اپوزیشن جماعتوں کی سب سے بڑی اتحاد پی ڈی ایم کی بنیاد جب رکھی گئی تو یہ طوفان برپاکیاگیا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایک پیج اور سیاسی حکمت عملی کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجیں گی۔ آغاز تو بڑے بڑے جلسے جلوسوں سے کیاگیا اور تقاریر بھی سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سے ماضی کی مخالف جماعتیں ایک اسٹیج پر کھڑے ہوکر مستقبل میں ساتھ چلنے کے وعدے کررہے تھے اور ایک دوسرے پر کبھی بھی تنقید نہ کرنے کے دعوے کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
مگر بعض حلقوں کی جانب سے اول روز سے یہی تبصرہ کیاجارہا تھا کہ اتحاد میں بہت ساری جول موجود ہیں جہاں بڑی جماعتیںمرکز میں ایک اتحاد کے طور پر کھڑی دکھائی دے رہی ہیں تو صوبوں کے اندر حکومتی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنائے ہوئے ہیں جو آج بھی موجود ہے اور مرکزکی حکومتی پالیسی پر یہی اپوزیشن جماعتوں کے صوبائی قائدین عمل پیرا ہیں ۔جب بھی صوبائی قیادت کے سامنے یہ سوالات رکھے گئے کہ مرکزی قائدین تو حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاری کررہے ہیں اور آپ حکومت کا حصہ ہیں تو ان کی جانب سے یہی مؤقف سامنے آتاتھا کہ مرکزاور صوبائی معاملات پر پارٹی کے فیصلے حالات کے مطابق کئے جاتے ہیں۔
جس میں صوبائی سطح پر جماعت آزاد ہے جوکہ سیاسی نقطہ نظر سے کھلا تضاد ہے۔ بہرحال اس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات پر مرکزی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں تھی اور بعدازاں سینیٹ انتخابات کے بعد یہ اختلافات کھل کر سامنے آئے اور پس پردہ بڑی سیاسی جماعتیں اپنے معاملات کو حل کرنے کیلئے بات چیت بھی کررہے تھے اور آج بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔
آج پھر یہ دعوے کرنا کہ اس حکومت کو گھر بھیجیں گے کتنی حیرت کی بات ہے کہ اب بھی اپوزیشن جماعتیں حکومت کو رخصت کرنے کی باتیں کررہی ہیں ۔سوات جلسہ ایک جھلک ہے کہ اس میں خود مسلم لیگ ن کے کارکنوںکی تعداد کتنی تھی اور دیگر جماعتوں کے کارکنان کتنے تھے سب سے اہم بات کہ مریم نواز سیر وتفریح کرتے ہوئے سوات میں دکھائی دیئے جبکہ پیپلزپارٹی اور اے این پی تو پی ڈی ایم سے جدا ہوچکے ہیں گوکہ شہباز شریف اور مولانافضل الرحمان کی خواہش ہے کہ دونوں جماعتیں واپس پی ڈی ایم کا حصہ بنیں ۔کیا بلاول بھٹو زرداری کے آزاد کشمیر جلسے کی تقریر کے بعد بھی اس خواہش کی گنجائش رہتی ہے۔
جس طرح سے بلاول بھٹو زرداری نے ن لیگ کو براہ راست شدید تنقید کا نشانہ بنایاگوکہ حکومت پر بھی وہ خوب برسے مگر بحیثیت اپوزیشن جماعت انہوں نے ن لیگ کیلئے کیا باتیں کیں، ان پر نظردوڑائی جائے تو تمام نقشہ واضح ہوجائے گا کہ اپوزیشن اتحاد کے متعلق پیپلزپارٹی کا مؤقف کیا ہے۔ آزاد کشمیر جلسے کے دوران بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آر پار کا نعرہ لگانے والے پاؤں پکڑنے کی سیاست پر آ گئے اور کہتے ہیں ہمیں وزیر اعظم بنائیں پاؤں پکڑنے کو تیار ہیں لیکن ہم کسی کے پاؤں نہیں پڑیں گے بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں شکست پر ہم سے لڑائی کی گئی کہ ہم نے جیتنا تھا آپ کیوں جیت گئے۔ بجٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے پورے اراکین آئے اور ہمارے دوست غائب ہو گئے لیکن ہم توقع رکھتے ہیں مولانا فضل الرحمان اپنے 4 اراکین کو پکڑیں گے جو بجٹ کے موقع پر غائب تھے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اس حکومت کو چلانا چاہتی ہے۔
ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ باہر نکلیں لیکن ہمارے سب دوست بجٹ کے دن غائب تھے۔ بلاول بھٹو زرداری کے اس گرج دار تقریر کے بعد بھی پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی کی واپسی کی باتیں اور حکومت کو گھر بھیجنے کے دعوے احمقوں کی جنت میں رہنے کی بات ہوگی۔