|

وقتِ اشاعت :   July 13 – 2021

گزشتہ 4جولائی کو چیف سیکرٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا،سیکریٹری پلاننگ کمیشن اسلام آباد عامر یعقوب شیخ، سیکریٹری فشریز شاہد سلیم قریشی،کمشنرمکران شاہ عرفان غرشین، ڈائریکٹر جنرل فشریز طارق الرحمن بلوچ اور دیگر حکام نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی خصوصی ہدایت پر پسنی کا دورہ کیا پسنی فش ہاربر جیٹی کی احاطے میں کھلی کچہری میں مقامی ماہی گیروں کے مسائل سنے اور اْن سے گفتگو بھی کی۔

کھلی کچہری سے قبل منیجنگ ڈائریکٹر پسنی فش ہاربر اتھارٹی بابر خان نے چیف سیکرٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا کو پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے پراجیکٹ پر عملدرآمد سے متعلق بریفنگ دی اور اْنھیں جیٹی کی بحالی کے منصوبے کیحوالے سے بتایا۔ بریفنگ میں پہلی بار پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے حکام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ماضی میں ہونے والی ڈریجنگ مکمل طور پر ناکام رہا ہے منصوبے میں ڈرینجگ کے علاوہ بریک واٹر کی توسیع و مرمت،کنسلٹینسی سروے اور دیگر مدات میں مجموعی طور پر ستائیس کروڑ بارہ لاکھ 70ہزار روپے خر چ کیے گئے تھے۔

لیکن اس کے باوجود یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ایم ڈی پسنی فش ہاربر اتھارٹی نے بریفنگ کے دوران چیف سیکریٹری بلوچستان کو بتایا کہ اگر منصوبے کی بحالی کا کام شروع ہوجائیتو منصوبے کی تکمیل سے علاقے کے پچاس سے 80ہزار ماہی گیروں کو ماہی گیری سرگرمیوں میں شریک ہونے کا موقع ملے گا جبکہ چار ہزار سے پانچ ہزار ماہی گیری کشتیاں فعال ہو جائیں گی۔چیف سیکریٹری بلوچستان کو بتایا گیا کہ ڈریجر مشین کی خریداری اور بریک واٹر کی ازسر نو سروے اور اْسے ڈیزائن کرکے پسنی جیٹی کی بحالی کا کام دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا نے منیجنگ ڈائریکٹر پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے دیے گئے تجاویز سے اتفاق کیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ پسنی فش ہاربر جیٹی کی بین الاقوامی اچھی شہرت کی حامل فرم سے از سر نو فیزیبلٹی کرائی جائے گی۔

کیونکہ طویل عرصہ قبل کرائی گئی فیزیبلٹی غیر موثر ہوچکی ہے نئی فزیبلٹی اور سروے اسٹڈی رپورٹ وغیرہ سے جمع ہونے والی ریت کی مقدار اور دیگر معملات کا تعین کیاجائے گا چیف سکریٹری بلوچستان نے مکمل یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ کہ یہ تمام کام ہنگامی اور جنگی بنیادوں کے تحت شروع کیے جائینگے۔ چیف سیکریٹری بلوچستان نے یہ بھی کہا کہ مطلوبہ فنڈز اور دیگر وسائل صوبائی حکومت فراہم کریگی پسنی فش ہاربر کی بحال ہونے سے پسنی میں 30 کے قریب آئس فیکٹریاں، کولڈ اسٹوریج،ورکشاپس مچھلیوں کے گودام اور دیگر متعلقہ کاروبار اور سرگرمیاں بحال ہو جائیں گی۔

چیف سیکریٹری بلوچستان نے بتایا پسنی جیٹی کی بحال ہونے سے فش ہاربر کے اصل زریعہ آمدن نیلامی فیس، برتھ فیس، پانی کی فراہمی کے چارجز، مچھلیوں کے اتارنے چڑھانے کی مد میں ٹیکسز جو سالانہ تقریبا 200ملین بنتے ہیں صوبائی حکومت کی خزانے کے اضافے میں اہم کردار ادا کرینگے انہوں نے بتایا کہ پسنی جیٹی کی ڈریجنگ کرانے میں ماضی میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اْنہیں دوبارہ دوہرانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دینگے۔

ّچیف سیکریٹری بلوچستان کو دیے گئے بریفنگ میں پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے حکام نے 2015میں ہونے والی ڈریجنگ جس میں پچیس کروڑ چیاسی لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ ہوچکی ہے اْسے ناکام قرار دے دیا اور اعتراف کیا کہ کچھ ٹیکنیکل غلطیاں ہوئی ہیں. لیکن ڈریجنگ کی ناکامی کے اسباب نہیں بتائے گئے اور ماضی کے کیے گئے ڈریجنگ میں کس نے کن لوگوں نے اپنی غلطیوں سے حکومت بلوچستان کو مالی طور پر بھاری نقصان پہنچایا اْن کا بھی تعین نہیں کیا گیا حالانکہ نیب بلوچستان نے پسنی فش ہاربر کی ڈریجنگ میں کرپشن اور دیگر بے قاعدگیوں کے خلاف چار سال تک انکوائری کی۔

لیکن کوئی بھی زمہ دار نیب کی گرفت میں نہ آسکا۔گزشتہ سال 2020 کے جولائی کے مہینے میں سی پیک پارلیمانی کمیٹی کے وفد نے بھی پسنی کا دورہ کیا تھا اور پسنی جیٹی کی بحالی کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں پسنی جیٹی کی بحالی کا عندیہ دیا تھا درمیان میں ایک سال کا طویل عرضہ گزر گیا لیکن جیٹی کی بحالی پر کوئی خاطرخواہ پیشرفت نہیں ہوسکی۔ چیف سیکریٹری بلوچستان کا حالیہ دورہ دراصل ایم این اے لسبیلہ گوادر محمداسلم بھوتانی کی مرہون منت ہے کہ جنہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کرکے اْسے ماہی گیروں کے مسائل سے آگاہ کیا اور اسمبلی فلور پر بھی حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

چیف سیکریٹری بلوچستان کا حالیہ دورہ پسنی تین بار منسوخ ہوا مقامی انتظامیہ کو دو بار شامیانہ لپٹانا پڑا تیسری بار ماہی گیر خاموش نہیں رہے اور اْنہوں نے وزیراعلی بلوچستان سے مطالبہ کیا کہ پسنی جیٹی کو سیاسی اسکورنگ کے طور پر استعمال کرنے کے عمل سے ماہی گیر صوبائی حکومت کی جانب دارانہ عمل پر اْنگلی اْٹھا رہے ہیں ماہی گیروں کا کہنا تھا کہ وزیراعلی بلوچستان اپنے سیاسی حریف پر سبقت لے جانے کے لیے چیف سیکریٹری بلوچستان کو پسنی کا دورہ کرنے سے منع کر رہے ہیں کیونکہ جس دن چیف سیکریٹری بلوچستان اور سیکریٹری پلاننگ کمیشن اسلام آباد پسنی جیٹی کا دورہ کرنے آرہے تھے عین اْسی دن ایم این اے لسبیلہ گوادر محمد اسلم بھوتانی بھی پسنی کے دورہ پر تھے۔

پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے بحالی پروجیکٹ کے کچھ اعداد وشمار جو معتبر زرائع سے معلوم ہوئے ہیں ان اعداد وشمار کے مطابق پسنی جیٹی کی ڈریجنگ سے قبل ہی پانچ کروڈ روپے کی خطیر رقم پروجیکٹ کے ملازمین کی تنخواؤں اور کنٹیجنٹ کیلیے 2012سے 2020تک خرچ کردیے گئے ہیں۔پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے افسران آج تک اس بات کی وضاحت نہیں کرپائے ہیں کہ پسنی فش ہاربر اتھارٹی کی بحالی پروجیکٹ کے ملازمین کی تعداد کتنی ہے اور اِس وقت وہ کہاں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔حالانکہ پسنی فش ہاربر بحالی پروجیکٹ کی منظوری 2010میں دی گئی تھی اس کی بحالی کے لیے حکومت جاپان نے دسمبر2010کو 80کروڑ روپے کا گرانٹ جاری کیاتھا پروجیکٹ کو چلانے کے لیے ایک پروجیکٹ منیجمنٹ یونٹ کا قیام کیاگیا اور اسی یونٹ کے لیے پانچ کروڑ روپے کا پی سی ون بناکر اْسے منظور کرایا گیا۔

معتبر زرائع کے مطابق جاپانی گرانٹ کے اسی کروڑ روپے میں ستائیس کروڈ بارہ لاکھ سترہ ہزار روپے خرچ کیے گئے ہیں اعداد وشمار کے مطابق 2015میں کی گئی ڈریجنگ (جیٹی کی برتھوں سے مٹی نکالا گیا) اور اس کے لیے 258646800 روپے خرچ کئے گئے اور سول انوسٹی گیشن کی مد میں 3437000 خرچ ہوئے نینڈرلینڈ کی کنسلٹینٹ کو فش ہاربر جیٹی کے بریک واٹر کی ڈیزائن ڈریجر مشین کی خریداری میں پروجیکٹ انتظامیہ کو معاونت کرنے کے لیے ایک کروڈ اکتیس لاکھ روپے کی پیشگی ادائیگی کی گئی اور ابھی چار سال گزرگئے ہیں لیکن کنسلٹینٹ کی جانب سے نہ تو کام کی شروعات کی گئی ہے اور نہ ہی کنسلٹینٹ پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے پیسے واپس کررہی ہے صوبائی حکومت جوکہ اس پروجیکٹ کو مانیٹر کررہی ہے وہ بھی نیدرلینڈ کی کنسلٹینٹ کمپنی سے پیسے واپس لینے سے گھبرا رہی ہے۔

کیونکہ مذکورہ کنسلٹینٹ کمپنی اْلٹا صوبائی حکومت اور پسنی فش ہاربر اتھارٹی کو دباؤ میں لا رہی ہے کہ اْن کی وجہ سے کمپنی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ جس وقت پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے پروجیکٹ منیجمنٹ اور کنسلٹینٹ کمپنی کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اْس وقت ڈالر انتہائی کم ریٹ پر تھا اور ابھی روپے کی نسبت ڈالر اوپر جاچکی ہے کنسلٹینٹ کمپنی یہ چارہی ہے کہ اْس سے کیے گئے معاہدے کی ازسرنو تجدید کرکے رقم بڑھائی جائے۔

پسنی فش ہاربر کی بحالی کے لیے 2018 میں پروجیکٹ کے پی سی ون کو ریوائیوزڈ کرکے اْس کی لاگت 1404000000 رکھی گئی حکومت بلوچستان نے اپریل 2018 میں مذکورہ پی سی ون کو منظور کیا اور مزید منظوری کے لئے پلاننگ کمیشن اسلام آباد کو بھیج دیا گیا۔سی پیک کے پارلیمانی وفد جنہوں نے جولائی 2020 کو پسنی کا دورہ کیا تھا انہوں نے اپنی رپورٹ مرتب کرکے پلاننگ کمیشن اسلام آباد کو دے دی اور پلاننگ کمیشن اسلام آباد نے اگست 2020 کو ریوائیوزڈ کی گئی پی سی ون کی منظوری اس شرط پر دی کہ پروجیکٹ کو گوادر پورٹ اتھارٹی چلائے گا۔بتایا جاتا ہے کہ حکومت بلوچستان نے ستمبر 2020 میں پلاننگ کمیشن اسلام آباد کو ایک مراسلہ لکھا ۔

جس میں انہوں نے پسنی فش ہاربر اتھارٹی کو گوادر پورٹ اتھارٹی کے حوالے کردینے کے فیصلے پر نظرثانی کا کہا گیا لیکن پلاننگ کمیشن اسلام آباد نے صوبائی حکومت کی جانب سے لکھے گئے مراسلے کو سردخانے میں رکھ دیا دوسری جانب اندرونی طور پر سیاسی مسائل میں گرا بلوچستان حکومت نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر پسنی فش ہاربر اتھارٹی گوادر پورٹ اتھارٹی کے انڈر چلی جائے تو اِس میں بہتری آنے کی امید ہے لیکن بلوچستان حکومت اس کی مخالفت کرکے پسنی فش ہاربر اتھارٹی کی بحالی کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔پلاننگ کمیشن اسلام آباد کی جانب سے ریوائیوزڈ کی گئی پی سی ون کے بقایا رقوم جو ایک ارب تیرہ کروڑ ستائیس لاکھ تراسی ہزار بنتے ہیں یہ رقم گورنمنٹ آف بلوچستان کے اکاؤنٹ نمبر ون میں موجود ہیں۔

پسنی فش ہاربر اتھارٹی کی بحالی کے حوالے سے 29اپریل 2021 کو پرویڑنل ڈولپمنٹ ورکنگ پارٹی (PDWP) کا ایک اجلاس ہوا جس میں پسنی فش ہاربر کی بحالی کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کیے گئے اور ان فیصلوں کی منظوری وزیراعلی بلوچستان سے لینی تھی لیکن بتایا جارہا ہے کہ PDWP کی تجویز کیے گئے فیصلوں کی فائل ابھی بھی وزیراعلی بلوچستان کے ٹیبل پر پڑی ہوئی ہے۔پرویڑنل ڈولپمنٹ ورکنگ پارٹی نے اپنے اجلاس میں جو فیصلے کیے تھے اْن میں کہا گیا کہ پسنی فش ہاربر اتھارٹی کی بحالی کے لیے پہلے جتنے رقوم خرچ ہوئے ہیں اْس کو الگ کرکے چیف منسٹر انسپکشن ٹیم سے اْس کی تحقیقات اور انکوائری کرائی جائے اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی فیصلے کیے گئے لیکن وزیراعلی بلوچستان کی جانب سے اْن فیصلوں پر عملدرامد کرانے کی منظوری ابھی تک نہیں دی گئی ہے

وزیراعلی بلوچستان میر جام کمال خان جنہوں نے الیکشن سے قبل پسنی فش ہاربر کے جیٹی کا دورہ کیا تھا اور ماہی گیروں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اْنکی پارٹی کامیاب ہوئی تو سب سے پہلے وہ پسنی فش ہاربر اتھارٹی کے جیٹی کی بحالی کا کام کرائے گا لیکن ابھی بلوچستان عوامی پارٹی کی صوبائی حکومت کو تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن پسنی فش ہاربر جیٹی کی بحالی کا کام ابھی تک شروع نہیں کیا گیا ہے۔
پسنی کے ماہی گیر اس بات پر حیران ہیں کہ اگر پسنی فش ہاربر بحالی پروجیکٹ کے فنڈز موجود ہیں تو گزشتہ گیارہ سالوں سے اْنہیں بروئے کار کیوں نہیں لایا جارہا ہے۔