|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2021

بلوچ قومی تحریک میں جدید بلوچ نیشنل ازم کے بانی، یوسف عزیز مگسی کا آبائی علاقہ جھل مگسی قرون وسطیٰ کا منظر پیش کررہا ہے۔ یوسف عزیز مگسی نے بلوچ سماج اور قومی تحریک میں ادارہ جاتی سوچ کی بنیاد رکھی۔ تاہم آج ان کی جنم بھومی ناقابلِ بیان حالات سے گزررہی ہے۔ 1935 میں کوئٹہ کے تباہ کن زلزلے میں ہم سے جدا ہونے والی عظیم سیاسی شخصیت یوسف عزیز مگسی کے بعد بالخصوص بلوچ معاشرہ خصوصاً جھل مگسی غیرسیاسی قیادت کی ہاتھوں میں چلا گیا۔ ایک طرف نیم فرسودہ قبائلی نظام جبکہ دوسری جانب جابر حکمرانوں نے جھل مگسی کی سیکولر سوچ کو ہلاکر رکھ دیا۔ ان کی بے وقت جدائی نے بلوچ تحریک کے لئے ایک خلا پیدا کردیا۔

سیاسی پلیٹ فارم کے فقدان کی وجہ سے جھل مگسی فرسودہ قبائلی نظام کے شکنجے میں چلاگیا۔ ان قبائلی نوابوں کو آج تک کوئی شکست نہیں دے سکا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ضلع جھل مگسی کی سیاسی و انتظامی ڈھانچہ پنجاب سے چلایا جاتا ہے۔ نواب اور سردار ان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ 1958 سے لیکر آج تک ضلع جھل مگسی پرنوابوں کا قبضہ ہے۔ عام انتخابات میں نواب فیملی سے تعلق رکھنے والے امیدوارکو کامیاب کروا جاتا ہے۔ نواب ذوالفقار مگسی کا تعلق اسی ضلع سے ہے۔

وہ سابق وزیراعلیٰ اور سابق گورنر بلوچستان بھی رہ چکے ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پورے ضلع میں لڑکیوں کے لئے کوئی کالج تک نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں کی غریب طالبات میڑک پاس کرنے کے بعد مزید زیور تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔ پورے ضلع میں صرف ایک بوائزانٹر کالج ہے۔ جہاں تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔ جبکہ نوابوں اور سرداروں کے بچے کراچی، کوئٹہ اور لاہور میں بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

اگر دیکھا جائے پاکستان میں اشرافیہ کا نظام چل رہا ہے جس کی ڈوریاں اسلام آباد سے ہلتی ہیں۔ جہاں سے سیاسی طاقت کا استعمال، مراعات یافتہ طبقہ، امراء اوراعلیٰ ترین اور دولت مند معاشرتی طبقات پر مشتمل ایک حکومت قائم ہے۔ جھل مگسی کے یہ نواب بھی اس اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ کیونکہ ہماری سرکار کے لئے چند نواب اور سرداروں کی حکمرانی سودمند ہوتی ہے۔ بجائے عوام سے ڈیل کرنے کے چند لوگوں سے بات کرنا کہیں آسان کام ہوتا ہے۔ آج ضلع جھل مگسی بھی اسی طرح کی صورتحال سے گزررہا ہے۔

گنداواہ ضلع جھل مگسی کا ضلعی صدر مقام شہر ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ یہاں کے عوام بے شمارمسائل سے دوچار ہیں۔ شہر میں صفائی کا نظام درہم برہم ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیرپڑے ہیں۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال گنداواہ میں ڈاکٹرزاور دیگرعملے کی کمی ہے جس میں بلڈ بنک تک قائم نہیں ہے جس کی وجہ سے اکثراوقات حادثات میں بلڈبنک نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کوکوئٹہ یا لاڑکانہ ریفر کیا جا تا ہے۔ یہاں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ضلع جھل مگسی میں امن وامان کی صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ بدامنی کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس امن وامان کی صورتحال قائم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں۔لوگ اپنی جان بچانے اور انصاف کی تلاش میں دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

 

رواں سال جنوری میں ایک آواز نے اسلام آباد کی سرکار کو ہلاکر رکھ دیا۔ اسلام آباد میں نیشنل پریس کے سامنے ضلع جھل مگسی کے تحصیل میرپور کی رہائشی خیرالنساء نے اپنی زمینوں پرقبضہ کے خلاف احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ ان کے والد پر جھوٹے مقدمات بنائے اورانہیں ایک سال تک نوابوں نے اپنے قید میں رکھا۔ انہوں نے کہا کہ پھر ان کے والد نے ہائی کورٹ بلوچستان میں دوبارہ کیس داخل کردیا اور ایک سال بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔
خیرالنساء کی طرح یہاں بیشمار ایسے خاندان ہیں۔ جو نوابوں کے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنے۔ اس ظلم و ستم سے خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ ان نوابوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔

ضلع جھل مگسی میں میدان پہاڑی سلسلہ، آبشاریں اور خوبصورت تفریحی مقامات ہیں۔ جن میں پیر چھتل شاہ نورانی، وادی مولہ دودی، ونگو اور کشوک وغیرہ ہیں۔ جھل مگسی میں گندم، کپاس، چاول اور دیگر فصلیں ہوتی ہیں۔ جھل مگسی کی زراعت زیادہ تربارانی ندی نالوں سمیت چشموں کے پانی پر منحصر ہے۔ زمینداروں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے یہاں زراعت کا شعبہ کافی متاثر ہے۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے زراعت کے شعبے کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہاں زرعی شعبے کو ترقی دینے کے لئے دو بڑے منصوبے زیرغور ہیں۔ جوتعطل اور سرد خانے کی نذرہوچکے ہیں۔ جن میں نولنگ ڈیم اور کچھی کینال شامل ہیں۔

28 ارب روپے کی لاگت سے نولنگ ڈیم کا منصوبہ پرایک عرصے سے کام کا آغاز نہیں کیا گیا۔ یہ ڈیم دریا مولہ پر تعمیر ہونا تھا۔ اسی طرح 80 ارب سے زائد کی لاگت سے شروع ہونے والا کچھی کینال کا منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہے۔ کچھی کینال کی تکمیل سے نہ صرف ضلع جھل مگسی بلکہ ضلع کچھی اور ضلع نصیرآباد میں بھی خوشحالی آئے گی۔لاکھوں ایکڑبنجراراضی آباد ہوگی۔

جھل مگسی میں زیادہ تر مگسی اور لاشار قبیلہ کے علاوہ دیگر قبائل بھی آباد ہیں۔ مورخین کے مطابق لاشار کی اولاد میں مگسی،جتکانی،بھوتانی اور دیگر شامل ہیں۔ لاشارقبیلہ کا ایک جنگجو قبیلہ ہے۔ مگسی قبیلہ کا ہیڈ کوارٹر موجودہ جھل مگسی تھا جو آج تک ہے۔ لیکن ان کی بڑی تعداد سندھ اور پنجاب میں بھی رہائش پذیر ہے۔ سندھ کے قمبرشہداد کوٹ میں بھی ان کی طوطی بولتا ہے۔ جونوابزادہ نادرمگسی کا حلقہ انتخاب ہے جبکہ لاشار قبیلہ کا ہیڈ کوارٹر موجودہ تحصیل گنداواں تھا۔ جہاں آج تک لاشاریوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ جہاں میر گہرام خان آکر آباد ہوگیا تھا۔ اس خطے میں میرچاکر خان رند اور گہرام خان کے درمیان ایک طویل جنگ ہوئی تھی۔ جس کو تاریخ میں رند اور لاشار کی جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آج ضلع جھل مگسی کو ایک یوسف عزیز مگسی جیسی قیادت کی ضرورت ہے۔ وہ بلوچستان کے حریت پسندوں میں سے تھے۔ وہ 1907 میں جھل مگسی میں پیدا ہوئے۔ وہ نواب قیصر خان مگسی کے صاحبزادہ تھے۔ انکے والد ایک روشن خیال اور ترقی پسند سوچ کے مالک تھے۔
یوسف عزیز مگسی اپنے عزم، جدوجہد، استقامت اور عمل و کردار سے تاریخ پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑکرگیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے سب سے پہلے 1920 میں ایک ادارے کی شکل میں بلوچوں کو متحد کرنے کیلئے عبدالعزیز کرد کے ساتھ مل کر“ینگ بلوچ”کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جوارتقاء پذیر ہو کر“انجمن اتحاد بلوچاں ”کی صورت اختیار کر گئی۔
وہ “انجمن اتحادِ بلوچاں ”کے صدر منتخب ہوگئے۔ انجمن کے تین بنیادی مطالبات تھے۔ جن میں ملک میں اصلاحات نافذ کرنا، روایتی بلوچ سرزمین کو متحد کرنا، اور ایک آزاد، خودمختار اور متحدہ بلوچستان قائم کرنا، جیسے مطالبات تھے۔انجمن اتحاد بلوچاں کو فعال کرنے کے لئے یوسف عزیز مگسی نے اپنا بھر پور مؤثر اور متحرک سیاسی کردار ادا کیا جبکہ قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی اس عظیم سوچ کی ترقی یافتہ شکل تھی۔
یوسف عزیز مگسی نے میرعبدالعزیزکرد کے ساتھ مل کر ریاست قلات کے حکمران شمس شاہ کی بدمعاشیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے 20 نومبر 1931 کو “شمس گردی”کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا۔ پمفلٹ، پوسٹر، وال چاکنگ، پریس کانفرنس اور جلسہ عام جیسے سیاسی ذرائع نے بلوچستان کی سیاست کو جدید جمہوری شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
یوسف عزیز مگسی نے قلمی جدوجہد کو بھی جاری رکھتے ہوئے“البلوچ، ترجمان بلوچ، اتحاد بلوچاں، بلوچستان جدید، زمین دار، انقلاب جیسے اخبارات کی سرپرستی کی بلکہ ان میں قلمی تعاون بھی کیا۔
جب میر یوسف عزیز مگسی کو مگسی قبیلے کانواب بنایا گیا تو اس موقع پر انہوں نے اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنایا۔ اور اپنے علاقے میں متعدد اصلاحات نافذ کرکے ترقی کی بنیاد رکھی جن میں کھیتر تھرکینال کوٹ یوسف کا شہر تعلیمی ادارہ جامعہ یوسفیہ غریبوں کے علاج کیلئے ڈسپنسری اور دار الامان بنوایا۔ 1933 سے پہلے تعلیم کا کوئی خاص انتظام نہ تھا صرف چند آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ انہوں نے اپنی آمدنی کا دسواں حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
یوسف عزیز مگسی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ بلوچ قوم کی یکجہتی اور اجتماعی مفادات کے لیے بھی کام کیا۔ یہاں تک کہ وہ تمام بلوچ قبیلوں اور سرداروں کو پہلی کل بلوچ ہند کانفرنس میں یکجا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

1932ء کو میر یوسف عزیز مگسی اور ان کے دیگر ساتھیوں اور قبائلی معززین نے جیکب آباد کے مقام پر بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس منعقد کی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچ جمہوری اصولوں سے اچھی طرح شناسا ہیں۔ مگر ہماری قوم بیرونی اثرات سے بے پناہ طورپرمتاثر ہورہی ہے، نتیجتاً ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ ہم خود کو اتحاد اور اتفاق سے منظم کریں۔

1933 میں دوسری بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا انعقاد حیدرآباد میں ہوئی۔ بحیثیت نواب دوسرے سرداروں کی طرح حکمرانوں نے انہیں بھی شرکت سے روکا، لیکن وہ کانفرنس میں شریک ہوئے۔ جس میں بلوچستان کے علاوہ متحدہ ہندوستان، ایران افغانستان، مشرق وسطیٰ، ترکمانستان سے بلوچ سرداروں اور مبصرین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں بلوچوں کے حقوق، آزادی، خوشحالی کیلئے کئی قرار دادیں منظور ہوئیں۔

سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے برطانوی حکومت نے نواب یوسف کو ملک بدر کردیا۔ انہیں جبری طور پر لندن بھجوایاگیا جبکہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں خان محمد خان، میرعبدالعزیزکرد، محمد حسین عنقا سمیت دیگر کو مچھ جیل میں قید کردیا گیا۔ دس ماہ جلا وطنی کے بعد نواب یوسف عزیز مگسی واپس اپنے وطن آئے اور واپس آتے ہی وہ منشتر بلوچوں کی تحریک کو دوبارہ منظم اور فعال کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔ لیکن وقت اور زندگی نے انکا ساتھ نہیں دیا۔ 31 مئی 1935 کے خوفناک زلزلے میں جہاں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ وہیں کوئٹہ کے مقامی ہوٹل کے ملبے سے ان کی لاش ملی۔

یوسف عزیز مگسی نے انتہائی کم عمری اور کم وقت میں بلوچ قومی تحریک کے لئے جو کوششیں کیں وہ بعد میں بلوچ جدوجہد کے تاریخی تسلسل کے لئے طاقت اور قوت کا سبب بن گئی۔ بلوچستان کی شعوری سیاسی و ادبی جدوجہد میں میر یوسف عزیزمگسی کا اہم مقام ہے۔ اس جدوجہد میں عبدالعزیز کرد،محمد حسین عنقا،فیض محمد یوسفزئی،ملک پناہ اور میرغوث بخش بزنجو اہم ترین شخصیات میں شمار کئے جاتے تھے۔ جن سیاسی جدوجہد کے بدولت بلوچستان کو صوبہ بنا دیا گیا اور ون یونٹ کو ختم کردیا گیا۔