بند کمروں میں کیے گئے فیصلے اور اس کے بعد بلوچوں کی گونجتی ہوئی فریادیں اب ایک انوکھی بات نہیں رہے گی بلکہ ہر دور اقتدار والوں کے لیے یہ کام سوال نمبر ایک رہا ہے جو کہ عموما ً لازمی ہوتا ہے۔ دور اقتدار جس کسی کا بھی ہو لیکن بلوچستان میں ایک نعرہ ضرور لگتا ہے کہ ” ہم کو انصاف دو ” کبھی طلباء ، کبھی عوا م اور کبھی ملازمین۔
بلوچستان کی سیاسی تاریخ بہت گہری اور پیچیدہ ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہم ہر دور میں امن کی تلاش میں رہے ہیں۔امن کے ساتھ ساتھ بھوک اور پیاس مٹانے کے لئے ہم سرحد پار جانے تک مجبور ہوئے ہیں۔ جب گونجتی ہوئی فریادیں اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو سنائی دیتی ہیں تو ماضی کی طرح مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں جو ہر دور کی طرح بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرتے رہیں گے۔ہر دور کی طرح مذاکراتی کمیٹیوں میں قبائلی سردار اور نواب رہے ہیں۔70 سال سے بلوچوں کی گونجتی ہوئی فریادیں اور ہر دور میں نوابوں اور سرداروں کی حکومت۔دور اقتدار والے صرف نوابوں اور سرداروں سے مذاکرات کی بات کیوں کرتے ہیں، آخر عام بلوچ اہمیت کا عامل کیوں نہیں ۔
2008 کے انتخابات میں چیف آف ساراوان نواب اسلم رئیسانی وزیر اعلیٰ بلوچستان ہوئے اور 2013 میں چیف آف جھالاوان
ثناء اللہ زہری وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور اقتدار میں بھی حکومتی کابینہ میں نواب اور سردار رہے۔اور دوسری طرف تاریخ گواہ ہے کہ 2006 میں نواب اکبر خان بگٹی کوجب شہید کردیاگیا تو قلات کے مقام پر ایک جرگہ بلایا گیا تھا جس میں سرداروں نے سوگند اٹھایا تھا کہ آئندہ اس ریاست کا ساتھ نہیں دیں گے۔ سرداروں اور نوابوں کی بدلتی ہوئی نظریات اور عام بلوچ کی گونجتی ہوئی فریادیں دور اقتدار والوں کے لیے ایک سبق چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
کیا مذاکراتی کمیٹیوں میں عام بلوچ کی گونجتی ہوئی فریادوں پر بات ہوگی؟ عام بلوچ کی گونجتی ہوئی فریادوں میں صاف سنائی دیتا ہے کہ اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں، امن کی تلاش میں ہیں، بھوک مٹانے کی فکر میں ہیں، تعلیم یا پانی کی تلاش میں ہیں۔ اقتدارمیں رہنے والوں کی کارکردگی دیکھ کر مجھے یہ شعر یاد آتا ہے۔جیسا کہ حبیب جالب فرماتے ہیں:
ظلم رہے او ر امن بھی ہو ،
کیا ممکن ہے؟ تم ہی کہو ۔
دور اقتدار والے بلوچستان کو بہت ہی سستا سمجھ بیٹھے لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان کی واشنگٹن کے نزدیک ایک زبردست اہمیت کا راز بلوچستان بھی ہے۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اسلام آباد کے تخت پر بیٹھنے والے حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔