|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2021

خاص کر پینے کا صاف پانی نعرے کا حصہ کیوں ہونا چاہئے اسکی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ باقی دنیاوی آسائشیں ویلفئیر اسٹیٹ میں ملتی ہونگی پاکستان جیسے ملک میں انکا حصول ایک نعرہ اور خواب ہوسکتا ہے۔ فی الحال حقیقت میں ایسا ممکن نہیں ہے لیکن کم از کم زندہ رہنے کیلئے صاف ہوا اور پینے کا صاف پانی بنیادی ضروریات ہیں۔

چند روز قبل بلوچستان کے محکمہ تعلقات عامہ نے ایک خبر جاری کی کہ تین حکومتی اراکین اور وزراء کی وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال سے ملاقات سندھ کی جانب سے بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن کو پانی کے حصے میں کٹوتی اور پانی کے بحران کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا جسکے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے فی الفور رابطہ کرکے دھائی دی جسکے نتیجے میں وزیر اعلیٰ سندھ نے معاملہ کو فوری حل کرنے کی یقین دھانی کروائی۔ خبر ختم ہوئی تو میں نے سوچا کہ تین حکومتی اراکین نے کم از کم نصیر آباد ڈویژن کے پانی کے مسئلے پر آواز تو اٹھائی تو ایک آواز سنائی دی کہ تین وزراء اور اراکین عوام کیلئے پانی مانگنے نہیں گئے تھے۔

انہیں اپنے زمینیں سیراب کرنے کیلئے جو پانی چاہئے تھا اس میں کٹوتی نے انہیں پریشان کیا ہے کیوں کہ نصیر آباد ڈویژن میں پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کے مریضوں کے اعداد و شمار ہی دیکھ لئے جائیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ابھی میری یہ کشمکش ختم نہیں ہوئی تھی کہ نصیر آباد کو پانی کیسے ملے گا اور اس کے ثمرات صرف منتخب اراکین اسمبلی وزراء یا زمیندار ہونگے یا عام چرواہے کو بھی پینے کا صاف پانی ملے گا یا نہیں کہ گوادر سے میرین ڈرائیو کی تصویرسوشل میڈیا پر نظر آئی جہاں سے خبر ملی کہ پورٹ اور فش ہاربر کی جانب جانے والی شاہراہ خواتین اور بچوں نے بلاک کردی ہے اور وہ پانی کیلئے احتجاج کررہے ہیں تو خیال آیا کہ یہاں تو پانی کی کٹوتی کا الزام سندھ پر نہیں لگ سکتا کیونکہ سندھ کی سرحد ضلع گوادر سے نہیں ملتی اور کراچی سے کوئی کینال گوادر کی طرف نہیں آتا۔

یہاں اس وقت صرف گوادر شہر کی ضرورت پچھتر ملین گیلن پانی روزانہ ہے اور شہر میں پچیس ہزار گیلن مختلف ذرائع سے مل رہا ہے پچاس ہزار گیلن کی شارٹیج کو پورا کرنا حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ایک طرف ہم کہتے ہیں گوادر کی ترقی سے صوبے اور ملک کی ترقی وابستہ ہے دوسری طرف گوادر میں پینے کا پانی نہیں ہے تو یاد آیا گوادر میں ایک کارواٹ کا ڈی سیلینیشن پلانٹ جس کے افتتاح کی تین تقریبات تو میں بذات خود اٹینڈ کر چکا ہوں جہاں سے گوادر کو پانی ملا یا نہیں لیکن اسکے متعدد افتتاح ہر حکومت نے کئے،یہ شاہکار منصوبہ آج بھی بی ڈی اے کو بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بجائے بلوچستان ڈزاسٹر اتھارٹی ثابت کرنے کو کافی ہے۔

ابھی گوادر کی اس احتجاج کی تصویر کو دیکھ رہا تھا تو یاد آیا کہ کوئٹہ میں بھی پانی کا بحران شدید ہے اور مجھے اس وقت واٹر ٹینکر والے کو فون کرکے ٹینکر منگوانا ہے پچھلے پانچ سے سات سالوں سے پینے کا پانی ہو یا گھریلو استعمال کا پانی خرید ہی رہا ہوں لیکن حیرت اس وقت ہوئی جب ٹینکر والے نے بتایا کہ ٹینکر بارہ سو نہیں بلکہ اس بار ڈھائی ہزار کا ملے گا اور پھر دگنی قیمت پر ٹینکر والے کے سامنے ہتھیار ڈالے ہی تھے کہ وٹس ایپ پر ایک صحافی نے خبر شئیر کی کہ واسا کے قائم مقام ایم ڈی یا پھر ڈپٹی ایم ڈی نے ایک درجن سے زائد غیر فعال ٹیوب ویل فعال کردیئے ہیں جس سے پینے کے پانی کا بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔حکومت بلوچستان کی میڈیا مینجمنٹ اچھی ہو یا نہ ہولیکن واسا کی میڈیا مینجمنٹ انتہائی شاندار لگی تو سوچا معلوم کریں کہ نئے ایم ڈی کون ہیں تو نام سنتے ہی دماغ کی گھنٹیاں بجنے لگیں،نام سننے کے بعد حامد لطیف رانا کے فیس بک پروفائل کو دیکھا تو مجھے انکی کسی معاہدے کی یاد داشت کی دستخط کرتے ہوئے تصویر دکھائی دی ۔

جہاں انکے عقب میں موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے والد مرحوم جام یوسف نظر آئے اور پھر یاد آیا کہ کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا ایک منصوبہ اس دور میں شروع ہوا تھا جس کا نام کوئٹہ گریٹر واٹر سپلائی اسکیم تھا، آٹھ ارب روپے کا منصوبہ انیس ارب تک پہنچ گیا کالے پائپ کوئٹہ پہنچے بھی تھے لیکن ان انیس ارب روپوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا لیکن کوئٹہ کا پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوا اور اسی منصوبے کے حوالے سے حامد لطیف رانا جو کہ اب دوبارہ ڈپٹی ایم ڈی واسا ہیں وہ کافی عرصے نیب کی انکوائری اور حراست بھگت چکے تھے تو سوچا وہ کیا ماجرا تھا کیا وہ کیس میں بری ہوئے یا ضمانت ملی، اسکا کھوج لگانے کیلئے نیب سے رابطہ کیا تو پتہ چلا نیب نے حامد لطیف رانا پر چالیس کروڑ کے غیر قانونی اثاثوں کا جو ریفرنس بنایا تھا موصوف اس میں بری ہوگئے۔ اب سوال بنتا ہے کہ کیا نیب کا ریفرنس غلط تھا یا اس میں کوئی ہیر پھیر ہوئی، اگر نیب کا ریفرنس غلط اور بے بنیاد تھا حامد لطیف رانا کو مشورہ دونگا کہ وہ ہائی کورٹ میں نیب پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کریں کیونکہ آمدہ اطلاعات کے مطابق نیب ابھی تک انکے بری ہونے کے معاملے پر ہائی کورٹ میں اپیل کا تاحال فیصلہ نہیں کرسکی ہے۔

عدالت کے فیصلے پر کچھ کہتے ہوئے توہین عدالت کا خوف آڑے آجاتا ہے لیکن اگر حامد لطیف رانا بے گناہ تھے تو نیب نے بلوچستان کے اس فرزند کو اتنی طویل اذیت سے کیوں گزارا جب نیب کے پاس کیس کمزور تھا تو ایک سرکاری افسر کیخلاف غلط ریفرنس بنانے پر کم از کم حکومت بلوچستان ہی کوئی احتجاج کرلے اگر اسکا ملازم ایسا کرنے کو تیار نہیں۔ چلیں یہ نہ کریں کیونکہ کچھ عرصہ قبل نیب نے بلوچستان کے خزانہ اسکینڈل کی فائل جسے این آر او دیکر بند کی ہے اسکے بعد کم از کم نیب پر بلوچستان کی حد تک تو کسی سیاسی رہنما ء اور قبائلی شخصیت کا ایک پرانی پریس کانفرنس کا جملہ فٹ بیٹھتا ہے کہ بلوچستان میں نیب ستو پی کر سو رہا ہے۔

ویسے بلوچستان میں اس وقت عوام دو چیزوں کی پیاسی ہے ایک پینے کے صاف پانی کی اور دوسرے کڑے احتساب کی اگر بلوچستان کی عوام کی یہ پیاس حکومت بجھائے یا تحقیقاتی ادارے اس کیلئے چند میگا اسکینڈلز کو ٹیسٹ کیس بنا لیں۔ بلوچستان میں گڈ گورننس نظر بھی آئیگی اور اسکے اثرات بھی ملیں گے۔ زیادہ نہیں بلوچستان خزانہ اسکینڈل بالخصوص لوکل گورنمنٹ گرانٹ کا بیس سالہ آڈٹ، ریکوڈک منصوبے کا معاہدہ اور اسکی غلطیاں،گوادر واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ کی ناکامی، کوئٹہ گریٹر واٹر سپلائی اسکیم کی ناکامی پر ایک جوڈیشل کمیشن بنادیں اور اس میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دیں تو بلوچستان کے عوام کی پینے کے پانی اور احتساب کی پیاس بجھ جائیگی کیونکہ شاعر بلوچستان عطاء شاد نے کہا تھا
میری سرزمین پر
ایک کٹورے پانی کی قیمت
سو سال وفاہے
ا ٓؤ پیاس بجھائیں
اور
زندگیوں کا سودا کرلیں