حال ہی میں بلوچستان کی سیاست نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا شروع کیاہے، اختلافات کی انتہا یہاں تک آ پہنچی کہ اسمبلی کو بلاک کر دیا گیا۔ نام نہاد سیاست دان اسمبلی پر قبضہ جماکر بیٹھ گئے اور یہ لوگ عوامی مینڈیٹ لے کر اسمبلی میں اپوزیشن نشستوں پر براجمان ہیں۔
بجٹ والے دن اپوزیشن نے وزیراعلیٰ بلوچستان جناب جام صاحب پرپتھرائو کیالیکن ظاہر سی بات ہے تصویر کے دو رخ ہونگے جیسے کوئٹہ کو اپوزیشن نے جام کیا تھا ویسے ہی حکومت بھی پیچھے نہ رہی، کنٹینرز رکھوا کر اپنا فرض ادا کرتے نظر آئی۔ یہ دن تاریخ کا سب سے اہم دن تھا کیونکہ مورخ لکھے گا کہ امیروں کی ذاتی جنگ میں عوام کو پسنا پڑا اور پسے بھی کیوں نہ اپنے ہی چنے نمائندے تھے دونوں اطراف مقابلہ سخت تھا۔
پولیس کی نفری بازار میں لاٹھیوں کے ساتھ دیکھ کر کشمیر اور فلسطین یاد آگیا۔ 15 جون 2021 کو یہ احتجاجی جنگ شروع ہوئی جس میں مختلف سیاسی قائدین نے شرکت کی مقصد محض بجٹ کی نامنظوری تھی۔ تین چار دن تک احتجاج جاری رہا جس کے بعد بجٹ پیش ہونے کا دن آیا تو اپوزیشن نمائندوں نے سڑکوں سمیت اسمبلی کو بھی بلاک کر دیا جہاں اسمبلی میں اچھی خاصی تھوڑ پوڑ بھی کی گئی مگر جام حکومت بھی ہمت نہ ہاری اورچپل ،بوٹ کے حملوں سے گزر کر بجٹ پیش کر دیا۔
تمام ہلہ گلہ کے بعد حکومت کی طرف سے اگلے دن ری ایکشن کیا گیا جس میں تمام اپوزیشن کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئی اور تاحال اپوزیشن بجلی گھر تھانہ میں اپنی گرفتاری کے لئے بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی دوران سابق سینیٹر لالا عثمان کاکڑ کا واقعہ رونما ہوا جو کہ اک حادثہ ٹھہرایا گیالیکنانکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی جا چکی ہے۔ لالا کی نمائندگی کو ان کے جانے کے بعد زیادہ پذیرائی ملی اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے جنازے میں شرکت کی۔
مگر چونکہ اپوزیشن اور حکومت اپنی جنگ میں الجھی ہوئے تھے تو بیانات تک محدود رہ گئے ۔ اپوزیشن کے حملے کے بعد اسپیکر پر عدم اعتماد کو یقینی بنانے کا بھی راز فاش کیا گیا مگر جام صاحب اور اسپیکر قدوس بزنجو پرانے کھلاڑی ہیں آپس میں صلح کر لیا اور اب اپوزیشن کو دیکھ کر اپنی مسکراہٹ سنبھال رہے ہیں۔
سیاست کھیل نہیں بچوں کا، یہاں امیر غریب ہوتے دیکھے ہیں اور غریب امیر ہوتے دیکھے ہیں۔ عوام کو اپنے ہمسائے کی غلطیاں نظر آتی ہیں پر اپنے منتخب نمائندے کی نہیں، یہ المیہ خطرناک ہے۔