بلوچستان کاضلع مستونگ باغات کی وجہ سے مشہور ہے جہاں تقریباً ہر طرح کے پھلوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہاں کا کیک بھی اپنی نوعیت کا ایک سوغات سمجھا جاتا ہے جس کی مانگ بیرونی ممالک میں بھی ہے۔ جبکہ یہ علاقہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے بھی کافی بدنام ہے۔ جہاں اب تک بے شمار سیاسی کارکنان بھی مارے گئے ہیں۔ یہاں ایک نامعلوم گروہ تعلیم نسواں کے خلاف سرگرم عمل بھی ہے۔ گزشتہ روز مستونگ میں پڑنگ آباد کے علاقے سورگزر ریلوے پھاٹک کے قریب خواتین اساتذہ کی اسکول وین پر موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے چار خواتین زخمی ہوگئیں۔
حملے کے وقت وین میں دس خواتین اساتذہ موجود تھیں جو دشت بابا سمیت مختلف سرکاری گرلز اسکولوں میں فرائض کی ادائیگی کے بعد واپس اپنے گھروں کو کوئٹہ جارہی تھیں۔ واضح رہے کہ متعلقہ حکام نے تعلیم نسواں کو فروغ دینے کے لئے کوئٹہ شہر سے خواتین اساتذہ کو مستونگ کے دور دراز علاقوں میں تعینات کیا ہے اور اس سلسلے میں پک اینڈ ڈراپ کے لئے بس سروس کا بھی انتظام کیاگیا ہے تاکہ علاقے میں تعلیم نسواں کے معیار کو بہتر کیا جاسکے۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق خواتین پر فائرنگ ذاتی دشمنی کا واقعہ نہیں لگتا۔ بلکہ شبہہ ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔
تاہم ان واقعات میں ملوث کسی بھی شخص کی گرفتاری ابتک عمل میں نہیں آئی ہے۔ سیاسی حلقوں نے مستونگ میں خواتین پر حملہ بلوچی روایات کے منافی قراردیا۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ دانستہ طورپر بلوچستان کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لئے ایسے اقدامات کٹھ پتلی سرکار کی موجودگی میں کئے جارہے ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق اس سے قبل ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں پمفلٹ تقسیم کئے گئے جن میں خواتین کوگھروں سے باہر نہ نکلنے کوکہاگیاتھااور اب مستونگ میں یہ ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ مستونگ تعلیمی لحاظ سے اور بلوچستان کی قومی تحریک کے حوالے سے اپنا تاریخی اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال مستونگ میں گرلز اسکولوں میں زہریلا اسپرے کیاگیا جس سے کافی بچیاں متاثر بھی ہوئیں لیکن حکومت نے ان واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا اور شرپسند عناصر کی سرکوبی نہیں کی گئی۔
سیاسی اور سماجی حلقوں نے ان واقعات کو تعلیم دشمن عمل قراردیا اور کہا کہ ان عناصر کو سرپرستی حاصل ہے۔ بغیرسرپرستی کے ایسے واقعات ممکن نہیں۔ اس عمل کے پیچھے ایک گروہ سرگرم ہے جو معلوم ہوتے ہوئے بھی نامعلوم ہے۔
ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات مکران کے مختلف اضلاع میں رونما ہوتے رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ جب وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب پر فائز ہوئے تو ان کے آبائی علاقہ کیچ سمیت پنجگور اور گوادر میں بھی اسکولوں کو جلانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اسکولوں کے باہر اور علاقوں میں پمفلٹس بھی پھینکے گئے۔ لوگوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں انگلش پڑھنے کے لیے بھیجنے سے باز رہیں۔ والدین کو بھی دھمکی دی گئی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو نجی اسکولوں اور انگلش لینگویج سینٹرز بھیجنا بند کردیں۔ مسلح افراد نے بعض اسکولوں پر حملہ کیا تھا اور ان گاڑیوں کو آگ لگادی تھی، جولڑکیوں کو ان اداروں تک لاتی اور لے جاتی تھیں۔ پنجگور ضلع میں تقریباً دو درجن نجی انگلش میڈیم اسکول اور لینگویج سینٹرز تین مہینے تک بند بھی رہے تھے۔
ضلع مستونگ پولیس مقابلوں کے حوالے سے کافی شہرت حاصل کرچکا ہے۔ ماضی میں بے شمار مقابلے ہوئے۔ ان مقابلوں کو سیاسی جماعتوں نے جعلی مقابلے قراردیا۔ ان مقابلوں کے خلاف لواحقین سمیت سیاسی جماعتوں نے احتجاج بھی کیا۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے مستونگ میں مقابلے میں پانچ افراد کو ہلاک کردیا جس کو انسانی حقوق اور لواحقین نے جعلی قراردے کر کہا کہ تمام پانچوں افراد پہلے ہی سے سرکاری تحویل میں تھے جنہیں بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم کے ارکان قرار دیکر جعلی مقابلے میں قتل کیاگیا۔اس مقابلے کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے پانچ افراد کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل قراردیا اور کہا کہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے بلوچستان میں سیاسی کارکنان، صحافی، عام افراد اور تمام شعبے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اسی طرح نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
2016 میں مستونگ کے علاقے میں بلوچ رہنماء ڈاکٹر عبدالمنان بلوچ کو ہلاک کردیا گیا۔ اس کارروائی کو اس وقت کے بلوچستان کے وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی نے ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر منان بلوچ جو کہ کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے کمانڈر تھے۔ اپنے چار ساتھیوں سمیت فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے ڈاکٹر منان کی شہادت کو بلوچ معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا نقصان قراردیتے ہوئے کہا کہ ان دو وہائیوں میں کئی نامور شخصیات ماری گئیں جن میں نواب اکبر خان بگٹی، نوابزادہ بالاچ مری، شہید غلام محمد اور دیگر شامل ہیں۔
نومبر 2020 میں بلوچستان یونیورسٹی کے تین پروفیسرز ڈاکٹر لیاقت سنی، شبیر شاہوانی اور پروفیسر نظام شاہوانی پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے۔ پروفیسرز کی گاڑی مستونگ کے نواحی علاقہ غلام پڑینز سے برآمد ہوئی ۔ تینوں پروفیسرز بی اے کے جاری امتحانات کے وزٹ کیلئے کوئٹہ سے خضدار جارہے تھے۔ لیکن دو گھنٹے بعد دو پروفیسرز کو چھوڑ دیا گیا جبکہ لیاقت سنی کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیاقت سنی بلوچستان یونیورسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیںجبکہ وہ براہوئی زبان پر تحقیق کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ راہشون ادبی دیوان کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جبکہ انہوں نے براہوئی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ کچھ دن رکھنے کے بعد اغوا کاروں نے انہیں کوئٹہ کے قریب اغبرگ کے علاقے میں چھوڑدیا۔
ضلع مستونگ کے علاقے دشت میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر زمینداری سے وابستہ ہے۔ زمینداروں کا کہنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت کے باعث یہاں کاشت کی گئی فصلیں متاثر ہورہی ہیں۔ اب صرف باغات بچ گئے ہیں۔ اگر ان کو بھی پانی نہ ملا تو ان کے پھل کو کیڑا لگ جائیگا۔ دشت کے علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ پانی کی سطح ایک ہزار فٹ سے بارہ سو فٹ تک نیچے چلی گئی ہے جس کی وجہ سے یہاں زراعت کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ زراعت کے شعبے کو فروغ دینے میں حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ حالانکہ ضلع کے مختلف علاقوں میں بارانی ندیوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ ان ڈیمز کی تعمیر سے علاقے میں پانی کی قلت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
بلوچستان کی سیاست میں مستونگ مرکزی کردار ادا کرتارہا ہے۔ دو مرتبہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش اور نواب اسلم رئیسانی کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔ نواب اسلم رئیسانی چیف آف ساراوان ہیں۔ موجودہ ضلع مستونگ بلوچستان کے تاریخی صوبہ ساراوان میں واقع ہے۔
ساراوان کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ انتظامی اعتبار سے ریاست قلات کے مشہور حکمران میر نصیرخان نوری نے قلات کو دوحصوں ساراوان اور جھالاوان کے نام سے تقسیم کررکھاتھا۔ یہ دراصل انتظامی اعتبار سے دو صوبے تھے جن کی سربراہی ان دونوں صوبوں کے بڑے قبیلوں کے سرداروں کے حوالے کردی گئی تھی جو بعد میں موروثی سربراہی میں تبدیل ہوگئی۔ ریاست قلات کی اس تقسیم کی بنیاد پر قلات کے علاقوں میں قبائل کو بھی تقسیم کیاگیا تھا۔ اسی بنیاد پر اپنی فوج کی بنیاد بھی رکھی تھی ان کے دربار میں اسی ترتیب سے جھالاوان اور ساراوان کے سرداروں کی نشستیں مقرر کی گئیں تھیں۔ قیام پاکستان سے قبل جب قلات کے آخری حکمران میر احمد یار خان نے جدیدیت کے تحت ایوان بالا اور ایوان زیریں تشکیل دیں تو اس ترتیب سے قبائل کے سرداروں کو ایوان بالا اور ایوان زیریں کے لیے چناگیا۔
الحاق پاکستان کے بعد یہ نظام باقی نہ رہا مگر اس کے باوجود اس کی روایت باقی ہے۔ اسی لئے اب بھی چیف آف جھالاوان اور چیف آف ساراوان کا خطاب برقرار ہے۔اور بلوچ روایات اور تاریخ میں ان کا ایک مقام ہے۔ اس وقت چیف آف جھالاوان سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اورچیف آف ساراوان نو اب اسلم رئیسانی ہیں۔
اسلام آباد کی سرکار نے قیام پاکستان سے لیکر آج تک ساراوان اور جھالاوان کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ ہر دور میں صوبائی حکومتیں تو بناتی رہیں مگر ان کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھی۔ وہ بھی موجودہ حکومت کی طرح کٹھ پیلی حکومتیں تھیںجس کی وجہ سے اس خطے میں ایک جنگ کا سماں ہے۔
ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر، ساحر لدھیانوی کیا خوب کہا:
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف