|

وقتِ اشاعت :   June 25 – 2021

بلوچستان کی تاریخ و تمدن اور ثقافت وقبائلیت ملک کے دیگر صوبوں سے ہمیشہ ہی الگ تھلگ اور مختلف رہی ہیَ بلوچ مئورخین کے مطابق بلوچ ہزاروں سال قدیم قوم ہے۔ جدید دور میں بھی بلوچستان میں قبائلی رسم و رواج اور اقدار و روایات کو ہی اولیت دی جاتی ہے۔ بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں غربت پسماندگی احساس محرومی کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے اب بھی بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو بلوچ معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس قبائلی معاشرے میں آج بھی خواتین کو انتہائی اہمیت اور عزت و تکریم دی جاتی ہے۔

قبائلی ناراضگیوں یا خونی جھگڑوں کے خاتمے کیلئے اگر خواتین دشمن یا مخالف کے گھر جائیں توجھگڑا ہی ختم کر دیا جاتا ہے۔ قبائلی معاشرے میں آج بھی خان نواب سردار میر ٹکری وڈیرہ کو لوگ عزت و احترام دیتے آرہے ہیں بلاشبہ قومی رہبر یعنی نواب وسردار بلوچ معاشرے میں انتہائی قابل عزت سمجھے جاتے ہیں۔ بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں سب سے زیادہ قبائلی جھگڑے رونما ہوتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں کو قبائلیت و انائیت کی بھینٹ چڑھا کر ہزاروں لوگ قبائلی جھگڑوں کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں اور اب تک کئی بڑے بڑے قبائل کے درمیان پرانی دشمنیاں ہنوز جاری ہیں۔ بلوچستان میں سیاست کی بجائے لوگ قبائلی روایات اور معاشرتی رواداری کو فروغ دیتے چلے آرہے ہیں بلوچستان میں ستر سالوں سے سیاسی میدان میں نظریہ یا سوچ کے بجائے شخصیت و قبائلی حیثیت سے ہی کامیاب ہوتے آرہے ہیں

صوبے میں شخصی سیاست کے علاوہ کوئی بھی پارٹی عوام میں وہ پذیرائی و کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے جو اب تک سیاست کے میدان میں نواب سردار قبائلی شخصیات کامیابیاں حاصل کر تے آرہے ہیں اور انہی خاندانوں کے لوگ ہمیشہ سے سیاسی اکھاڑے کے پہلوان بنتے چلے آرہے ہیں۔ بلاشبہ بلوچستان میں سیاست اخلاقیات تہذیب اور روایات کے تحت ہمہ وقت پروان چڑھتی رہی ہے لیکن عمران خان کی سیاست نے ملک میں اخلاقی روایات سیاسی اقدار اور سیاسی صبر وبرداشت کا جنازہ ہی نکال دیا ہے ۔سیاست میں گالم گلوچ بدتہذیبی سیاسی اقدار کو ملیامیٹ کر دیاگیاہیجس کا واضح ثبوت قومی اسمبلی کے حالیہ بجٹ سیشن میں جس طرح کی گفتگو یا ہلڑ بازی کی گئی وہ پاکستانی سیاست کے برعکس ہے۔ لیکن قومی اسمبلی کی دیکھا دیکھی بلوچستان جیسے مہذب قبائلی معاشرے کے حامل صوبے میں اپوزیشن نے جس طرح وزیر اعلیٰ پر گملے جوتے اور لوٹے مارے وہ پوری بلوچ قوم کیلئے ندامت اور پشیمانی کا مقام ہے۔ مجھے نہ تواپوزیشن سے گلہ اور نہ ہی حکومت سے ہمدردی ہے اس طرح کے جھگڑے اور فساد نے جہاں بلوچی روایات کو پامال کیا ہے وہاں ہمارے قبائلی معاشرے کیلئے بھی سوالیہ نشان چھوڑ دیا ہے۔

صوبے کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے جہاں غیر پارلیمانی غیر سیاسی اور غیر شائستگی کے عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ اپوزیشن کو احتجاج کاحق حاصل ہے احتجاج اخلاقیات اور سیاسی روایات کے مطابق کرنا ہر فرد کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ کیا اپوزیشن اپنے حقوق کیلئے گملے اور اسمبلی کے شیشے توڑ کریا توڑ پھوڑ کی سیاست کرکے اپنے مقاصد حاصل کرسکتی ہے؟ بلوچستان کی تاریخ کا یہ پہلا واقع ہے پوری اسمبلی کو میدان جنگ بنایا گیا جہاں اپوزیشن پارٹیوں کے عام ورکرز بھی اسمبلی پہنچ کرحالات خراب کرنے کی کوشش کی اور پولیس کے اوپر گملے تکپھینکے گئے لیکن پہلی مرتبہ پولیس نے بڑے تحمل اور صبر سے اپوزیشن کے جھگڑے کو کنڑول کرنے کی کوشش کی۔ یقینا وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اس طرح کے فساد کے حق میں نہ تھے اگر چاہتے تو وہ بھی اپنی پارٹی ورکروں کو اسمبلی آنے کا کال دیتے لیکن انہیں اس طرح کی رویے کی شاہد توقع نہیں تھی۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ انہیں فنڈز دینے کے بجائے شکست خوردہ یا ہمارے مخالفین کو نوازا جارہا ہے اوران غیر منتخب نمائندوں کے ذریعے ہمارے حلقوں میں مداخلت کی جا رہی ہے۔

اپوزیشن کاکہنا ہے کہ جام کمال خان اپوزیشن کو مکمل طور پر بجٹ میں نظر انداز کرکے اور دیوار سے لگا کر کس کو خوش کرنا چاہتے ہیں ہمارے تجویز کردہ منصوبے اور حلقے کی عوامی ضروریات کے بجائے چند افراد کو ترقیاتی اسکیموں اور پراجیکٹس سے نوازا جارہا ہے اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کے منتخب نمائندے ہونے کے باوجود عوام کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔ جام کمال خان حکومت کے قول و فعل میں بڑا تضاد ہے کیا کوئی بھی حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر عوام کی بہتر انداز میں خدمت کر سکتا ہے؟ یقینا اپوزیشن کو دیوار سے لگانا پارلیمانی روایات کے برعکس ہے کسی بھی ملک میں اپوزیشن کا کردار دراصل عوام کی ہی ترجمانی ہے جو ہر فورم پر عوام کی بہتر ترجمانی کرکے حکومت کو عوامی فلاح و بہبود اور مسائل کے حل کیلئے مجبور کرتی ہے۔

جبکہ دوسری جانب جام کمال خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن صوبے اور عوام کی ترقی کے بجائے اپنے ذاتی منصوبوں کیلئے فساد برپا کر رہی ہے اراکین اسمبلی منصوبوں کی تجاویز دیتی ہے اور حکومت ان کی منظوری دیتی ہے ہم نے حکومتی سطح سمیت عوام اور انتظامیہ کے تجاویز کی روشنی میں منصوبے تشکیل دئیے ہیں تو ان منصوبوں سے اپوزیشن کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے ۔ہماری حکومت نے بلوچستان بھر میں یکساں اور برابری کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبے مختص کئے ہیں کسی کو پسند یا ناپسند کے بجائے میرٹ پر ہی تمام علاقوں کو ترقیاتی منصوبے دئیے گئے ہیں تاہم اگر خدانہ خواستہ کسی بھی علاقے کو نظر انداز کیا گیا ہے تو اس طرح کا رویہ رکھنا یا جھگڑا فساد برپا کرنا اسمبلی پر حملہ کرنا اسمبلی کو یرغمال بنایا کس قانون اور کس سیاسی اشرافیہ کا وژن ہے۔

کیا حکومت اپوزیشن کو ترقیاتی اسکیمات نہ دے تو اپوزیشن کا اس طرح کا غیر سیاسی اور غیر جمہوری انداز اختیار کرنا جائز ہے؟ کیا آئندہ اس طرح کے واقعات سے شرفاء کے عزت محفوظ رہیں گے۔ جام کمال خان کی جگہ اگر نواب محمد اسلم رئیسانی، نواب ثناء اللہ خان زہری، سردار اختر مینگل، سردار یار محمد رند یا کوئی اور سردار یا نواب وزیر اعلیٰ ہوتے تو اس میں خون خرابہ نہ ہوتا؟ کیا اس طرح کی ہلڑ بازی سے قبائلی تصادم جنم نہ لیتا؟ یقینابلوچستان میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی اور پھر کسی کو زندہ باد اور مردہ باد کا موقع ہی نہیں ملتا۔ صوبے میں اپوزیشن اور حکومت نے ہمیشہ باری باری اقتدار کا کھیل کھیل کر صوبے اور عوام کو بدحالی عدم ترقی پسماندگی سے دوچار کرتی رہی ہے۔

اسمبلی میں گالم گلوچ اور لمبی لمبی تقاریر کرنے والے شام کو ایک ساتھ ایک ہی پلیٹ میں مرغی نوش جان کررہے ہوتے ہیں جبکہ عوام ان سیاسی شعبدہ بازوں کو اپنے اور علاقے کیلئے سیاسی مسیحا سمجھتے ہیں۔ بلوچستان ان نمائندوں کے ہوتے ہوئے کبھی ترقی نہیں کریگا اگر ترقی ہو رہی ہے تو ان 65 اراکین اسمبلی کی جن کے جائیدادوں میں روز بروز اضافہ ہوتاجارہا ہے کاروبار میں ترقی ہوتی جا رہی ہے ان کے بچے لندن امریکہ فرانس دبئی کینڈا جیسے ترقیافتہ ممالک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن محکوم اور مجبور عوام جدید ترقی اور اکیسویں صدی کی سہولیات سے ابتک ناواقف ہے ۔جس صوبے میں اربوں روپے ترقی کے نام پر خرچ ہوں وہاں ہسپتالوں میں لوگوں کی مرنے کی شرح پورے ایشیاء میں سب سے زیادہ ہو، صوبے میں تعلیمی معیار تباہی کے دھانے پرہواور شرح تعلیم تیس سے پینتیس فیصد ہو، جبکہ لاکھوں بچے تعلیمی اداروں سے دور محنت و مزدوری کر رہے ہوں، جہاں اربوں روپے روڈ سیکٹر پر خرچ کئے جا رہے ہوں وہاں سب سے زیادہ لوگ روڈ حادثات میں لقمہ اجل بنتے ہوں اور حادثات میں مرنے کی شرح ہزاروں میں ہوں لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے حکمران اور اپوزیشن عوام کے بجائے ذاتی مفاد کیلئے فساد برپا کریں، اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن بلوچستان کے عوام کا خون نچوڑنے کے بجائے عوامی ترقی پر فوکس کریں عوام کی معیار زندگی کو اولیت دیں اگر عوام نہ ہوگی تو آپ کس پر حکمرانی کریں گے؟ آپ کس طرح جائیدادوں کے مالک بنیں گے آپ بلاشبہ خود بھی کھائیں لیکن عوام کے درد کا درمان کریں ان کیلئے ہسپتال تعلیمی ادارے روڈ پینے کے پانی سمیت جدید سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں بصورت دیگر عوام کے غیض و غضب سے آپ ہزگز نہیں بچ سکیں گے۔