کراچی: بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے آرگنائزر آمنہ بلوچ نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ مکران میں جہاں عالمی وباء کرونا وائرس شدت اختیار کر چکا ہے جہاں گوادر سے لے کر تربت, تربت سے لے کر پسنی, پسنی سے لے کر کراچی تک یہ وباء شدت سے پہیلتی جا رہی ہے۔ جہاں کرفیو جیسا سماں ہونا چاہیے, جہاں ویکسین کی بھرمار ہونی چاہیے۔
جہاں گھر گھر ویکسین لگانے چاہیے, لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ وہاں ان سب کی قلت کے ساتھ ساتھ پانی اور بجلی کی بھی قلت ہے جو وقتاً فوقتاً انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کر رہا ہے۔لوگ پانی اور بجلی کی غیر موجودگی کی وجہ سے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے گھروں کو چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور اس غم کو اندوہ کی تاب نہ لاتے ہوئے لوگوں نے آج ڈی۔سی آفس کا رخ کیا۔
اس کے علاوہ کچھ دن پہلے پسنی اور گوادر میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ عوام کو بنیادی سہولیات نہ دینے والی حکومت کیا تصور کرتی ہے کہ عوام کا رد عمل کتنا بدتر ہو سکتا ہے اور عوام کس قدر غم و غصے کا اظہار کر سکتی ہے, وہ بھی اس وباء کی صورتحال میں جہاں ہسپتالوں میں جگہ نہیں, جہاں ہسپتالوں میں ویکسین کا کوئی منظم نظام نہیں۔
ویکسین تو دور کی بات جہاں آکسیجن کا کوئی منظم و مرتب نظام نہیں, جہاں کراچی, اسلام آباد اور بقیہ تمام شہروں میں ویکسین کی بھرمار موجود ہے تو وہاں بلوچستان ویکسین کیوں نہیں پہنچائی جا رہی؟ یہ بہت بڑا سوال ہے کیا بلوچستان میں انسان حقوق کوئی معنی نہیں رکھتی؟ کیا وہاں انسان نہیں رہتے؟ ان تمام تر صورتحال میں پانی اور بجلی کی قلت انتہائی تشویشناک ہے۔
آمنہ بلوچ نے انتہائی غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال سمیت بالخصوص تمام تر ایم۔پی۔ایز اور ایم۔این۔ایز کو یہ بات واضع کی جاتی ہے کہ اگر وہ یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتے تو براہِ کرم اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جائیں۔ کیونکہ آپ عوامی نمائندے ہیں اور آپ کو عوام کی خدمت کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور اگر آپ عوام کی خدمت اور عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے جو ان کے بنیادی حقوق ہیں تو کرسی پر براجمان ہونے کا کوئی مقصد نہیں۔