیات کے بارے میں انہوں نے اپنے وژن پر لبیک کہا ہے انہوں نے عالمی یوم ماحولیات 5 جون 2021ء کے موقع پر اپنی وژن کی ایک جھلک دکھا کر قابل اقدام کرکے آنے والوں کے لئے ایک قابل تقلید کام کیا انہوں نے مذکورہ موقع کی مناسب سے موحولیات کو گویا زیر دینے کا مشکل کام کیا ہے اور ابتدائی طور پر انہوں نے کہا ہے کہ ماحول کا تحفظ ہم سب کی اخلاقی اور قومی ذمہ داری اور فرض ہے ہر آدمی کو کم از کم اپنے حصے کا موسم کے تناسب سے ایک درخت ضرور لگانا چاہئے کیونکہ یہ آئندہ نسلوںکے لئے ایک بہتر ، محفوظ اور سرسبز مستقبل کو یقینی بنانے کی نوید ثابت ہوسکتا ہے۔مواصلاتی نظام کی بہتری اور بحالی کے لئے حکومت بلوچستان نے بڑے موثر مگر ابتدائی کاموں کی شروعات کی ہیں جن کے تحت اب تک دس بلین ٹری کا سونامی منصوبہ کے تحت 2647 ایکڑ سے زائد زمین پر شجرکاری کی گئی ہے۔
اگر فلاحی، مذہبی، سماجی بلکہ سیاسی تنظیمیں اگر اس نیک کام کو اپنے مشغلے کے طور کریں اور آنے والے وقتوں نے بلوچستان کی نسلوں کے لئے سرسبز ہوکر ان کے لئے بہتر ماحول کا غماز ثابت ہوگا۔ کوئٹہ شہر پر اینٹوں کے بھٹوں کا دھواں برسوں تک اپنی غضب ناکی پھینکتا رہا ہے وہ اگرچہ بند کئے جاچکے ہیں اس کے باوجود اینٹوں کے بھٹوں کی زک زیگ ماڈل پر منتقلی ضروری ہے اس کے لئے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے۔ کوئلے اور دیگر معدنیات کے جو کریش پلانٹ کوئٹہ کے قریب بنائے گئے ہیں مگر صوبائی حکومت انہیں شہر سے باہر اور قدرے منتقل کرنے کا منصوبہ ہے اس پر جلد از کام شروع ہونا چاہئے رئیل ٹائم ماحولیاتی جائزے کے لئے 10 موبائل وید سٹیشنوں کے قیام کی منظوری تو دے دی گئی ہے مگر کام کے آغاز کو نئے بجٹ کے اعلان کے بعد فوری طور پر شروع کردیاچاہئے۔
میونسپل کارپوریشن کوئٹہ کے ڈیڈ ویدسٹیشن کی کی 14 کروڑ روپے کے خرچ سے بحالی میں بظاہر بحالی کا انتظار ہے 10 کروڑ روپے کی لاگت سے حب میں ٹیسٹنگ لیبارٹری کے قیام کی منظوری کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ دھواں دینے والے صنعتوں اور کاروباری افراد کے خلاف 300 مقدمات درج کئے تھے۔ صرف اس پر ہی اکتفا نہ کیا جائے مقدمے کا سہارا لینے کے لئے متعلقہ حلقوں سے باہمی مشاورت سے جلد از جلد آمادہ کیا جائے یہ سارے کام میں ماحولیات کی بہتری کے لئے کئے ہیں۔ کرونا کے خلاف منصوبے اور ان کام کی تیزی کا مقصد بھی یہی ہے۔