|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2021

چمن:  افغانستان کے سرحد ی علاقے سپین بولدک میں ایک با ر پھر افغان فورسز اور تحریک طالبان افغانستان کے جنگجوئوں کے درمیان چھڑپوں کاسلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ دونوں جانب سے بھاری جانی نقصانات کی اطلاعات مل رہی ہیں ،سپین بولدک کا کنٹرول حاصل کرنے کیلئے افغان فورسزکی بڑے پیمانے پر کا رروائی جبکہ طالبان کی جانب سے حملہ پسپاء کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

سرحدی چوکیوں پر بدستور طا لبا ن کا کنٹرول ہیںطلبا ن حکام کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحدکو پاکستانی حکام سے مذاکرات کے بعد تجارت اور پیدل آمدورفت کیلئے واپس کھول دیاجائے گا ۔باب دوستی کی بندش سے افغان مسافروں کی بڑی تعداد پاکستان کے سرحدی مسافر اڈہ میں پھنس گئے ہیں شدید گرمی گزشتہ روز اے این پی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی کی جانب سے پانی اور کھانے کے انتظامات کئے گئے تھے، اے این پی کے کارکنوں کا صحافیوں سے بات چیت کر تے ہو ئے کہا کہ افغان مسافر ہمارے بھائی ہیں ۔ ٓمدہ اطلاعات کے مطابق جمعہ کے روز صبح سویرے قندہار سے افغان فورسز کی جانب سے سپین بولدک پر اچانک حملہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

جس کو طالبان نے پسپا کردیا جھڑپ میں ہندوستانی صحافی دانش صدیقی بھی ہلاک ہوئے ہیں جو افغان فورسز کے ہمرا ہ کو ریج کر رہے تھے مر نے والے صحا فی سے متعلق بتا یا جا رہا ہے کہ وہ بین الاقوامیخبر رساں ادارے رائٹر کے فوٹو جرنلسٹ ہے جبکہ طالبان کی جانب سے دعویٰ کیاگیاکہ پندرہ افغان فو جی ان کے ساتھ جھڑپ میں جا ن سے گئے ہیں جبکہ ایک طالبان جنگجو ہلاک اور کئی کی زخمی ہونے کی اطلاع ہے جھڑپ کے بعد پاک افغان سرحدکو دونوں جانب سرحدی سیکورٹی فورسز کی جانب سے باہمی مشاورت کے بعد مکمل طورپر ہر قسم کی آمدورفت کیلئے بند رکھاگیا طالبان کی جانب سے یہ کہاگیا کہ قندہار شاہراہ کو مکمل طورپر کلیئر کرنے کے بعد ہی مسافروں اور تجارتی گاڑیوں کو آنے جانے کی اجازت دی جائے گی ۔

دریں اثناء گزشتہ روز سرحدی مسافر ویگن اسٹینڈ میں پھنسے ہوئے افغانی مسافروں کیلئے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی کے ہدایت پر کارکنوں کی جانب سے ٹھنڈے پانی کا بندوبست کیاگیاتھا۔ دریں اثناء افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کابل کواسلحہ پہنچانے کو بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے خبردار کیاہے کہ بھارت ایسے کاموں سے باز رہے کیونکہ یہ افغان عوام کے ساتھ دشمنی ہے اور بہتر ہے کہ ا فغان مسئلے پر بھارت غیر جانبدار رہے، بھارتی کسی وفد سے طالبان نے کوئی ملاقات نہیں کی ہے ،ہم ایک پر امن افغانستان، خوشحال افغانستان کے خواہاں ہیں، سارے ہمارے اپنے افغان ہیں اور ہم سب کو ساتھ لے کر آگے جانا چاہتے ہیں،ہماری مسلسل کوشش جاری ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے افغان مسئلے کا پر امن حل نکلے اور اس کے لئے سب کو مل کر سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں امن کانفرنس کا سنا ہے لیکن شرکت کے حوالے سے دعوت کا علم نہیں ہے ۔جمعہ کو ترجمان افغان طالبان سہیل شاہین نے نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ہماری مسلسل کوشش جاری ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے افغان مسئلے کا پر امن حل نکلے اور اس کے لئے سب کو مل کر یکساں ہو کر سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان عوام سے ہر بار کہا ہے کہ آج بھی کہتے ہیں کہ افغانستان ان کا اپنا ملک ہے اور کسی ڈر اور خوف کے بغیر رہیں اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ ہم افغانوں نے خود سے ہی اپنے ملک کی تعمیر کرنی ہے امریکہ یا کوئی دوسرا ملک کچھ نہیں کر سکتا ہے ۔

ترجمان طالبان نے کہا کہ افغانستان میں جو علاقے قبضے میں لیے ہیں وہ لڑائی سے نہیں کیے ہیں ۔ مقامی افراد اور قبائلی عمائدین کی دعوت پر ہم وہاں گئے ہیں اور لوگوں نے ہمیں خود خوش آمدید کیا ہے ۔ سارے ہمارے اپنے افغان ہیں اور ہم سب کو ساتھ لے کر آگے جانا چاہتے ہیں ہم ایک پر امن افغانستان، خوشحال افغانستان کے خواہاں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ افغان فوجی خودرضاکارانہ طور پر طالبان کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں اور افغان اہلکاروں نے رضاکارانہ طور پر یہ علاقے ہمارے حوالے کیے ہیں ۔ سہیل شاہین نے کہا کہ افغانستان میں نظام کیا ہوگا اس پر ہم بات چیت کر رہے ہیں اور دوحہ میں مذاکراتی کمیٹی بیٹھی ہے ۔ فریقین کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تمام تر توجہ افغانستان کی تعمیر پر ہے اور چاہتے ہیں کہ افغانستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ہو اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہیں گے ۔ جب کہ افغان انقلاب صرف افغانستان کے لئے ہے ہمارا کوئی بیرونی ایجنڈا نہیں ہے اور کسی کو طالبان سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سہیل شاہین نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے ملکوں سے بہتر تعلقات ہوں اور دنیا کے ملکوں کے ساتھ تجارتی ، سفارتی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مقامی قبائل کی مدد سے سپرپاور کو شکست دی ہے یہ کہنا غلط ہے کہ مقامی قبائل ہمارے ساتھ نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ داعش کو افغانستان سے ختم کر دیا ہے اب افغانستان کے کسی صوبے میں داعش موجود زنہیں ہے ۔ نئے افغانستان میں داعش کی کوئی گنجائش نہیں ہے جب کہ داعش سے متعلق اگر کسی ملک کا کوئی ایجنڈا ہے تو اس کا ناکام بنا دیں گے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت 260 اضلاع میں افغان طالبان کے قبضے میں ہیں اور ہماری پالیسی واضح ہے کہ طالبان ایک ہیں ۔ تحریک طالبان پاکستان سمیت کسی دھڑے کو مرضی چلانے کی اجازت نہیں ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ کسی کو افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ کسی بھی دھڑے کو اپنے مفاد کے لئے افغان سرزمین استعمال نہیں کرنے دینگے ۔ ترجمان طالبان نے سوال کے جواب میں کہا کہ بھارتی کسی وفد سے طالبان نے کوئی ملاقات نہیں کی ہے جب کہ بھارت نے کابل اسلحہ پہنچا کر غلطی کی ہے ۔ بھارت ایسے کاموں سے باز رہے کیونکہ یہ افغان عوام کے ساتھ دشمنی ہے اور بہتر ہے کہ ا فغان مسئلے پر بھارت غیر جانبدار رہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سے تعلقات کیسے ہوں گے یہ افغانستان کی مستقبل کی حکومت فیصلہ کرے گی جب کہ ہماری دنیا میں کسی سے لڑائی نہیں ہے نہ ہو گی ۔ ہماری لڑائی صرف ملک میں قبضہ کرنے والوں سے ہے جب کہ دنیا کے ہر ملک کو افغانستان میں سفارتخانہ کھولنے کی اجازت ہے ۔

سہیل شاہین نے افغان نائب صدر کے بیان پر کہا کہ پاکستان کی جانب سے تردید کے بعد واضح ہو گیا کہ یہ سب پروپیگنڈا تھا اور لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش تھی جب کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے غلط خبروں کی ترویج کرنے میں مصروف ہیں لیکن ان کے یہ تمام ارادے ناکام ہونگے ۔ ترجمان افغان طالبان نے خواتین کے حقوق اور تعلیم کے متعلق سوال پر کہا کہ طالبان نے کبھی بھی خواتین کے حقوق پر پابندی لگانے کی بات نہیں کی ہے ہم خواتین کو وہ تمام حقوق دینے کے حق میں ہیں جو اسلام نے دیئے ہیں ۔ طالبان خواتین کی تعلیم اور روزگار کرنے کی مخالف نہیں ہے۔

ہم نے صرف حجاب کے استعمال کا کہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر خواتین کے متعلق کسی کو قوانین سخت نظر آتے ہیں تو وہ طالبان کے بنائے ہوئے نہیں ہیں وہ اسلامی قوانین ہیں جب کہ ریاست میں اسلامی قوانین میں نرمی یا زیادتی کے عنصر کو دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے ۔ یہ کام اسلامی سکالرز کا ہے ۔ اس بار اگر طالبان کی حکومت آئی ہے تو لوگ دیکھیں گے کہ پہلے سے بہت بہتر ہوگا ۔ ترجمان نے افغانستان میں آزادانہ صحافت کے حوالے سے کہا کہ ہم کبھی بھی آزادی صحافت کے مخالف نہیں رہے ہیں ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے نہیں ہو گی پھر یہ آمریت ہو گی ۔ اسلام میں آزادی اظہار رائے بنیادی حق ہے ۔ سہیل شاہین نے کہا کہ پاکستان میں امن کانفرنس کا سنا ہے لیکن شرکت کے حوالے سے دعوت کا علم نہیں ہے ۔