چاغی:دالبندین میں پچیس سال تک رہنے والے ملنگ کو اسکے رشتہ دار بل آخر مل ہی گئے چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین میں 20 سے پچیس سال قبل ایک ملنگ آیا تھا جسکا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا وہ ہمیشہ دالبندین بازار میں نزد پی ٹی سی ایل آفس دیوار کے ساتھ قیام کرتا تھا کھبی کھبار دماغ بگڑ جاتا تو شہر کے اندر سڑک کے درمیان کھڑا ہوکر سندھی زبان میں اپنے آپ سے باتیں کرتا علاقے کے بہت سے خدا والا لوگ ہفتہ دس دن میں اسے غسل دے کر نیا کپڑے پہناتے تھے گرمی ،سردی طوفان بارش میں اسے کسی چیز کا خوف تک نہیں ہوتا تھا
دالبندین شہر کا یہ واحد ملنگ تھا لوگوں کو اس سے کسی بھی قسم کا خوف نہیں ہوتا تھا اور نہ کھبی اس نے راہ چلتے کسی بچے ،بوڑھے ،جوان، خواتین کسی کو تنگ کرتا تھا بس وہ اپنی ہی ایک دنیا میں مگن رہتا اسے کسی بھی چیز کا ہوش نہیں رہتا تھا جسکی زہنی توازن بلکل ٹھیک نہیں تھا زیادہ وقت خاموشی کے ساتھ گزارتا تھا کھبی کھبار جوش پکڑتا تو سڑک سے باتیں کرلیتابروز منگل دالبندین شہر میں ملنگ کے بھائی اور بیٹا پہنچ کر ملنگ کو اپنے ساتھ لے گئے ملنگ کا نام کسی کو بھی معلوم نہیں تھا اور نہ یہ پتہ چلتا تھا یہ کس علاقے کا رہائشی ہے سندھی زبان بولنے سے یہ اندازہ ہوتا تھا جسکی مادری زبان سندھی ہے بروز منگل 20 جولائی کو اسکا بیٹا ضمیر حسین، اور اسکا بھائی چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین پہنچے انکا کہنا تھا
ملنگ شاہ میر زہنی توازن خراب ہونے کے بعد اچانک یہ ہم سے روٹ گیا ملک کے کھونے کھونے پر ہم نے اسے ڈھونڈا مگر ہمیں کئی نہیں ملا بیس سے پچیس سال ہوگیا ہے ہم سے جدا ہوگیا ہے اس کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں اسکا اصل نام شاہ میر ہے اور ہم لوگ لاڑکانہ سبزی منڈی کے رہائشی ہے ہمیں برکت علی جمالی جو ہمارے علاقے کا تھا اس نے ہمیں اسکی تصویر دکھایا تو ہم لوگوں نے پہچان لیا اور آج ہم دالبندین پہنچے تو واقعی یہ دیوانہ ملنگ وہی ہے بیٹے اور بھائی نے ملنگ کو دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا دالبندین شہر کے لوگوں کو جب پتہ چلا تو سینکڑوں لوگوں نے ملنگ کو الوداع کرنے پہنچ گئے اسے گاڈء میں بٹا کر الوداع کردیا اور ملنگ کو دالبندین سے لے گئے ملنگ کے رشتہ داروں نے سینکروں لوگوں کو الوداعی کے وقت دیکھ کر آبدیدہ ہوگئے جس سے محبت کا وجہ یہ تھی اس نے کھبی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا