تاریخی پس منظر رکھنے والا گوادر شہر اپنی بے پناہ خوبصورتی، دلکش نظاروں، بہترین محل وقوع تین اطراف نیلگوں سمندر اور ایک طرف خشکی میں واقع اپنی دامن میں بے شمار کہانیاں اور کردار سمیٹے ہوئے ہے۔یہ سرزمین تاریخی ہستیوں,پرامن لوگوں کا گہوارہ اور مسکن رہا ہے۔اس سرزمین نے اپنے دامن میں بہت سی ایسی ہستیاں پیدا کی ہیں جنہوں نے اس کی رکھوالی اور خدمات میں ہمیشہ تاریخ ساز کردار ادا کیا اور امر ہوگئے۔ حاجی عبدالقیوم کا شمار بھی تاریخی کردار کے حامل ایسے ہستیوں میں ہوتا ہے جو زمانہ طالب علمی ہی سے اپنے شہر اور شہر میں بود و باش رکھنے والے باسیوں کی سیاسی معاشی حقوق کے حصول مشکلات اور ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے نظر آئے۔آپ ہمیشہ دوٹوک موقف اختیار کرتے اور سچ بولتے تھے جو بہت سوں کو ناگوار گزرتا تھا۔
حاجی عبدالقیوم صاحب نے گوادر میں عبدالحمید کے گھر میں آنکھ کھولی۔ابتدائی تعلیم اپنے شہر گوادر ہی میں حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی ہی سے بی ایس او سے وابستہ رہے اور مختلف ادوار میں تنظیم کے کئی عہدوں پر نامزد رہ کر اپنے ببنیادی مسائل کی حل کے لیے جدوجہد کی۔اس دوران عوام کی فلاح و بہبودی کاموں کے لیے بھی آپ ہمیشہ متحرک رہ کر فعال کردار ادا کرتے رہے۔جہالت غربت اور پسماندگی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی بنیادی حقوق کے حصول اور ناانصافیوں کے خلاف آپ کو ہرجگہ موقع ملتا اپنی آواز بلند کرتے. جس کی پاداش میں آپ نے کئی مرتبہ مصائب اور مشکلات کا سامنا بھی کیا مگر اس کے باوجود بھی آپ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور اپنے عوامی خدمت کے سفر کو جاری رکھا۔
آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اور موت کا ایک دن معین ہے۔ تو لہٰذا اس مختصر سی زندگی میں ہر ایک کو اپنے حصے میں خیر اور نیکی کا کچھ کام ایسا بھی کرنا چاہئے جس سے دوسروں کا بلا ہو۔
آپ یہ بات بھی ہر وقت کہتے تھے کہ گوادر کے اصل باشندگان یہاں کے مفلوک الحال مائیگیر اور یہاں پر بود و باش رکھنے والے لوگ ہیں۔ وہ کسی کے غلام نہیں ان کے بھی دوسرے شہریوں کی طرح برابر کے حقوق ہیں۔ انہیں بھی دوسروں کی طرح پر آسائش زندگی گزار نے کا برابر کا حق ہے۔حاجی صاحب اپنے ذریعہ معاش کی بہتری کے لیئے عمان آرمی میں باحثیت سویلین ٹیلر ماسٹر کے بھرتی ہوئے مگر اپنے وطن اور عوام کی خدمت کا جزبہ لیکر کچھ عرصہ بعد جلد ہی عمان آرمی سے ریٹائر منٹ لیکر پھر گوادر تشریف لائے۔کچھ ایسے کام کرنے کی پلاننگ کی جس سے مقامی لوگوں خاص طورپر مائیگیروں کی بہتر خدمت کی جاسکے۔ چونکہ گوادر میں مائیگیری کا شعبہ ہی بڑا پرکشش تھا اور اس کاروبار میں صرف چند مقامی لوگ ہی انوال تھے۔اسی لیے آپ نے اس کاروبار اور شعبے کو فوقیت دی۔اور بیرون ملک میں ابنی کمائی شدہ جمع پونجی اس شعبے پر لگادی۔ جلد ہی گوادر میں مچھلی کے کاروبار سے منسلک بائرز کے ساتھ مل کر گوادر فش ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے نام سے اپنی تنظیم بنائی۔
اس تنظیم کے بینرز تلے گوادر میں مچھلی کا کاروبار کرنے والے تمام بائرز کو گوادر فش ہاربر کم منی پورٹ میں بحیثیت مول ہولڈرز کے باقاعدہ معاہدے کے تحت رجسٹرڈ کروایا۔ اس سلسلے میں کراچی میں فش ہاربر کم منی پورٹ انتظامیہ فش مول ہولڈرز کے مابین باقاعدہ تحریری معاہدہ کرایا گیا اور اس معاہدے کی منظوری بھی محکمہ کے اعلٰی حکام کی جانب سے دی گئی۔
حاجی عبدالقیوم اور اس کی تنظیم فش ہاربر کم منی پورٹ انتظامیہ کی جانب سے مول ہولڈرز اور مائیگیروں کو بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر ہمیشہ نالاں رہتے تھے۔اس سلسلے میں اپنی تنظیم کی جانب سے موصوف ہی زیادہ فعال و متحرک نظر آئے بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی پر آپ نے کئی مواقع پر اپنی تنظیم اور مائیگیروں کی طرف سے پورٹ انتظامیہ اور اعلٰی حکام کو لیٹرز لکھے۔درخواستیں اور عرض داشتیں بھی پیش کیں۔پورٹ انتظامیہ کے مقامی مول ہولڈرز اور مائیگیروں کے ساتھ روا رکھی جانی والی رویوں پر اپنی تنظیم اور مائیگروں کی جانب سے احتجاج کیا دھرنا بھی دیا پریس اور میڈیا کے ذریعے اپنے مسائل حکام بالا تک بھی پہنچائے جس کے نتیجے میں ان کے مطالبات کو مان لیا گیا اور معاملات ایک حد تک حل کئے گئے۔یہی نہیں بحیثیت مول ہولڈر آپ نے بہت سے غریب مائیگیروں کو بہتر آلات مائیگیری کی خریدگی کے لیے ادھار بھی دیئے اور ان کی مدد کی تا گہ وہ بہتر انداز سے مائیگیری کرکے اپنی معاش کو مذید مستحکم بناسکیں۔ اسی طرح شادی بیاہ، تنگ دستی اور بیماری کے ایام میں علاج و معالجہ کرانے کیلئے اکثر غریب مائیگیروں کی مدد بھی کی۔
آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ مائیگیر ہی وہ طبقہ ہے جو ملکی معشیت کی سدھار میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا ہے۔ مگر تاسف کا مقام ہے کہ حکومت ان کے استعداد کار کو بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی اور نہ ہی انہیں بہتر وسائل دئیے جاتے ہیں بلکہ مختلف اداروں کی جانب سے انھیں کھلے سمندر میں تنگ کیا جاتا ہے۔ شہر میں وی آئی پی موومنٹ کے نام پر ان کے لیئے روزگار کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور انہیں سمندر پر جانے شکار کرنے اپنا اور اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی تلاش کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی جو کہ افسوس ناک عمل ہے۔ حاجی صاحب مائیگیروں کے بے حد ہمدرد تھے۔
ان کے دکھ درد اور مصائب کے وقت ان کی مدد کرنے کے لیئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔جس کی واضح مثال مختلف اوقات میں گوادر کے سمندر میں آنے والے طوفانی ایام کے دوران سمندر کے بیچ پھنسے مائیگیروں کی زندگیوں گو بچانے کے لیئے پاک نیوی، ایم ایس اے، فشریز اور دیگر اداروں کو ھنگامی بنیادوں پر ریسکو کرانے کے لیے سب سے زیادہ خود متحرک رہتے۔ جس کی وجہ سے بیچ بھنور میں پھنسے کئی قیمتی جانیں بچائی گئیں۔ خوش قسمت ہے وہ دھرتی جہاں حاجی عبدالقیوم جیسے عظیم ہستی پیدا ہوتے ہیں۔حاجی قیوم رواں ماہ میں مختصر علالت کے بعد جہان فانی سے کوچ کرگئے۔گو حاجی عبدالقیوم صاحب آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی سوچ فکر اور پیار یہاں کے رہنے والوں کی دلوں میں ہمیشہ زندہ و جاویداں رہے گا۔اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔