|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2021

بلوچستان کو صوبے کا درجہ 1970 ء کے عام انتخابات سے قبل ون یونٹ کے خاتمے کے نتیجے میں ملا تھا 1970 ء کے عام انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ سر دار عطااللہ خان کی مخلو ط صوبائی حکومت صوبائی کے وزیر خزانہ میر احمد نوازبگٹی نے پہلا صوبائی بجٹ برائے مالی سال 1972-73 جون 1972 ء میں پیش کیا تھا،بجٹ کا مجموعی ہجم 15 کروڑ 88 لاکھ روپے تھا۔

اور بجٹ خسارہ 8 کروڑ 29 لاکھ روپے تھا اُس وقت پاکستان میںسونے کی قیمت 271 روپے تو لہ اور امریکی ڈالر4 روپے 70 پیسے کا تھا اور اب18 جون 2021 ء کو جب وزیراعلیٰ میر جام کمال کی مخلو ط حکومت کے صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی نے مالی سال 2021-22 ء کا صوبائی بجٹ پیش کیا تو بجٹ کا کل ہجم584.083 بلین یا ارب روپے ہے جس میں کل آمدن کا تخمینہ 499.363 بلین روپے ہے اس طرح اس صوبائی بجٹ کا خسارہ 84.7 بلین روپے ہے اور آج یعنی 18 جون 2021 ء کو ملک میں ڈالر کی قیمت 156.86 روپے اوربارہ گرام سونا یعنی ایک تولہ سونے کی قیمت101732 ہے اِس میں حیرانی کی ضرورت نہیں امریکہ ، برطانیہ سمیت پوری دنیا میں ایسا ہی ہے اور اسی اعتبار سے فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہو تا رہا ہے۔

اچھے اور متوازن بجٹ کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس میں عام آدمی کی قوت خرید کم نہ ہو یعنی جب 1972 ء بلوچستان کا پہلا صوبائی بجٹ پیش کیا گیا تھا تو اُس وقت مزدور کی یومیہ اجرت تین روپے اور کلرک کی ماہانہ تنخوا ہ 150 روپے سے زیادہ نہیں تھی اور اُس وقت بلوچستان میں معیاری وزن کے تندوری نان کی قیمت دوآنے اور ایک روپے کے دس نان ملتے تھے اس تمہید کے بعد آپ یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سرکاری سطح پر بجٹ سازی واقعی ایک مشکل عمل ہے اور بلوچستان میں یہ اور بھی مشکل یو ں ہو جا تا ہے کہ یہاں آج تک برسراقتدار آنے والی تما م صوبائی حکو متیں مخلوط حکومتیں رہی ہیں پھر ساتھ ہی یہ صوبہ اپنے347190 مربع کلو میٹر رقبے کی بنیاد پر ملک کے مجموعی رقبے کا43% ہے۔

جہاں اندرون بلو چستان آبادی نہ صرف قبائلی ، ثقافتی، اعتبار سے متنوع ہے بلکہ بکھری ہوئی اور دور دور آباد ہے پھر صوبے کے 33 اضلاع میں موسمی ماحولیاتی تنوع کے ساتھ انتخابی حلقوں کی سیاسی صورتحال بھی ملک کے دوسرے صوبوں سے مختلف ہے اس لیے بلوچستان کی تعمیر وترقی کو مستحکم رکھتے ہو ئے ،توازن کے ساتھ عوام دوست بجٹ پیش کر نا ایک فن سے کم نہیں یوں بلو چستان کے صوبائی وزیرِ خزانہ میر ظہور احمد بلیدی نے جب مالی سال 2021-22 ء بجٹ پیش کیا تو یہ واضح ہو گیا کہ میر جام کمال کی صوبائی حکومت واقعی بہت کا میابی کے ساتھ بلوچستان کی تعمیر وترقی میں مصرف ہے ۔واضح رہے کہ جب 2018 ء میں عام انتخابات ہو رہے تھے ۔

تو رخصت ہو نے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے پانچ سالہ دور ِ اقتدار میں چھ بجٹ دیئے تھے حالانکہ رخصت ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوںسے کہا گیا تھا کہ وہ 1988 ء کی طرح صرف تین ماہ کا عبوری بجٹ پیش کر یں اور باقی بجٹ انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومتوں کوپیش کر نے دیں مگر ایسا نہیں ہو اجس کی وجہ سے 2018 ء کے الیکشن کے بعد بلوچستان میں اقتدار میں آنے والی میر جام کمال خان کی صوبائی مخلو ط حکو مت کو بھی وہ بجٹ مالی سال کے خاتمے یعنی 30 جون2019 ء تک بھگتنا پڑا۔ پھر جب جام کمال کی مخلوط صوبائی حکومت نے اپنا پہلا صوبائی بجٹ برائے مالی سال 2019-20 ء پیش کیا تو پوری دنیا کی طرح بلو چستان کو کرونا جیسی وبائی بیماری نے دبوچ لیا اور حکومت نے ماہر ین کے مشوروں سے بہت متوازن انداز میں نہ صرف ہنگامی بنیادوں پر کرونا سے پیدا ہو نے والی اقتصادی معاشی بحرانی صورتحال کو کنٹرول کر تے ہو ئے۔

ہزاروں لاکھوں بے روزگاروں اور غریبوں کی فوری مدد کی ،ساتھ ہی ترقیاتی اسکیموں پر بھی کسی نہ کسی انداز سے کام جاری رکھااور پھر کرونا کی وجہ سے پیدا ہو نے والے بحران پر قابوپالیا کیونکہ صوبائی حکومت نے بہت ہنگامی طور پر کرونا کے پھیلائو کو روکنے اور اس سے متاثر ہونے والوں کے علاج ومعالجے پر توجہ دی،مالی سال 2021-22 ء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے صوبائی وزیر ِ خزانہ میر ظہور احمد بلیدی نے اپنی تقر یر کے آغاز پر ایوان کو بتا یا کہ اس صوبائی حکومت کا یہ تیسرا بجٹ ہے اور گذشتہ دو صوبائی بجٹوں میں زیادہ توجہ کرونا جیسی عالمی نو عیت کی وبائی بیماری سے بہتر طور پر نبٹنے پر رہی اور چونکہ ابھی اس بیماری کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا ہے اس لیے 2021-22 ء کے بجٹ میںکرونا کے مسئلے کے لیے 3.637 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں وفاق کی جانب سے دئیے گئے۔

2.937 بلین روپے بھی شامل ہیں، واضح رہے کہ این ا یف سی ایوارڈ کے تحت قومی بجٹ مالی سال 2021-22 ء میں وفاقی محاصل کی تقسیم میں سے صوبوں کو مجموعی طور پر 34 کھرب 10 ارب روپے دئیے گئے ہیںاس رقم میں سے پنجاب کو 16 کھرب 10 ارب روپے ، سندھ کو 8 کھرب 48 ارب روپے ،خیبر پختونخوا کو 5 کھرب 59 ارب روپے اور بلو چستان کو 3 کھرب 13 ارب روپے ملے ،بلو چستا ن کے صوبائی بجٹ مالی سال 2021-22 ء کا تخمینہ یو ں رہا کہ وفاقی ٹرانسفرزکی مجموعی رقوم 355.935 بلین روپے ہے جبکہ صوبہ بلو چستان کی اپنی محصولات کی آمدنی 103.209 بلین یا ارب روپے ،فارن پراجیکٹ ( FPA) اسسٹنس کی مد میں17.353 بلین روپے، کیپٹیل محصولات کے طور پر 1.902 روپے ،اسٹیٹ ٹریڈنگ ۔

FOOD کے طور پر5.477 بلین روپے اور Cash Carry over کے طور پر 15.485 بلین روپے وصول ہو نگے یوں بجٹ کا کل تخمینہ 499.363 بلین روپے ہے جبکہ صوبائی بجٹ برائے مالی سال 2021-22 کا مجموعی ہجم 584.083 بلین روپے ہے اس طرح بجٹ خسارہ 84.7 بلین روپے ہے اس بجٹ میں کرونا سے مقابلے کے لیے خاصی معقول رقوم فراہم کی گئی ہیں اور یہ بتا یا گیا ہے کہ بشمول کرونا کنٹرول صوبے میں پانچ جدید لیبارٹریاں بنا ئی جا ئیں گی ۔ یہاں قارئین کی آسانی کے لیے یہ وضاحتیں ضروری ہیں کہ ایک تو سرکاری بجٹ گھریلو بجٹ سے اس طرح مختلف ہو تا ہے کہ گھریلو بجٹ عموماً ماہانہ بنیادوں پر بنا یا جا تا ہے پھر گھریلو بجٹ میں پہلے آمدنی آتی ہے۔

اور پھر اس آمدنی کی مجموعی رقم کو سامنے رکھتے ہو ئے اخراجات طے کئے جا تے ہیں اگر آمدن زیا دہ تو بعض غیر ضروری اخراجات بھی رکھ لیئے جاتے ہیں اور اگر آمدن کم ہو تو ضروری اخراجات میں بھی گنجائش کے مطابق کمی کی جا تی ہے اور بعض اوقات قرض بھی لے لیا جا تا ہے ، سرکار ی بجٹ ایک تو پورے مالی سال کا ہو تا ہے جو یکم جولائی سے شروع ہو کر آنیدہ سال کے30 جون تک جاری رہتا ہے تو دوسرا یہ کہ سرکاری قومی یا صوبائی بجٹ میں پہلے تعمیر وترقی اور عوامی خدمات کو مستقبل یا آئیندہ شروع ہونے والے مالی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہو ئے پہلے اخراجات کاتعین کیا جا تا ہے اور سرکاری اور عوامی شعبوں کے لیے اِن مدوں میں اخراجات یا فنڈز مختص کئے جا تے ہیں اور پھر اِن طے شدہ اخراجات کے لیے مالی وسائل تلاش کئے جا تے ، اگر اخراجات حقیقی آمدن سے کم ہو تو یہ سرکاری بجٹ بچت کا بجٹ کہلاتا ہے اور اگربجٹ میں اخراجات زیادہ ہوں توایسا بجٹ خسارے کا بجٹ کہلاتا ہے اور بجٹ خسارے کو مالی سال کے دوران یا تو قرض لے کر پورا کیا جاتا ہے ۔

یا پھر مالی سا ل کے دوران اخراجات میں کفایت شعاری کرکے بجٹ کو متوازن کرنے کی کوشش کی جا تی ہے پھر سرکاری بجٹ میں بنیادی طور پر دو بڑی مدین ہوتی ہیں جن کو بعد میں ذیلی کئی مدوں میں تقسیم کیا جا تا ہے پہلی بنیادی مدو نمبر ایک ترقیاتی اخراجات نمبر دو غیر ترقیاتی اخراجات اب جہاں تک تعلق غیر ترقیاتی اخراجات کا ہیں تو ہمارے ہاں یہ اخراجات ہمیشہ ہی زیادہ ہو تے ہیں کیو نکہ اِن اخراجات میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ، الاونسس اور عوامی فلاح و بہود کے وہ تمام کام جن پر اخراجات سے کوئی تعمیرات نہیں ہو تیں یا کو ئی مشینری وغیرہ نہیں خریدی جاتی اور جہاں تک ترقیا یاتی اخراجات کا تعلق ہے تواِن اخراجات میں مشینری اور گاڑیوں وغیرہ کی خریداری سڑکوں ، شاہراہوں اور عمارات کی تعمیرات وغیرہ ہو تی ہیں صوبائی بجٹ مالی سال 2021-22 ء میں غیر ترقیاتی اخراجات کا ہجم 346.861 بلین روپے ہے۔

جب کہ (PSDP ) پبلیک سیکٹر ڈیولپمنٹ فنڈز بشمول (FPA ) کے 16.661 بلین روپے ترقیاتی بجٹ کا مجموعی ہجم 189.196 بلین روپے ہے اور ڈیولمپٹ گرانٹس ( Federal Funded Projects ) کی مد میں 48.025 بلین روپے کے صوبائی ترقیاتی پروگرام ہیںیوں ترقیا تی بجٹ کے تحت میرجام کمال مخلو ط حکو مت کا مالی سال 2021-22 ء کا ترقیاتی روڈ میپ یوں ہے کہ 1525 جاری ترقیاتی اسکیموں کے لیے بجٹ میں 112.545 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں اور نئی ترقیاتی اسکیموں کی تعداد مالی سال 2021-22 ء میں 2286 ہے جس کے لیے 76.651 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں اور یہ بھی ہے کہ اِن ترقیاتی منصوبوں سے جڑی سرکاری محکموں میں نوجوانوں کے لیے 5854 سے زیادہ آسامیاں رکھی گئی ہیں جام کمال حکومت نے ترقیاتی کاموں کے لیے بہت اچھی منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی اپنائی ہے اِن کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پر انی جاری اسکیموں کو بلاتعصب مکمل کر ویا پھر تعمیرو ترقی کے لیے اسٹرٹیجی اپنائی کہ ترقیاتی اسکیموں کی تعمیراتی مدت یا دورانیہ ایک اور دو سال رکھا جائے ۔

تاکہ یہ اسکیمیں صوبائی حکومت کے اقتدار ہی مکمل ہوں اور یہ حکومت ہی ان کی نگرانی بہتر طور کر سکے اور اِن اسکیموںکی پوری ذمہ داری لے یوں اس صوبائی حکومت کے پونے تین برسوں میں جو بھی تعمیراتی منصوبے مکمل ہو ئے ہیں کہا جاتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اِن کا معیار بہتر ہے ، جام کمال مخلوط صوبائی حکومت نے سب سے زیا دہ تو جہ بلو چستان میں صحت اور تعلیم کے شعبوں پر دی ہے جام کمال نے 2018 ء ہی میں شاہراہوں پر حادثات میں زخمی ہو نے والوں فوراً طبی امداد کو یقنی بنا یا اوراس مقصد کے لیے شاہراہوں پر ایمر جنسی رسپانس سنٹر زقائم کئے اور اس مقصد کے لیے اب تک 878 ملین روپے خرچ کئے تھے اور اب مالی سال 2021-22 میں 717.640 روپے مختص کئے ہیںجب کہ جام کما ل کی کوششوں سے وفاقی حکومت اب چمن ،کوئٹہ ،کراچی شاہراہ کو دو رویہ کر رہے ہیں۔

اور اس سال کے آخر تک اس پر کام شرع ہو جا ئے گا جس سے ٹریفک حادثات میں بہت کمی واقع ہو گی ۔ صوبائی حکومت 5.914 ارب روپے سے بلو چستان ہیلتھ کارڈ پروگرام شروع کر رہی ہے،جس سے 18 لاکھ 75 ہزار خاندانوں کو دس لاکھ تک کے اخراجات تک کا مفت علاج میسر ہو گا،اس بجٹ میں نئے ہسپتال بنیادی صحت کے مراکز میڈیکل کالجز نئی اسامیوں کے لیے مجموعی طور پر غیر ترقیاتی فنڈز میں 44.694 بلین روپے اور ترقیاتی مد میں11.884 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔یورسیٹیوں ، ڈگری کالجوں ، اسکو لوں کے قیام اور اپ گریڈیشن سمیت اس مالی سال میں تعلیم کے شعبے میں صوبائی حکومت نے 1493 نئی اسامیاں تخلیق کی ہیں جب کہ گذشتہ پو نے تین برسوں میں اس شعبے میں اس صوبائی حکومت نے 6592 آسامیاںتخلیق کی تھیں ۔ پرائمری و سیکنڈری تعلیم کے شعبے میں اس بار ترقیاتی مد میں 8.463 بلین روپے اور غیر ترقیا تی مد میں 53,256 بلین روپے مختص کئے ہیں ۔

کالجرز اور ہا ئیر ایجو کیشن جامعات کی گر نٹ کے لیے سالانہ گرانٹ جو پہلے 1.50 بلین روپے تھی اُسے بڑھا کر 2.50 بلین روپے کر دیا ہے جب کہ بلو چستان یو نیورسٹی کی مالی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہو ئے یو نیورسٹی کو 377 ملین روپے کے خصوصی قرضے فراہم کئے گئے ہیں یوں مجموعی طور پر اس شعبے میں 2021-22 کے ما لی سال میں غیر ترقیا تی مد میں 11.736 روپے اور ترقیاتی مد میں9.469 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں زراعت کے شعبے کو بلوچستان میں کرونا کی وبائی کے ساتھ ساتھ ٹڈی دل جیسی وبائی بیماری کا بھی سامنا تھا لیکن حکومت نے نہ صرف جاری منصوبے پورے کئے بلکہ اس مالی سال کے لیے ترقیاتی مد میں9.545 ارب روپے اور غیر ترقیا تی مد میں 11.483بلین روپے رکھے جو ماضی کے تمام ریکارڈ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

،خورک کے شعبے میں 2021-22 ء کے مالی سال میں ترقیاتی مد میں 384 ملین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں بشمول State trading کے 6.400 بلین روپے مختص کئے گئے ہیںدیہی ترقی بھی ایک اہم شعبہ ہے اس میں گذشتہ مالی سال گرنٹ ان ایڈ کے لیے11.433 بلین روپے رکھے گئے تھے اب اس مالی سال 2021-22 ء مجموعی گرانٹ کو بڑھا کر 16.803 بلین روپے کردیا جبکہ ترقیاتی بجٹ 5 ارب روپے سے بڑھا کر 10 ارب کر دیادیہی ترقی کے لیے 140 نئی اسکمیں رکھی گئی ہیں جن کا تخمینہ 3.093 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں دیہی شعبے کے لیے مجموعی طورپر2021-22 مالی سال ترقیاتی مد میں 4.357 بلین رکھے گئے جب کہ غیر ترقیاتی مد میں 18.261 بلین رکھے گئے ہیں ۔

مواصلات و تعمیرات (Roads and Buildings )بلو چستا ن کے رقبے اور تعمیرات کے حوالے سے پہلے بھی بات ہو ئی ہے جام حکومت 2018 ء ہی سے کوشش کی تھی کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ کو دو رویہ کیا جا ئے اور اب مالی سال 2021-22 ء وزیر اعلیٰ جام کمال نے وفاقی حکومت سے بلوچستان کے عوام کی دیرینہ مطالبے کو منوا لیا اور اس کے لیے وفاقی حکومت نے چمن، کوئٹہ ، کراچی اس اہم شاہراہ کو دورویہ کرنے لیے پہلے مرحلے پر کچلاک تا خضدا ر کے لیے 81.582 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں جب صوبائی بجٹ مالی سال 2021-22 ء مواصلات کے لیے 550 اور تعمیرات کے لیے 67 نئے منصوبے شروع کئے ہیں اور جن کی مجموعی لاگت 25.478 بلین روپے رکھے ہیں ۔

جب کہ مجموعی طور پر مواصلات و تعمیرات کے لیے ترقیاتی مد میں شعبے کے لیے 52.668 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 13.793 بلین رکھے گئے ہیں امن امان کے لیے نئے بجٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں 556 اسامیاںتخلیق کی گئی ہیں اس شعبے میں کے لیے 2021-22 ء کے مالی سال کے لیے غیر ترقیاتی مد میں 26.867 بلین روپے اور ترقیاتی مد میں 1.545 بلین روپے رکھے گئے ہیںآبپا شی اور آبنوشی بلوچستان کے لیے مستقبل کا ایک بڑا چیلنج ہے 2021-22 ء کے مالی سال میں صوبے کے 49 نئے ڈیمز کی تعمیر کے لیے 6.451 بلین روپے رکھے گئے ہیں آواران ڈیم کی تعمیر کے لیے 298 ملین رکھے گئے ہیں اسی طرح مالی سال 2021-22 ء میں آبنوشی و آبپاشی کے لیے ترقیاتی مد میں 34.524 بلین روپے اور ضیر ترقیاتی مد میں 10.563 روپے مختص کئے گئے ہیںتعلقات عامہ و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے2021-22 کے مالی سال کے صوبائی بجٹ میں ایف ایم ریڈ یوکے قیام کے لیے 20 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔

جرنلسٹ ہاوسنگ اسکیم کے لیے زمین کی فراہمی پریس کلبز گرانٹس بھی ہے اور میڈیا ٹائون کے لیے 300 ملین روپے رکھے گئے کو ئٹہ سیف سٹی فیز II کے لیے 160 ملین روپے رکھے گئے ہیں مجموعی طور پر اس شعبے میں ترقیاتی مد میں 2.656 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 1.132 بلین روپے رکھے گئے ہیں مالی سال2021-22 ء میں معد نیات ومعدنی وسائل کے ترقیاتی مد میں 1.496 بلین روپے ، غیر ترقیاتی مد میں 3.767 بلین روپے رکھے گئے ہیں اسی مالی سال میں معدنیات کے سروے کے لیے 219 ملین روپے جبکہ منرل ٹیسٹنگ لیبارٹری کے قیام کے لیے 36.40 ملین روپے رکھے گئے ہیں ماہی گیری کے لیے ترقیاتی مد میں 4.302 بلین روپے اورغیر ترقیاتی مد میں 1.168 روپے رکھے گئے ہیں واضح رہے کہ اِن تمام شعبوں میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں رقوم زیادہ رکھی گئی ہیں ماہی گیری کے شعبے میں نئے مالی سال میں ماڈل فش مارکیٹ کے قیام کے لیے 37.50 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔

جب کہ مجموعی طور پر اس شعبے میں ترقیا تی مد میں 4.302 بلین روپے اوقر غیر ترقیاتی مد میں 11.168 بلین روپے رکھے گئے ہیں،توانائی کے شعبے میںترقیاتی مد میں3.923 ارب روپے اورغیر ترقیاتی مد میں 7.260 بلین روپے رکھے گئے ہیں ، ماحول اور ماحولیاتی تبدیلی کے شعبے میںمالی سال2021-22 ء میں ترقیاتی مد میں 217.118 ملین روپے اور 538.470 ملین روپے غیر ترقیاتی مد میں رکھے گئے بلوچستان میں مال مویشی کا شعبے عوام کے روزگار کے اعتبار سے اہم شعبے ہے امور حیوانات 2021-22 ء کے بجٹ میں نہ صرف 1057 اسامیاں رکھی گئی ہیں بلکہ ترقیاتی مد میں 2.101 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 4.526 روپے رکھے گئے۔

افرادی قوت و صنعت وحرفت کے شعبے میں ترقیاتی مد میں 1.450 بلین اور غیر ترقیاتی مد میں 4.384 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،سوشل سیکورٹی کے لیے ترقیاتی مد میں 2.702 ارب روپیاورغیر ترقیاتی مد میں 4.955 بلین روپے مختص کئے گئے ہیں ،کھیل اور امورنوجوانان کے لیے مالی سال 2021-22 ء کے بجٹ میں ترقیاتی مد میں 5.673 بلین روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 1.495 ارب روپے رکھے گئے ہیں ثقافت و سیاحت میں بہتر پالیسی اور گذشتہ مالی سال کے مقابلے زیادہ روقم کے ساتھ ترقیاتی مد میں 1.542 بلین روپے اورغیر ترقیاتی مد میں1.051 بلین روپے مخٹص کئے گئے ہیں ۔ وزیراعلیٰ میرجام کمال کی مخلو ط حکومت نے ماہرین کی مشاورت سے نہ صرف Balochistan Tax Revenue Mobilization Strategy 2020 مرتب کی بلکہ پونے تین برس میں تسلسل کے ساتھ منانس بل کے ذریعے قوانین میں اصلاحات کیں جس کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں صوبے کی آمدن میں ماضی کے مقابلے اضافہ ہوا۔ ہے۔

میر جام کمال خان کی مخلو ط صوبائی حکومت نے اس بجٹ میں نہ صرف بلو چستان کی تعمیرو ترقی کے اہداف کو مد نظر رکھ کر بہترین بجٹ سازی کے ذریعے یعنی طور پرقابل عمل منصوبے اور اسٹرٹیجی دی ہے بلکہعوام کے لیے بہت سے رفاعی اور فلاحی اقدامات بھی کئے ہیں ۔صوبائی بجٹ مالی سال2021-22 ء میں تمام صوبائی ملازمین کی تنخواہون پیشنرز کی پینشنوں میں 10 فیصد اضافہ کیا ہے تو ساتھ ہی گریڈ 1 سے گریڈ 19 تک کے ملازمین الائونسزمیں بنیاد ی تنخواہ سے کم ہیں اُن کو مزید رلیف دیتے ہو ئے 15 فیصد کے حساب سے Disparity Reduction Allowance کا اعلان بھی کیا یو ں اِن سرکاری ملازمین کی تنخوہوں میں مجموعی طور پر 25% اضافہ ہو گا، ریٹائر ہونے والے سرکاری ملاز مین ریٹا ئر منٹ پر ہمیشہ پریشان رہتے تھے کہ ریٹائر ہونے پر ایک تو فوراً اُن کی تنخواہ بند ہو تی تھی تو دوسری جانب ، جی پی فنڈ گریجوٹی کے واجبات لینے اور پینشن کے جاری ہو نے میں کئی مہینوں کی تاخیر ہو جاتی تھی ۔

یوں اِن کی زندگیاں اجیرن ہو جایا کرتیں تھی اور بعض ریٹائر ملازمین نے تو تنگ آکر خود کشیاں بھی کیں جام کمال حکومت نے اس مسئلے کو بھی حل کیا اور اس بجٹ میں یہ اعلان کیا ہے کہ ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازمین کو ریٹا ئرمنٹ کے بعد واجبات اور پینشن کی وصولی تک تنخواہ کا 65% ملتا رہے گاتا کہ وہ مالی مشکلات کا شکار نہ ہوں ،حکومت نے سرکاری محکموں خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہترین کار کردگی دکھانے پر انعامات کے لیے بھی رقوم مختص کی ہیں ،اقلتی برادری کی بہبود کے لیے 500 ملین روپے رکھے گئے ہیں ماہی گیروں کی فلاح وبہبو د کے لیے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں مختلف شعبوں میں کاروبار کی مدد کے لیے بھی بلو چستان انٹر پرائزڈویلپمنٹ فنڈ کے طور پر 2 بلین روپے رکھے گئے ہیں ۔

صوبے کے بے روز گار نو جوانوں کو اپنا چھوٹا کارو بار کر نے کے لیے بلا سود قرضوں کی فراہمی کے لیے بھی 2 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں ،خو اتین کو معاشی طور پر مستحکم بنانے کے لیے بلوچستان ویمن اکنامک امپاور منٹ فنڈ 500 ملین روپے سے قائم کیا گیا ہے، حکومت نے پہلے بھی غریب و نادار مریضوں خصوصاً کینسر کے علاج کے لیے روقم مختص کی تھیں اس بار اس مقصد کے لیے 2 ارب روپے کی خطیر رقم فرہم کی گئی ہے صوبے کے ہونہار طالب علموں مزید ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں جس سے 7 ہزار طالب علم مستفید ہو نگے فوڈ سیکورٹی خصوصاً گندم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بھی ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں ۔

کو ئٹہ میں 8 اگست 2016 ء کو وکلا کے سانئحے سے پیدا ہو نے والے خلا کو پُر کر نے کے لیے وکلا کو بیرون ِ ملک تعلیم کے لیے بلو چستان لائرز ویلفر انڈو منٹ فنڈ کے لیے 50 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں صوبے میں ملازمین کو اپنا گھر اسکیم کے تحت بلو چستان ایمپلا ئز ہاونگ فنانس فند کے لیے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں بلو چستان بنک کے قیام کے لیے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ بلو چستان 2021-22 مالی سال کے بجٹ میں کو ئی صوبائی ٹیکس نہیں لگا یا گیا ہے بلکہ ایسے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن سے مہنگائی کو کم سے کم کیا جا ئے یوں بلوچستان میں میر جام کمال خان کی مخلوط صوبائی حکومت کا یہ بجٹ متوازن اور صوبے کی مستحکم ترقی کا آئینہ دار بھی ہے اور واقعی عوام دوست اور بلو چستان دوست بجٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


( ذیلی سر خیاں ) نمبر 1 ۔ بلو چستان صوبائی بجٹ مالی سال 2021-22 ء کا کل ہجم 584.083 ارب روپے ہے۔ نمبر 2 ۔سرکاری شعبے میں نوجوانوں کے لیے 5854 اسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔نمبر3 ۔


1525 جاری ترقیاتی اسکیموں کے ساتھ 2286 نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 189.196 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ نمبر3 ۔ صوبائی حکومت 5.914 ارب روپے سے بلو چستاان ہیلتھ کارڈ کے تحت 18 لاکھ 75 ہزار خاندانوں کو دس لاکھ روپے تک علاج کی سہولت فراہم کی جارہی ہے ۔ نمبر 4 ۔ کو ئٹہ کراچی شاہراہ کو دو رویہ کرنے کے پہلے مرحلے کے لیے 81,582 ارب روپے مختص کئے ۔۔۔