|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2021

اگر ہم کہیں کہ پاکستان میں ایک بھی پارٹی نہیںہے جسکی جڑیں چاروں صوبوں میں موجود ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔سیاستدانوں کیساتھ ملکر بلکہ ان کو زینہ بناکر اسٹیبلشمنٹ نے پورے ملک کے اقتدار پر بلاشرکت غیرے قبضہ کر رکھا ہے ویسے تو یہ سلسلہ کافی عرصے بلکہ ملک کی تشکیل کے ساتھ جاری ہے مگر پہلے اس طرح چیزیں عیاں نہیں تھیں جسے لوگ آجکل نہ صرف محسوس بلکہ دیکھ رہے ہیں۔جنرل ضیاء کے دورسے قبل بقول فیض

“گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دیوانے
صدچاک بدن سب کا لبادہ تو نہیں تھا”

اگر یہ کہاجائے کہ عوام اور سیاستدانوں کے بجائے پاکستان مقتدرہ کی میراث ہے توبالکل بھی غلط
نہیںہوگا ۔ ایک زمانے میں پی پی خود کو چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھتی تھی مگرآج وہ عملاًاندرون ِسندھ تک محدود ہے اورمقتدرہ کی کوشش ہے کہ پی پی سندھ کے اندرونی علاقوں میں بھی کمزور رہے تاکہ سندھ کو لْوٹنا آسان رہے ۔اسی طرح مسلم لیگ نواز پنجاب کے علاوہ ملک کے دوسرے صوبوں میں وجود رکھتی تھی، آج فقط پنجاب تک محدودر ہے اور وہاں بھی ان کے دائرے کو تنگ کیا جارہا ہے تاکہ ان کو جلد یا بدیر پنجاب بدر کیا جائے۔ پنجاب بدری سے مراد یہ کہ مسلم لیگ نواز کے وجودکو اول تو ختم یا پھر ایک دو اضلاع تک محدودکیا جائے ۔پی ٹی آئی تو خیر کسی جدوجہد کی پیداوار نہیں ہے بلکہ مقتدرہ کے سہارے اقتدار پرقابض ہے۔

اس طرح اگر بغوردیکھا جائے تو ملک میں ایک بھی پارٹی موجود نہیں ہے جس کوملک گیرکہاجائے جنکی جڑیں ملک کے چاروں صوبوں میں موجود اور مستحکم ہوں ۔ہاں البتہ پاکستان میں اس قسم کے لاتعدادسیاستدان موجودہیں جوہر وقت مقتدرہ کے اشاروں پر اْن پارٹیز میں شامل ہونے کیلئے کمربستہ ہیں جن کو مقتدرہ کی جانب سے مرکز اور صوبوں میں برسراقتدار لانے کے منصوبے اور عزائم ہوں۔اس قسم کے دس بیس نہیں بلکہ بیشمار سیاستدان ملک میں موجودہیں جو مقتدرہ کے کہنے پر کبھی پی پی،کبھی نواز لیگ،کبھی پی ٹی آئی اور کبھی مسلم لیگ(ق) میں شامل ہوتے ہوئے مقتدرہ کے حواری بن کر اِن پارٹیز کواقتدار دلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔صوبائی پارٹیوں کیصورتحال بھی کچھ بہتر نہیں ہے جن کو صوبوں میں اقتدار دلانا مقصودہو ۔مقتدرہ کی صوبائی سطح کے نمائندے اْن پارٹیز میں شامل ہوکر ان کو اقتدار تک پہنچادیتے ہیں ۔

اس طرح اگرغیرجانبدارانہ طورپر دیکھا جائے تو وفاق سمیت تمام صوبوں میں اقتدار کی ڈوریاں سیاست،پروگرام،جمہوریت،عوام،ووٹرز،ورکرز اورپارٹیوں کے بجائے مقتدرہ کے پاس ہے ۔ ویسے اس قسم کے آثار نہیں ہیں کہ اِن حالات میں تبدیلی آئے گی کیونکہ نہ ہی پارٹیوں کی کوشش اور خواہش ہے کہ عوام یا ملک کو مذکورہ صورتحال سے نجات ملے۔اسکے برعکس سبھی ان حالات سے خوش ہیں اوریہ سلسلہ سیاسی پارٹیوں کی رضا مندی کیساتھ رواں دواں ہے۔ مسلم لیگ نواز کے قائد نوازشریف نے لندن میں رہتے ہوئے شش ماہ/سال پہلے مقتدرہ کیخلاف انقلابی قسم کے نعرےبلند کئے تھے عجوبہ قسم کے اْنکے بھائی نے بجٹ کی منظوری کے متعلق بْلندوبانگ د عوے کئے تھے

مگر کل بجٹ منظوری کے وقت اپوزیشن کے قائد ہوتے ہوئے اس طرح راہ فرار اختیار کی جیسے کبھی کچھ کہا ہی نہ ہو، شاہد خاقان عباسی فیصلوں پر پابندی اور اصولی سیاست کے نقش و پیکر بنے پھرتے ہیںجنھوں نے استعفوں پر اختلاف رائے رکھنے کے بظاہر غیر اصولی سوال پر اے این پی اور پی پی کو شوکاز نوٹس دیئے تھے کل بجٹ منظوری کے دوران مسلم لیگ نواز کے کئی ممبران اسمبلی سمیت “لاپتہ”ہوگئے تھے تاکہ ملک کے غریب عوام پر جتنے ٹیکس لگنے ہیں” لگ جائیں” اسکے جواب میں بس مقتدرہ کیساتھ مسلم لیگ نواز کی کشاکش کم ہوجائے اور گْفت و شْنید کے دروازے کھل جائیں ۔

اگرچہ ہم نے بجٹ کیحوالے سے صرف ایک پارٹی کی مصلحت پسندانہ کردارکو بیان کیا ہے مگرمعروضیت یہی ہے کہ باقی پارٹیاں بھی” دْودھ سے اْجھلے اور شہد سے میٹھے”کے مصداق بہتر کرداروعمل نہیں رکھتے جو عوام،ملک اور جمہوری اقدار کی خاطر سنجیدہ ہوکر کچھ کرناچاہیں لہٰذا اس کیفیت میں لوگ خودہی بتا دیں کہ ملک میں بنیادی اور مثبت قسم کے تبدیلیوں کی اْمید رکھنا کس طرح ممکن ہے جو ملک میں جمہوریت،صحافتی آزادیوں، انسانی حقوق، عدل وانصاف اور عوام کے لیے دْور رس ثابت ہوسکیں۔ اس سے تو سبھی واقف ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کی رہنمائی اور قیادت کے بغیرحالات جب کنٹرول سے باہر ہوں اور برداشت کے تمام تر راستے بند ہوں تو عوام صرف طوائف الملوکی پیدا کرسکتے ہیں مگر حالات کو سیاسی تحریک کی شکل دے کر تبدیلیوں کی جانب نہیں لے جاسکتے جس سے سسٹم کی خامیوں کو دْور کرکے کسی