گیارہ روز تک اسرائیل اور فلسطینیوں میں جاری تنازع میں غزہ میں 240 اور اسرائیل کے 12افراد کی جانیں گئیں اور بالآخر 21مئی کو جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا۔ لیکن حالات دوبارہ کشیدہ ہونے کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ ماضی کی طرح اس بار بھی اسرائیل کو جدید ٹیکنالوجی اور عسکری قوت کی وجہ سے مدِ مقابل پر برتری حاصل رہی لیکن ساتھ ہی اس بات کی فوری اہمیت کا ادراک بھی ہوتا ہے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات کا مستقل حل کتنا ضروری ہوچکا ہے۔ کیوں کہ یہ مسائل کسی بھی وقت قابو سے باہر نکل سکتے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یہ کوئی پہلی جنگ بندی نہیں اور نہ ہی آخری ثابت ہوگی۔ 1948کے بعد سے مسئلہ فلسطین ایک سے دوسری دہائی تک کھنچتا چلا آتا ہے۔ گاہے کہیں پُرامن تصفیے کی امید ٹمٹاتی ہے جو جلد واہمہ ثابت ہوجاتی ہے۔
میں ان گنے چنے پاکستانیوں میں سے ہوں جنھیں اسرائیل جانے اور براہ راست مشاہدے کا موقع ملا ہے۔ مئی 2003 میں عالمی اقتصادی فورم کے اردن میں ہونے والے اجلاس سے واپسی پر میرے دوست ’لارڈ‘ زاہد رحیم کی مہربانی سے یہ دورہ ممکن ہوا۔ وہ اس وقت خطے میں شامل سات ملکوں میں اسٹینڈرڈ چارٹر بینک کے سربراہ تھے جن میں اسرائیل بھی شامل تھا۔
میرا اسرائیل کا یہ دورہ ایک غیر معمولی انسان اور ہنگرین نژاد اسرائیلی آنجہانی کرنل ڈیوڈ یرکونی کی درخواست پر ہوا تھا جو پاکستان سے بہت دل چسپی رکھتے تھے اور مذہب کی بنیاد پر قیام کی وجہ سے اسرائیل اور پاکستان کا موازنہ کیا کرتے تھے۔ وہ میری زیرِ ادارت شائع ہونے والے ’ڈیفینس جرنل‘ میں شامل مضامین پر تواتر کے ساتھ اپنے تبصروں سے مجھے آگاہ کرتے تھے۔ کرنل یرکونی ہولوکاسٹ کے عینی شاہد تھے۔ وہ صرف 14برس کے تھے جب 1944کے اپریل کے وسط میں ناشتے کے وقت ہٹلر کے ماتحت نیم فوجی تنظیم ’ایس ایس‘ انہیں والدین کے ساتھ ریلوے اسٹیشن لے آئی تھی۔ لڑکپن میں یرکونی نے آخری مرتبہ اپنی ماں کو اس وقت دیکھا تھا جب وہ آسکویچ پہنچے تھے۔ اس کے چار ماہ بعد ان کے والد بھی چل بسے جنھیں ایک مہلک انجیکشن لگایا گیا تھا۔ ان کے واقعات کے بعد انہیں جرمنی اور اٹلی کے راستے ایک کارگو جہاز کے ذریعے تین سال لگے تھے۔
اسرائیل میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے میری ملاقات رہی۔ برالان یونیورسٹی کے پروفیسر افراہیم انبار اور ان کے ساتھیوں سے ہونے والی ملاقات میں انہوں نے مجھے مغربی کنارے اور یروشلم پر اسرائیلی نقطۂ نگاہ بتایا۔ میں اس کا موازنہ مقبوضہ کشمیر سے کرتا ہوں۔ متعدد ممتاز سفارت کاروں نے مجھے فلسطین اور مسلم دنیا سے متعلق اسرائیل کی خارجہ پالیسی پر بریفنگ دی۔ یاسر عرفات اور رابن کے درمیان معاہدے کے باجود اسرائیلی عرفات سے کے لیے تحقیر اور عدم اعتماد کے جذبات چھپانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کنگ ڈیوڈ ہوٹل میں ظہرانے پر میری کچھ عرب زعما سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہاں مجھے انسدادِ دہشت گردی کے عالمی شہرت یافتہ ماہر کرنل جوناتھن فہل سے براہ راست یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ افغانستان میں جنگ نے کس طرح بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کو ایندھن فراہم کیا اور اسرائیل ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی کیا تعبیر کرتا ہے۔
اسرائلی پارلیمنٹ کے رکن اور ذیلی کمیٹی برائے دفاعی منصوبہ بندی و پالیسی کے چیئرمین بریگیڈیر جنرل افراہم سنیہ پاکستان سے وسیع تر تعلقات کے پُرزور حامی تھے۔ ان سے گفتگو میں دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات پر بات ہوئی۔ اسرائیل میں کم از کم جن لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ان میں مجھے کسی مرحلے پر پاکستان یا مسلمانوں کے خلاف عداوت یا برے جذبات محسوس نہیں ہوئے۔ البتہ فلسطینیوں اور عربوں کے لیے عدم اعتماد ضرور دیکھا۔
اسرائیل اسرائیل کی گلیوں بازاروں میں گھومتے ہوئے ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ یورپ میں گھوم رہے ہیں تاہم کبھی کبھار سڑک کنارے اور بس اڈوں پر باوردی اور مسلح مردوخواتین فوجی نظر آتے ہیں۔ یہ بھی ڈیوٹی پر نہیں ہوتے بلکہ گھر واپسی جاتے ہوئے اپنے ہتھیار بھی ساتھ لے کر جارہے ہوتے ہیں۔چند ایک ریٹائرڈ لوگوں کہ اسرائیلی بالعموم فلسطینیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے قائل ہیں۔ اگرچہ بالخصوص حماس کی وجہ سے وہ اس خیال کا کھل کا اظہار نہیں کرتے۔ اسرائیل میں سیکیورٹی بہت سخت ہوتی ہے تاہم وہاں خوف اور شبہات کی فضا نظر نہیں آتی۔ لیکن مغربی کنارے میں حالات بالکل مختلف ہے جہاں بکتر بند گاڑیاں نظر آتی ہیں ، یہودی اور فلسطینی راہ گیروں میں خوف اور شبہات کی فضا محسوس ہوتی ہے۔
میں نے اپنے میزبانوں کے ساتھ یروشلم کے مسیحی، یہودی اور مسلمان علاقوں میں بلا روک ٹوک سفر کیا۔ مجھے ’دیوار گریہ‘ دیکھنے کا موقعہ بھی ملا اور وہ سرنگ بھی دیکھی جہاں ہیکل کی بنیادوں کی تلاش جاری تھی۔ میں نے جب قدیم یروشلم جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو اسرائیلیوں نے کہا کہ وہاں وہ میری حفاظت کی ضمانت نہیںدے سکتے۔قدیم یروشلم کے دورے کے موقعے پر جب دروازے پر کھڑے فلسطینی گارڈز کو پتا چلا کہ میں پاکستانی ہوں تو وہ مجھے سیر کروانے ساتھ چل پڑے۔ مجھے اقصیٰ میں نماز ظہر اور قبۃ الصخرہ میں عصر ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
مئی 2003میں اسرائیل کا میرا یہ دورہ دوسرے انتفادہ کے دوران ہوا تھا جو اسرائیلی وزیر اعظم ایرئیل شیرون کے 2000میں ہیکل کے متنازع دورے کے بعد شروع ہوا تھا۔ پانچ سال جاری رہنے والے اس انتفادہ میں تین ہزار فلسطینیوں اور 800اسرائیلیوں کی جانیں گئیں تھیں۔ اس کے بعد مغربی کنارے میں رکاوٹیں تعمیر ہوئیں لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔
سولہ برس بعد ایک بار پھر اسلام میں مقدس ترین سمجھے جانے والے مقامات پر اسرئیلی پولیس کے بہیمانہ تشدد کی وجہ سے ایک تنازعے نے جنم لیا۔ اس سے قبل 230شدت پسند یہودیوں نے ہیکل کی جانب ہلہ بول دیا اور اسرائیلی پولیس نے انہیں مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے دیا۔ فلسطینی اتھارٹی اور اُردن نے اس پر احتجاج کیا۔ اسرائیل کی جانب سے اشتعال انگیزی جاری رہی جو ماہ رمضان میں اور بھی بڑھ گئی جب انتہا پسند یہودیوں نے ایک بار پھر ٹیمپل ماؤنٹ کا رُخ کیا۔ رواں سال 10مئی کو کشیدگی اس وقت عروج پرپہنچ گئی جب حماس نے ردعمل میں غزہ سے ہزاروں راکٹ داغے اور اسرائیل نے اس کا جواب شدت کے ساتھ دیا جس کے نتیجے میں عورتوں اور بچوں سمیت 240فلسطینیوں کی جانیں گئیں۔ جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی کارروائیوں سے میڈیا بھی محفوظ نہیں رہا۔ اسرائیل نے اس عمارت کو نشانہ بنایا جہاں ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ سمیت کئی عالمی میڈیا گروپس کے دفاتر تھے۔ غزہ کی پٹی سے ملحقہ سرحد پر اسرائیل نے یہ ظاہر کرنے کے لیے بڑی تعداد میں فوجی تعینات کیے کہ اسے زمینی حملے کاخطرہ درپیش ہے۔
کیا تیسرا انتفادہ شروع ہوسکتا ہے؟ نامعلوم شدت کے ساتھ برآمد ہونے والے نتائج کا ساتھ مجھے اس کا امکان نظر آتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ عربوں اور اسرائیل کے مابین بڑھنے والے روابط کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔ اسرائیل اور عربوں کے مابین تعلقات کی بہتری میں متحدہ عرب امارات پیش پیش ہے اور بحرین سمیت دیگر ممالک بھی تجارتی و سفارتی تعلقات میں بہتری کے اس راستے پر چل رہے ہیں۔ یہ دوستی چانکیہ کے فارمولے پر بڑھائی جارہی ہے جس میں دشمن کا دشمن بھی دوست تصور ہوتا ہے۔ یہ دوستی بڑھانے میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دامان جیرڈ کشنر نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور چار نکات سے فریقین کو قائل کیا تھا۔ عربوں کے لیے ایران کی بڑھتی عسکری اور بالخصوص جوہری قوت سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل اندر اور باہر سے حریف قوتوں میں قوتوں میں گھرا ہے جس کی وجہ سے اسے اپنی بقا کے مسائل درپیش ہیں۔ تیسرا اہم پہلو یہ تھا کہ امریکا خطے میں اسرائیل کے تحفظ کا ضامن ہے اور چوتھا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ مغرب کسی صورت چین اور روس کو مشرقِ وسطیٰ کے تیل اور بحرہند تک رسائی نہیں دینا چاہتا۔ بدقسمتی سے تیسرا انتفادہ اسے ناممکن بناسکتا ہے۔ صدر بائیڈن کی سردمہری کے بعد سعودی عرب نے اپنی خارجہ پالیسی کا رُخ تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ اس نے عرب امارات کی طرح اسرائیل سے تعلقات میں بہتری کے بعد اب وہ اپنے ماضی کے سفارتی موقف کی جانب پلٹ رہا ہے اور غیر عرب ممالک ترکی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوششیں کررہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایران کے ساتھ بھی کسی سمجھوتے کی راہ نکل سکتی ہے۔
ان حالات میں امارات دوراہے پر آکھڑا ہوا ہے۔ تیسرے انتفادے سے ممکنہ طور پر ابراہام اکارڈ کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ کسی بھی وقت یہ مزاحمت ایک محدودجنگ کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں یہ معاہدہ تحلیل ہوسکتا ہے۔ جیرڈ کشنر نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت گھٹانے کے لیے اسے بمشکل ’زمین جائیداد‘ کا تنازع قرار دیا تھا۔ امارات نے جرات مندانہ مگر نپا تلا فیصلہ کیا تھا لیکن اب اس کی گرمجوشی بھی کم ہوتی جارہی ہے کیوں کہ حالات اس کے قابو سے بھی باہر ہوسکتے ہیں۔
امریکا میں یواے ای کے سفیر میرے بہت اچھے دوست یوسف العتیبہ جو امریکا سے قربت بڑھانے کے لیے کوشاں تھے یقینا جزبز ہورہے ہوں گے۔ وہ امارت کے ولی عہد کی خارجہ پالیسی کے موید ہیں۔ کشنر کی ’زمین جائیداد‘ کے بیان سے ابراہام اکارڈ کی اہمیت ہی متاثر ہوئی کیوں کہ اسے یہ عنوان دینے سے اس تنازع کا ہزاروں سالہ مذہبی اور عسکری پس منظر بیان نہیں ہوتا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران مخالف عرب اتحاد کے کمرشل پہلو کا درست اندازہ نہیں لگایا اور اس تنازع کی بنیاد مسئلہ فلسطین کو سرے ہی سے نظر انداز کردیا۔ اسرائیل کا اندازہ بھی غلط ثابت ہوا کہ صرف ایران کے خطرے کی وجہ سے عرب فلسطینیوں کے خلاف اس کے سفاکانہ اقدامات کو نظر انداز کردیں گے۔ چند ایک عرب اور غیر عرب ممالک کو چھوڑ کر اس مسئلے پر مسلم دنیا متحد ہے۔
عرب ممالک جب غیر عرب دنیا سے تعلقات کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں تو امارات اس بات کا متحمل نہیں کہ ان کوششوں سے لاتعلق رہے۔ وہ الفاظ یاد رکھنے چاہییں جو چینی وزیر اعظم نے پاکستان کی مدد سے چین کا خفیہ دورہ کرنے والے ہنری کسنجر سے کہے تھے کہ ’ یہ مت بھولیے کہ آپ جس پل سے گزر کر آئے ہیں، آپ کو اس سے دوبارہ بھی گزرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔ امارات سے ہمارا تعلق دیرینہ ہے اور اس کے نئے دوست وہ جگہ حاصل نہیں کرسکتے۔ بدلتے حالات میں اسرائیل کی داخلی سیاست کا کردار بھی اہم ہے۔ مشرقِ وسطیٰ ایک بارپھر ایک فیصلہ کُن موڑ پر کھڑا ہے۔ (جاری ہے)
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ نگار ہیں۔ مسئلہ فسلطین پر ان کا یہ طویل انگریزی مضمون جریدے ’نیریٹیو ‘ میں شائع ہوچکا ہے جسے قسط وار یہاں پیش کیا جارہا ہے)
فلسطین صرف ’زمین ‘ کا مسئلہ نہیں (حصہ اول )
وقتِ اشاعت : July 3 – 2021