|

وقتِ اشاعت :   July 16 – 2021

عسکریت پسند بلوچ بزرگ رہنما ء بابو نوروز خان اور آمر حکومت کے درمیان پہلا اور آخری مذاکرات ہوئے۔ حکومت کی جانب سے معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ میں اس معاہدے کو آخری معاہدہ اس لئے کہتا ہوں کہ اس معاہدے کی روگردانی سے بلوچ اور ریاست کے درمیان آج تک اعتماد کی ایک خلیج پیدا ہوگئی ہے جس سے بلوچوں کا بھروسہ ختم ہوگیا۔ اب بلوچوں کو رسی بھی سانپ نظر آتا ہے۔


آمریت کے خلاف نوروز خان نے بغاوت کی اور مسلح جدوجہد کا اعلان کیا۔ حکومتی وفد نے نوروز خان سے ان کے مطالبات ماننے کے لئے قرآن پاک کا سہارا لیا جس پر بابو نوروز خان نے قرآن پاک کو عزت دی اور ہتھیار پھینک دیئے۔ ہتھیار پھینکنے کے فوراً بعد حکومت نے انہیں گرفتار کرلیا۔ ریاستی اداروں نے قرآن پاک کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ دھوکہ کیا ،یہ دھوکہ بلوچ تحریک کے لئے ایک سبق بن گیا۔ انہیں حیدرآباد اور سکھر کی جیلوں میں تختہ دار پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا۔ ان شہداء میں بٹے خان زرکزئی، سبزل خان زرکزئی، غلام رسول نیچاری، جمال خان زہری، مستی خان موسیانی، ولی محمد زرکزئی اور باول خان موسیانی شامل تھے جبکہ نواب بابو نوروز خان پیراں سالی میں جیل کے اندر ہی جاں بحق ہوگئے ۔اس واقعہ کے بعد بلوچوں کا ریاست پر اعتماد ختم ہوگیا۔

اب ایک مرتبہ پھر عمران خان حکومت نے عسکریت پسند بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے حوالے سے جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی کو وزیر اعظم عمران خان کا معاون خصوصی مقرر کردیا ہے۔ شاہ زین بگٹی کو ناراض بلوچوں سے بات چیت کا ٹاسک دیا گیا ہے ۔ماضی کے معاہدوں کی خلاف ورزی کے پیش نظر لندن میں مقیم خان آف قلات ، میر سلیمان داؤد احمد زئی نے کہا کہ وہ جب بھی پاکستان سے بات کرینگے تو بلوچ عوام کو اعتماد میں لے کر کسی دوسری یورپی یا مغربی ملک کی بحیثیت ضمانتی میں بات چیت شروع کرینگے مگر اس بات چیت کو بھی شروع کرنے سے پہلے حکومت پاکستان کو ہماری وہ شرائط پوری کرنی ہونگیں جو ہم کئی سالوں سے مختلف پاکستانی حکومتوں کے سامنے رکھ رہے ہیں اگر وہ ان مطالبات پر عمل درآمد نہیں کرتے توان کے مکمل ہونے تک نہ وہ کسی سے بات چیت پرنہ اب اورنہ مستقبل میں آمادہ ہونگے۔

کہا یہ جارہا ہے کہ شاہ زین بگٹی کی سیاسی اہلیت نہیں ہے کہ وہ عسکریت پسند بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کرسکیں۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق شاہ زین بگٹی کو بلوچ رپبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی کے اشارے پر مقرر کردیا گیا۔ یہ فیصلہ گزشتہ ماہ سوئزرلینڈ میں براہمداغ بگٹی سے ایک خفیہ ملاقات میں کیا گیا۔ براہمداغ سے ملاقات پاکستان کی دو شخصیات نے کی۔ ایک کا تعلق عسکری اور دوسرے کا تعلق بلوچستان کے بیورکریسی سے ہے تاہم اس ملاقات کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئی ہیں جبکہ دونوں جانب سے ان ملاقاتوں کی تصدیق بھی نہیں کی جارہی ہے۔ براہمداغ سے ملاقات کے بعد ان شخصیات نے لندن میں مقیم خان آف قلات میر سلیمان داؤد سے ملاقات کا پیغام بھیجا تاہم خان صاحب نے ان سے ملاقات نہیں کی۔

بلوچستان کا مسئلہ صرف براہمداغ بگٹی کی رضامندی سے حل نہیں ہوگا۔ بلوچستان میں مختلف اسٹیک ہولڈرز ہیں جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیا جائے گا۔بلوچستان کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جس کے سربراہ بشیر زیب بلوچ ہیں جو بی ایس او کے سابق چیئرمین تھے۔ بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) جس کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ہیںجو بی ایس او کے سابق چیئرمین تھے۔بلوچ ریپبلیکن آرمی ( گلزار امام گروپ) اس کے سربراہ گلزار امام بلوچ ہیں۔ یہ تنظیم پنجگور، مند، تمپ، زامران، تربت اور خاران میں سرگرم ہے۔ بلوچ ریپبلیکن آرمی( براہمداغ بگٹی گروپ) اس کے سربراہ براہمدغ بگٹی ہیں۔ یہ تنظیم ڈیرہ بگٹی، نصیرآباد، سوئی، تمپ اور زامران میں سرگرم ہے۔ یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) اس کے سربراہ مہران مری ہیں۔لشکر بلوچستان اس کے سربراہ جاوید مینگل ہیں۔ بلوچ ریپبلیکن گارڈز ( بی آر جی) اس کے سربراہ بختیار ڈومکی ہیں۔ یہ تنظیم ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد، سبی، ڈھاڈر اور لہڑی میں سرگرم ہے۔بلوچ لبریشن آرمی (آزاد گروپ ) اس کے سربراہ حربیار مری ہیں، جو اس وقت لندن میں ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو براہمداغ بگٹی ایک کمزور پوزیشن پر ہے۔ عسکری لحاظ سے اس سے زیادہ طاقتور تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ ماضی میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی حکومت نے بھی براہمداغ سے مذاکرات کئے۔ اس وقت کے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے دیگر حکومتی وفد کے ہمراہ ان سے جینوا میں ملاقات کی تاہم مذاکرات ناکام ہوگئے۔ان مذاکرات کے عوض میں براہمداغ بگٹی کو سیاسی اور عسکری طورپر شدید نقصان پہنچا۔ ان کے عسکری ونگ کے کمانڈروں نے بغاوت کی۔ اور ان کی تنظیم دو حصوں میں بٹ گئی۔ اور بے شمار کمانڈروں نے دوسری عسکری تنظیموں میں شمولیت اختیار کی۔ بعض حلقوں کے مطابق براہمداغ سیاسی طور پر نابالغ لیڈر ہے۔ غیرسیاسی فیصلوں سے ان کی سیاسی کیریئر کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا اعلان چین کے کہنے پر کیا گیا۔ چین نے سی پیک کے 9 ارب ڈالرز کی جاری ہونے والی قسط کو مذاکرات سے منسلک کیا کیونکہ چین بلوچستان میں جاری انسرجنسی سے کافی پریشان ہے۔ چینی حکام نے پہلی بار بلوچستان کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا جبکہ ماضی میں چین بلوچستان کے مسئلے کو بندوق سے کچلنے کی پالیسی کی حمایت کرتا رہا ہے۔چین کے اصرار پر وزیراعظم عمران خان نے گوادر میں سی پیک کے منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران بلوچ مزاحمت کاروں سے بات چیت کا اعلان کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر عسکری تنظیمیں کس حد تک مذاکرات کے لئے تیار ہونگی؟

کیا اس کے لئے حکومت کے پاس کوئی آئینی و قانونی پیکج ہے؟ کیا حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں؟ یعنی مذاکرات کے حوالے سے حکومت اور عسکری قیادت میں کتنی ہم آہنگی ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کی پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والی جماعتوں کا کہنا ہے کہ حکومت مذاکرات حوالے سے سنجیدگی کا مظاہر کرے اوربات چیت کی ابتداء میں بلوچستان اور وفاق کے درمیان اعتماد کی فضاء قائم کر کے پاکستان کے بانی محمد علی جناح اور خان آف قلات کے درمیان 1948ء میں ہونے والے معاہدہ پر عملدرآمد کرائے۔ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرکے ان کا شفاف ٹرائل کیا جائے۔ بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کا خاتمہ کیا جائے۔ گوادر پورٹ سمیت دیگر ادارے وفاقی حکومت سے بلوچستان حکومت کے حوالے کئے جائیں۔ 2001 سے اب تک بلوچستان کی ساحلی پٹی پر الاٹ کی جانے والی اراضیات کی لیزوں کو کینسل کیا جائے۔ ورنہ وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔

One Response to “بلوچوں کا پہلا اور آخری مذاکرات”

  1. Amin Baloch

    No Baloch leader is authorized to talk with Pakistani Government which has no power from Pakistan army. If Army wants to talk Balochs: 1) Take out all army out of Balochistan. 2) Release all kidnapped/jailed Balochs. 3) Handover all Baloch resources to a Selected Baloch government such Gwadur Port, Sui Gase, Gold mines etc. At present no one represents Balochs in Pakistani established government in Balochistan. 4) All innocents Balochs were tortured / jailed given indemnity to create an environment for dialogues with real Baloch representatives which on mountains not elsewhere.
    Without these points no rubbished talks are acceptable to Baloch nation

Comments are closed.