|

وقتِ اشاعت :   July 18 – 2021

افغانستان سے امریکی اورنیٹوافواج کی انخلاء کے بعد جن شکوک وشہبات کا اظہارکیاجارہا تھا وہی نتائج اب سامنے آرہے ہیں طالبان اور افغان فورسز مدِ مقابل ہوچکے ہیں ایک طرف افغان طالبان کی جانب سے یہ دعوے سامنے آرہے ہیں کہ انہوں نے بعض اضلاع پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے اس کی تردید سامنے آرہی ہے کہ جو علاقے طالبان نے قبضے میں لئے تھے ۔

ان میں سے بعض علاقوں کو واپس افغان فورسز نے طالبان سے چھڑا لیا ہے اور اب بھی جنگ جاری ہے۔ اگر کہاجائے کہ اس وقت افغانستان خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں اور اس کی ذمہ دار بعض حد تک امریکہ اور عالمی طاقتیں ہیں جنہوںنے 20سال افغانستان میں رہ کر وہاں افغان اسٹیک ہولڈرز کو یکجا نہیں کیا اور نہ ہی فریقین کو آپس میں بٹھاکر ایک درمیانہ راستہ نکالتے ہوئے افغان عوام کی خواہش کے مطابق حکومت بنانے کے حوالے سے کردار ادا کیا۔

اس طرح کی سنجیدہ کوششیں کی جاتیں تو آج ایک بارپھر افغانستان میں گھمسان کی جنگ نہ چھڑتی ۔مسلسل امریکہ نے اپنی من پسند حکومت بنائی اور نتیجہ آج واضح طور پر جنگ کی صورت میں سامنے ہے۔ ایک طرف افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کئے جارہے تھے تو دوسری جانب امریکن نواز افراد کونوازنے کی پالیسی پر امریکہ گامزن رہا۔ اس دہرے معیار نے افغان عوام کو ایک اور مصیبت میں مبتلا کردیا ہے آنے والے چند ماہ مزید اہم ہونگے۔ اگر مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیاجاتا جس طرح سے پاکستان نے ایک بار پھر کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بٹھاکر بات چیت سے مستقبل میں درپیش چیلنجز اور افغانستان میں دیرپا امن قائم کیا جاسکے۔

\مگر اشرف غنی حکومت نے اس سے انکار کردیا اور بعض اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ افغانستان کے چنداہم حلقے اس وقت خاموش بیٹھے ہیں جو طالبان مخالف ضرور ہیں مگر ان کی خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ ملکر افغانستان میں حکومت سازی کے حوالے سے آگے بڑھاجائے اور ان کی خواہش بھی یہی ہے کہ ایک میز پر بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے راستہ نکالاجائے ناکہ افغانستان میں جنگ کے ذریعے مزید معاملات کو خرابی کی طرف دھکیلا جائے۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے حالات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا انتہائی غیر منصفانہ ہے، پاکستان نے70 ہزار جانوں کی قربانی دی ہے۔تاشقند میں وزیراعظم عمران خان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں نہ ہوتا تو میں کابل کیوں جاتا۔افغان نائب صدر کی پاکستان پر الزام تراشی کے جواب میں عمران خان کاکہناتھاکہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر صرف پاکستان نے ہی لایا۔ امریکہ افغانستان میں فوجی حل کی کوشش کرتا رہا جو ممکن نہیں تھا۔ جب امریکہ نے انخلاء کی تاریخ دے دی تو پھر طالبان ہماری بات کیسے سنتے؟انہوں نے کہا کہ طالبان کو فتح نظر آرہی ہے اب وہ پاکستان کی کیوں سنیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان شورش سے مزید مہاجرین کا پاکستان آنے کا خدشہ ہے، افغانستان میں امن خطے میں امن کیلئے ضروری ہے۔ افغانستان میں امن سب ہمسایہ ممالک کے مفاد میں ہے۔ افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان پل ہے۔قبل ازیں پاکستان نے افغان نائب صدر کے الزامات مسترد کردیئے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ایسے بیانات پاکستان کی افغان امن کیلئے مخلصانہ کوششوں پرمنفی اثرڈالتے ہیں۔دفترخارجہ کے مطابق طالبان حملے کے بعد بھاگ کر پاکستان آنے والے چالیس افغان اہلکاروں کو افغانستان کے حوالے کردیا۔

واضح رہے کہ افغان نائب صدراللہ صالح نے گزشتہ روز الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے کابل انتظامیہ کو سپن بولدک میں طالبان کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے۔پاکستان کے دفترخارجہ نے ان الزامات کومسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاک فضائیہ نے اس حوالے سے افغان فضائیہ کے ساتھ کسی قسم کی پیغام رسانی نہیں کی۔افغان حکومت نے سپین بولدک میں طالبان کیخلاف فضائی کارروائی سے آگاہ کیا تھا۔ پاکستان نے مثبت جواب دیتے ہوئے افغان سرزمین پر کسی بھی کارروائی کو اس کا حق قرار دیا تھا۔

البتہ وقت اب بھی ہاتھ سے نہیں گزرا ہے مذاکرات کے متعلق اشرف غنی کو سوچنا چاہئے اور طالبان کے ساتھ انٹرا مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کرنی چاہئے جو افغانستان کے بہتر مستقبل اور مفاد میں ہوگاوگرنہ جنگ کے ذریعے کچھ بھی حاصل نہیں کیاجاسکتا ماسوائے خونریزی اور خانہ جنگی کے جس کا نقصان افغان عوام کو ہوگا۔