پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچستان کے عوام کے لئے ایک دکھاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ عوام کو جو سبز باغ دکھائے گئے اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ۔ اگرچہ سرکاری حکام سی پیک کو بلوچستان کے لیے گیم چینجر قرار دے رہے ہیںمگر دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے سی پیک کو ایک قبضہ گریت کا منصوبہ قراردیا ہے۔
سی پیک میں بلوچستان کی زرعی صنعت کوبالکل نظرانداز کیا گیا۔ فشریز کی صنعت کو تباہ کرنے کے لیے چینی جہازوں کو سمندر میں ٹرالنگ کی اجازت دی گئی جس کی وجہ سے سمندری حیات ک نسل کشی ہو رہی ہے جبکہ مقامی ماہی گیروں کو معاشی و اقتصادی طورپر مستحکم کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ بلوچستان کے ضلع خضدار میں صرف ایک ڈرائی پورٹ کا منصوبہ دیا گیا جس کے لیے اراضی ابھی تک مختص نہیں کی گئی۔ نام نہاد ’’موٹروے ایم 8‘‘ دو رویہ موٹر وے کو 24 فٹ سڑک میں تبدیل کردیا گیا جس کی وجہ سے اس منصوبے کی اہمیت اور افادیت ختم ہوگئی۔ گوادر یونیورسٹی کی اراضی پر قبضہ کرلیا گیا۔
گوادر پورٹ سی پیک کا گیٹ وے ہے۔ جغرافیائی حوالے سے یہ خطہ ایک الگ اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ گوادر بندرگاہ کلیدی مقام آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے جو خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کی زمین بند افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں جو توانائی کی دولت سے مالا مال ہیں کے قریب ترین گرم پانی کی بندرگاہ ہے۔
سی پیک کے سیکنڈ فیز میں پنجاب میں صنعتی زونز اور ڈرائی پورٹس قائم کئے جانے کے منصوبوں کو حتمی شکل دے دی گئی۔ جہاں صنعتیں لگیں گیں۔ جس سے پنجاب میں روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ دوسری جانب حکمرانوں نے سی پیک کے ثمرات سے بلوچستان کے عوام کو محروم رکھا ہوا ہے۔ بلوچستان کے تمام اضلاع میں زراعت، فشریز، معدنیات اور فش ہاربرز سے متعلق اپنی اپنی نوعیت کے پوٹینشلز ہیں۔ بلوچستان محل وقوع اور اقتصادی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ ہے لیکن بدقسمتی سے سی پیک میں بلوچستان کو معاشی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے حوالے کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔
ہونا یہ چاہیئے تھاکہ بلوچستان میں سی پیک کے تحت تمام اضلاع میں اقتصادی زونز قائم کئے جاتے۔بلوچستان میں بڑے بڑے بارانی دریائیں ہیں۔ جو پانچ سو کلومیٹر سے لیکر دو ہزار کلومیٹر تک طویل ہیں جن میں دریا ہنگول، دریا بسول، دریا مولہ، دریا بولان، دریا پورالی، دریا کیچ، دریا رخشان، دریا ژوب سمیت دیگر دریا شامل ہیں۔ ان دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیمز بن سکتے ہیں۔ ان منصوبوں سے بلوچستان کی زراعت کو فروغ مل سکتا ہے۔ جہاں کپاس، گندم، چاول، سبزی، پھل سمیت دیگر پیداوار وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ انہیں پانی کی فراہمی سے مزید بہتر کرسکتے ہیں۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں لاکھوں ٹن کھجور کی پیداوار ہوتی ہے۔ اگر پانی کی قلت کو دور کیا جائے تو ان کی پیداوار بڑھ سکتی ہے۔ کھجور کی پیداوار کے لئے ایکسپورٹ پروسیسنگ یونٹس قائم کئے جائیں۔ جبکہ ان ڈیمز سے بجلی کی پیداوار ہوسکتی ہے۔ یہ بجلی نہ صرف ملک کی ضروریات پوری کرتی بلکہ بجلی کو دیگر ممالک کو فروخت کرسکتے ہیں۔ آج ہم ایران سے بجلی خرید رہے ہیں۔ ایران کی بجلی سے گوادر پورٹ سمیت دیگر منصوبوں کو چلا رہے ہیں۔ جبکہ ہماری غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ہم بجلی کے منصوبوں کو حتمی شکل نہیں دے سکے۔
ان دریاؤں میں ’’ان لینڈ فشریز‘‘ کے شعبے کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔ ’’ان لینڈ فشریز‘‘ سے میٹھے پانی کی مچھلی کی پیداوار کرسکتے ہیں۔ ان ڈیمز کی تعمیر سے یہاں سیاحت کو بھی فروغ دے سکتے ہیں۔ یہاں پکنک پوائنٹس بناسکتے ہیں جس سے ریسٹورنٹس اور ہوٹلنگ کا بزنس پروان چڑھے گا۔ مذکورہ دریاؤں سے نہ صرف زراعت، بجلی اور سیاحت کے شعبے کو فروغ ملے گا بلکہ وہاں ڈیری، پولٹری اور کیٹل فارمنگ کو باقاعدہ ایک کامیاب بزنس بنایا جاسکتا ہے جس سے غذائی قلت بھی دور ہوگی اور بزنس کا ایک نیا دروازہ کھل سکتا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے جاری کچھی کینال کو سی پیک کا حصہ نہیں بنایا گیا جبکہ زراعت سی پیک کا اہم جز سمجھاجاتا ہے۔ کچھی کینال ہرسال محدود فنڈز کی وجہ سے مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں بھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا دکھائی نہیں دیتا۔ کچھی کینال کی تکمیل سے نہ صرف ضلع کچھی بلکہ ضلع نصیرآباد، ڈیرہ بگٹی اورجھل مگسی میں بھی خوشحالی آئے گی۔لاکھوں ایکڑبنجراراضی آباد ہوگی اور بہتر فصلیں پیدا ہوں گی۔
موٹروے ایم 8 منصوبہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف حکومت کا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد گوادر پورٹ کو ملک کے دیگر شہروں سے لنک کرنا تھا۔ یہ منصوبہ گوادر سے شروع ہونا تھا، جسے گوادر، دشت، تربت، ہوشاب، آواران، خضدار، رتو ڈیرو تا پنجاب اور کے پی کو لنک کرنا تھا۔ تاہم وہ سیاست کی نظر ہوگیا۔ اور اس وقت کے حکمرانوں نے لاہور سے پنڈی تک موٹروے تعمیر کردیا۔ جبکہ آج اس منصوبے کو موٹروے کے بجائے سنگل ٹریک تک محدود کردیاگیا یعنی دو رویہ موٹر وے کو 24 فٹ سڑک میں تبدیل کردیا گیا جس کی وجہ سے اس منصوبے کی اہمیت اور افادیت ختم ہوگئی۔ 24 فٹ والی سڑک کا منصوبہ بھی سست روی کا شکار بھی ہے۔
ضلع خضدار سی پیک کی نہ صرف ایک اہم گزرگاہ ہے۔ بلکہ یہ سی پیک کا ایک جنکشن بھی ہے۔ جہاں ڈرائی پورٹ بنانے کامنصوبہ بھی ہے۔ اس منصوبے کے لئے ابھی تک جگہ مختص نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب گوادر پورٹ، گوادر ایئرپورٹ سمیت صنعتی زونز کو چلانے کے لئے مقامی نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہونی چاہیے تھی۔ مگر صد افسوس کے گوادر کو ایک یونیورسٹی تک نہیں دی گئی جبکہ گوادر سمیت بلوچستان میں میرین انجینئرنگ یونیورسٹی، مائننگ یونیورسٹی سمیت دیگر پروفیشنل ایجوکیشن انسٹیٹوٹ کا قیام ہونا چاہیئے تھا۔ بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بیرون ممالک اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے اسکالرشپ کا منصوبہ بنانا چاہیئے تھا تاکہ یہاں کے نوجوان سی پیک کے منصوبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیںلیکن گوادر کے ساتھ دو ہاتھ کیا گیا۔
پورٹ تو بنالیا لیکن تجویز کردہ یونیورسٹی کی اراضی پر قبضہ کرلیا گیا۔ یونیورسٹی کے قیام کے لئے 493 ایکڑ اراضی مختص کی گئی تھی جس کا باقاعدہ افتتاح سابق وزیراعظم میاں محمدنواز شریف اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کیا تھا تاہم نئی حکومت آنے کے بعد یونیورسٹی کی اراضی بھی لاپتہ ہوگئی۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو پورٹ اینڈ شپینگ صنعت میں تجارت سے متعلق ایجوکیشن دے۔ ایجوکیشن کے بعد ان کو سود سے پاک بینک قرضے دے تاکہ وہ پورٹ اینڈ شپینگ کی صنعت میں تجارت کے لئے قابل ہوسکیں۔ مثال کے طورپر وہ چائنا، تھائی لینڈ سمیت دیگر ممالک سے فشنگ نیٹ ( جال) کا کاروبار کرنے کے قابل ہوسکیں۔ کیونکہ بلوچستان لوکل مارکیٹ میں فشنگ نیٹ کی ڈیمانڈ ہے۔ علاوہ ازیں کشتی اور لانچوں کے انجن اور دیگر آلات بھی درآمد کرسکتے ہیںورنہ یہ پورٹ مقامی افراد کے لئے بے سود ہے۔ اور نوجوانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بلوچ نوجوانوں کے مستقبل کو روشن کرنے کے لئے ریاست اپنا کردار ادا کرسکتی ہے جس سے مقامی آبادی میں خوشحالی آئے گی اور ساتھ ساتھ لوگوں کا حکومتی اداروں پر اعتماد بحال ہوگا۔
سی پیک میں ماہی گیری کی صنعت کو نظرانداز کیا گیا۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی 700 کلو میٹر طویل ہے۔ ساحلی پٹی ضلع گوادر سے لیکر ضلع لسبیلہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ دونوں اضلاع کے 80فیصد لوگ ماہی گیری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماہی گیروں کی کشتیوں کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں جال اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں۔ سونمیانی، کنڈ ملیر اورماڑہ، تاک، کلمت سمیت دیگر ماہی گیر بستیوں میں چھوٹی چھوٹی فش ہاربرز (بندرگاہیں) بنائی جائیں۔ سی پیک کے منصوبے کے تحت پسنی فش ہاربر کی بحالی کا کام مکمل کیا جائے جو کئی عرصے سے مٹی تلے دب چکا ہے۔ علاوہ ازیں ماہی گیروں کے لئے کولڈ اسٹوریجز کا قیام ضروری ہے تاکہ سی فوڈ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوسکے اور وہ گوادر پورٹ کے ذریعے پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوسکے۔ جس سے ملک کو زرمبادلہ بھی حاصل ہوسکے گا اور ماہی گیر بھی خوشحال ہوں گے۔ ماہی گیروں کی معاشی تحفظ کے لئے ڈیپ سی ٹرالنگ کو بند کیا جائے۔علاوہ ازیں سندھ سے تعلق رکھنے والے ٹرالرز پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہیئے لیکن حکومت اس کے برعکس کام کررہی ہے۔
بلوچستان کی ساحلی پٹی پر سی پیک کے نام پر رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ہورہا ہے۔ جو مقامی افراد کے لئے نہیں ہے۔یہ کاروبار عام عوام کے لئے سود مند نہیں ہے۔ وہ صرف چند سرمایہ کاروں کے لئے ہیں۔ ساحلی پٹی پر آبادکاری کی جارہی ہے۔ جس سے آنے والے دنوں میں مقامی افراد اقلیت میں تبدیل ہوجائینگے۔مقامی افراد کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کا قومی تشخص بچ سکے۔ قانون سازی کرکے مقامی افراد سے ان کی اراضی خریدنے کا سلسلہ روکا جائے۔ ان کے حق ملکیت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کی اراضی کو کاروبار یا تجارت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یعنی مقامی افراد کو کاروبار میں شراکت دار بنایا جائے۔ گوادر میں آنے والے سرمایہ کاروں اور مقامی افراد کے درمیان جوائنٹ وینچر پالیسی کو متعارف کروایا جائے۔ جس طرح دنیا کے بعض ممالک میں ہوتا ہے۔ غیر مقامی افراد کو قومی شناختی کارڈز بنانے پر مکمل پابندی عائد کرنی چاہئے۔ اور ووٹنگ کا حق بھی نہیں دینا چاہئے۔ تاکہ مقامی افراد اقلیت میں تبدیل نہ ہوسکیں۔
بلوچستان کی موجودہ ابتر صورتحال سی پیک اور گوادر ڈیپ سی پورٹ سے منسلک ہے۔اس سے قبل بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال نہیں تھی۔ جب ان منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ تو اس وقت بلوچ رہنماؤں نے اس منصوبوں پر خدشات کا اظہار کیا۔ حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ ان کے خدشات کو دور کرتی مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ بندوق کی نوک پر منصوبوں پر عملدرآمد کیا گیا جس سے بلوچستان کی پرامن فضا میں شعلے بھڑکنے لگے۔
بلوچستان کی موجودہ صورتحال اس نہج پر آگئی ہے کہ مندرجہ بالا تجاویز پر عملدرآمد کرنے کے بعد بھی حالات کا ٹھیک ہونا مشکل لگ رہا ہے۔ بلوچستان کی مخدوش صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے حکومت کو ترقیاقی پیکج کے ساتھ ایک آئینی و قانونی پیکج دینا پڑیگاجس کیلیے بلوچستان کے تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لینا ہوگا۔ تاکہ بلوچستان میں ایک اعتماد کی فضا قائم ہوسکے۔ اعتماد کا معیار اتنا بلند ہو کہ بلوچستان کی آزادی پسند قوتوں کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔
Nazeer Ahmed baloch
شروع دن سے بلوچوں کے جو خدشات تھے سی پیک کے حوالے سے وہ حرف بحرف صحیح ثابت ھورے ھیں سی پیک دراصل پنجاب، پنجابی سول وعسکری بیوروکریسی کی خوشحالی اور پنجابی عوام کی بلوچستان میں سی پیک کی آڑ میں أبادکاری تاکہ ڈیموگرافی تبدیل ھو