|

وقتِ اشاعت :   July 15 – 2021

کوئٹہ:  نیشنل پارٹی کے صوبائی سوشل میڈیا سیکرٹری سعد دہوار بلوچ نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچستان کی تاریخ شہدا سے بری پڑی ہیں جنہوں نے اپنے ننگ و ناموس، قومی شناخت اور اپنی بقا کیلئے گزشتہ صدیوں سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔

15جولائی 1960بھی انہیں شہادتوں کی ایک اور کڑی تھی جب بدنام زمانہ “ون یونٹ”کے خلاف 61سالہ شہید بابو نوروز خان زرکزئی اور اس کے ساتھیوں کو مذاکرات کے نام پر قرآن پاک کا واسطہ دیں کر پہاڑوں سے اتارا گیا اور انہیں برخلاف قول حیدرآباد اور سکھر کے جیلوں میں سزائے موت دیکر شہید کیا گیا۔

جب کہ بابو نوروز کو عمر قید کی سزا دی گئی جو بعد میں 1964کو جیل میں وفات پا گئے اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔بلوچستان کا مسئلہ آغاز سے ہی سیاسی رہا ہیں مگر بدقسمتی سے ہماری ریاست اس مسئلے کو سمجھنے سے نجانے کیوں قاصر رہی ہے اور بلوچ مسئلے کا بامعنی سیاسی حل نکالنے کی بجائے ریاست اپنی طاقت متواتر استعمال کرتی آئی ہیں، جس کی وجہ سے بلوچستان میں احساس بیگانگی اور عدم اعتماد کا فضا قائم ہوا ہیں۔

ایک فوجی آمر جنرل مشرف کی لگائی گئی آگ کی تپش آج پورا بلوچستان محسوس کررہا ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان اور بے گناہ آفراد اس جنگ کے بھینٹ چڑے ہیں اور آج بھی بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جبری طور پر گمشدہ ہیں۔ وزیر اعظم کی حالیہ گوادر میں بلوچ علیحدگی پسند رہنماوں سے مذاکرات کا اعلان خوش ائیند مگر یہ کوئی نیا اعلان تو نہیں تاہم اس قسم کے اعلانات اور معافی ماضی کے حکومتوں نے بھی طلب کی جو کارگر ثابت نہ ہوسکی اس کی وجہ ہم سمجھتے ہیں کہ مرکزی حکومت کی بلوچ مسئلے کو سرے سے سمجھنے سے قاصر، عدم دلچسپی اور بے اختیار ہونا ہیں۔

نیشنل پارٹی نے 2015میں اپنے دور حکومت میں اپنے انتخابی منشور کے مطابق پاکستان کی اعلی سیاسی و عسکری قیادت کے مینڈیٹ سے بلوچ رہنماں سے مذاکرات کا مرحلہ شروع تو کیا مگر اسے ریاستی طاقتور قوتوں کی مداخلت نے موخر کرکے سبوتاژ کیا جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدگیوں کا شکار ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دورانے سے اجتناب کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نیک نیتی اور بامعنی مذاکرات کیلئے بلوچستان کے حقیقی تجربہ کار سیاسی قیادت اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر ایک پرامن روڈ میپ کی تشکیل کیلئے سب سے پہلے مذاکرات کیلئے سازگار ماحول تیار کریں۔