ضلع واشک عالمی طاقتوں کے ایک فوجی اڈے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ خطہ جغرافیائی اورعسکری اعتبارسے اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ اس کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں جبکہ افغانستان بھی کچھ ہی دورہے۔ ویسے تومعدنی دولت کی وجہ سے بلوچستان کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ تاہم نائن الیون کے واقعہ کے بعد بلوچستان کی سرزمین کی اہمیت عسکری حوالے سے بڑھ گئی ہے۔
2001ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے اور القاعدہ کے خلاف آپریشن شروع کرنے کے لیے پہلی بار امریکی اور نیٹو افواج نے ضلع واشک میں قائم ”شمسی ایئربیس“کا استعمال کیا۔ 2001ء سے 2011ء تک عالمی طاقتوں نے اسلام آباد سرکار کی آشیر باد سے اس ایئربیس کو باقاعدگی سے افغان طالبان اور القاعدہ کے خلاف استعمال کرتے رہے۔ یہاں سے نہ صرف افغانستان پر حملے کرتے رہے بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی طالبان کے خلاف ڈرون حملے کئے گئے۔ ان ڈرون حملوں میں قبائلی علاقوں کی بے شمار آبادیاں بھی نشانہ بنتی رہیں جس سے سینکڑوں معصوم خواتین اور بچے شہیدہوگئے۔ آبادیوں پر بمباری کرنے پر ہماری سرکار نے امریکہ کے سامنے اف تک نہ کی۔ وہ ڈالرز بناتے رہے۔ ہماری سرکار کی مصیبت یہ ہے کہ وہ بلوچوں کی طرح ہر پشتون کو دہشتگرد سمجھتا ہے۔
اسلام آباد نے واشنگٹن کے ساتھ شمسی ایئر بیس کی حوالگی کو خفیہ رکھا۔ بلوچستان میں فوجی اڈے کی موجودگی سے ہماری سرکار ہمیشہ انکارکرتی رہی۔ سرکاری طورپر عوام کو آگاہ نہیں کیاگیا۔ 2009 کو اس علاقے سے ڈرون طیاروں کے پرواز کے شواہد سامنے آگئے جس کی تردید ناممکن تھی۔ جس پر ہماری سرکار نے شمسی ایئر بیس کی حوالگی کا مجبوری میں اعتراف کیا۔
2011ء کو مہمندایجنسی میں پاکستانی چیک پوسٹ پر نیٹو فوج کے حملے کے بعد پاکستان نے امریکا کو 15 دن کے اندر شمسی ایئربیس خالی کرنے کا الٹی میٹم دے دیا جس کے بعد امریکا نے اسے خالی کر دیا۔ واضح رہے کہ ”شمسی ایئربیس“ 30 سال قبل سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک کے حکمرانوں نے اپنے لیے تعمیرکرایا تھا کیونکہ عرب شیوخ تلور کا شکار کرنے یہاں آتے ہیں۔ آج بھی یہ ایئربیس عرب شیوخ کے استعمال میں ہے۔
افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا ء کے بعد بلوچستان کی سرزمین کی اہمیت ایک مرتبہ پھر بڑھ گئی ہے۔ عالمی طاقتیں بلوچستان سے نہ صرف افغانستان کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں، بلکہ ایران پر بھی نظر رکھنا چاہتی ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ امریکہ ایک بار پھر شمسی ایئر بیس کو دوبارہ لینے کی کوشش کررہا ہے۔ تاہم پاکستانی حکام امریکہ کوکوئی ایئربیس دینے سے متعلق دعوؤں کی سختی سے تردید کررہے ہیں۔
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عالمی طاقتوں کو ہوائی اڈے دے کر بے شمار امداد اور مراعات حاصل کیے۔ مگر بد قسمتی سے ان فوائد کے ثمرات یہاں کے غریب عوام تک کبھی بھی نہیں پہنچے جس کی وجہ سے ضلع واشک کے عوام آج بھی پتھر کے زمانے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان میں واشک واحد ضلع ہے۔ جہاں کالج کا نام و نشان نہیں ہے۔ واشک شہر میں بجلی کے تار موجود ہیں۔ مگر ان میں کرنٹ نہیں۔ پاک ایران بارڈر کی موجودگی کے باوجود دو طرفہ تجارت نہیں ہوتی۔ یہاں انسان اور حیوان ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں گیسٹرو،ہیضہ اور ہیپاٹائٹس کی بیماریاں جنم لیتی ہیں جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
متحدہ عرب امارت کے شیخ نے بیس سال قبل بجلی کی فراہمی کے لئے واشک کو جنریٹرز فراہم کئے تھے۔ جو آج ناکارہ ہوچکے ہیں۔ بیس سال پرانے ناکارہ جنریٹرزعوام کیلئے درد سر بن گئے ہیں۔ کیسکو حکام کی جانب ان کی مرمت نہیں کی جارہی۔ ناگ کے علاقے میں بجلی کی سہولت بالکل نہیں ہے۔ یہاں ایک گرڈ اسٹیشن پرکام جاری ہے۔ تاہم یہ کام بھی سرد خانے کی نذر ہوگیا ہے۔ ضلع واشک کے سرحدی علاقے ماشکیل میں بجلی ایران سے آرہی ہے۔ لیکن لوڈ شیڈنگ نے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ 24 گھنٹے میں چند گھنٹے کے لیے بجلی ملتی ہے۔
ضلع واشک کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں۔ جہاں کسی زمانے میں یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش پاک ایران بارڈر تجارت پر منحصر ہوا کرتا تھا۔ تجارت کی سرگرمیاں اس وقت روک دی گئیں۔ جب پاک ایران بارڈر پرباڑ لگادی گئی۔ سرحد کی پٹی کو مکمل سیل کردیاگیا جس کی وجہ سے بارڈرسے منسلک کاروبار کرنے والے افراد سخت معاشی مسائل سے دوچار ہوگئے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ بارڈر کو دو طرفہ تجارت کے مقصد سے عملی طور پر آپریٹ کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں یہ واحد انوکھا ضلع ہے۔ جہاں انٹرکالج بغیر عمارت کے چل رہا ہے۔ یہ کالج بسیمہ کے علاقے ایک ہائی اسکول کی عمارت کے اندرموجود ہے۔ بسیمہ میں انٹر کالج کی منظوری 2008 میں ہوئی اور آج تک انٹر کالج کی عمارت پایہ تکمیل نہیں پہنچی۔ عمارت کا تعمیراتی کام تعطل کا شکارہے۔ کالج کے نہ صرف بلڈنگ کی تعمیر میں تاخیر کی جارہی ہے۔ بلکہ اس میں اسٹاف بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
مزید برآں ضلع میں ایک ہی گرلز ہائی سکول ہے۔ جو کہ تحصیل بسیمہ میں واقع ہے سائنس لیب اور کمپیوٹرلیب کا فقدان ہے۔ بس سروس نہ ہونے کی وجہ سے طالبات دور دراز سے پیدل چل کرآتی ہیں۔
واشک میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ کوارٹر کی عمارت کی کہانی بھی انٹر کالج کہانی سے مختلف نہیں ہے۔ ڈی ایچ کیو کی عمارت کا کام سست روی کا شکار ہے۔ کئی سالوں سے عمارت پر کام جاری ہے۔ علاقے میں علاج و معالجہ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ معمولی بیماریوں کے علاج کے لیے کوئٹہ یا کراچی کا رخ کرتے ہیں۔
ضلع واشک میں اسپورٹس کے فروغ کے لیے چار فٹبال گراؤنڈز کی منظوری ہوئی تھی۔ جس میں صرف ایک گراؤنڈ کی چاردیواری مکمل ہوسکی ہے۔ باقی تین گراؤنڈز کا نام و نشان نہیں ہے۔ سماجی حلقوں نے الزام لگایا کہ ان منصوبوں کے فنڈز خردبرد کئیگئے۔ گراؤنڈ نہ ہونے کی وجہ سے بچے کھلے جگہوں پر کھیلتے ہیں۔
ضلع میں پینے کے پانی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کنوؤں اور ندی نالوں سے مضر صحت پانی لاتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی لوگ طویل مسافت طے کر کے پانی لاتے ہیں۔
واشک وہ ضلع ہے،جہاں صحرا پہاڑوں سے ملتا ہے۔ اتنا بڑا ریگستان ہے جہاں انسان تو کجا پرندوں کا سفر کرنا بھی نا ممکن ہے۔ اگر اس ریگستان کو دبئی کی ڈیزرٹ سفاری طرز کے منصوبے کی شکل دی جائے تو اس سے علاقے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ اور علاقے میں خوشحالی آسکتی ہے۔ ڈیزرٹ سفاری منصوبے کی وجہ سے یہ خطہ ملکی و بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ جہاں ریسٹ ہاوسز، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس قائم کیے جاسکتے ہیں۔
یہاں معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لیے زراعت کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سے منسلک ہے۔ پانی کی قلت کے باعث یہاں کاشت کی گئی فصلیں متاثر ہورہی ہیں۔ علاقے میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں زراعت کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ زراعت کے شعبے کو فروغ دینے میں حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ حالانکہ ضلع کے مختلف علاقوں میں بارانی ندیوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ ان ڈیمز کی تعمیر سے علاقے میں پانی کی قلت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں زمینداروں کو آسان اقساط پر سولر ٹیوب ویلز فراہم کئے جائیں تاکہ وہ بہتر سے بہتر طریقے سے زمینداری کرسکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ کون کرے گا؟ ان محرومیوں کی وجہ سے صوبے میں ایک لاوا پک رہا ہے۔ صوبے میں امن و امان کی گھمبیر صورتحال ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد سرکار کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔