|

وقتِ اشاعت :   July 30 – 2021

گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے گوادر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کرنے کے لئے سوچنے کا کہا۔ بعد ازاں وزیر اطلاعات نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ان مذاکرات کو عمل میں لانے کے لئے ترتیب وضع کیا جائے گا۔ اس سے قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ ہم نے بہت سے گمشدہ افراد کو رہا کروایا ہے۔ انہی دنوں جمہوری وطن پارٹی اور قومی اسمبلی کے رکن جناب شاذین بگٹی کو بلوچ مزاحمتی تنظیموں سے مذاکرات عمل میں لانے کے لئے معاون مقرر گیا۔

دوسری جانب دیکھا جائے تو سردار اختر مینگل کچھ بنیادی نکات کو لے کر موجودہ حکومت کے قیام کے وقت اس کے اتحادی رہے جن میں گمشدہ افراد کا مسئلہ سرفہرست تھا۔ اس دوران کچھ افراد کی بازیابی کی خبر بھی آئی لیکن یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا ۔ماورائے عدالت اغوا، گمشدگیاں اور قتل کے معاملات بھی اْسی تیزی کے ساتھ جاری رہے۔ اسی بنیاد پر بلوچستان نیشنل پارٹی نے حکومت کے ساتھ اتحاد ختم کرکے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا، جبکہ بلوچستان حکومت میں فنڈز کی ناجائز تقسیم اور غیر منتخب افراد کی اسکیمات کی منظوری کا معاملہ بھی شامل ہے۔

موجودہ حکومت کے تین سال گزرنے کے بعد اب مزاحمت کاروں سے مذاکرات کی کامیابی کس حد تک ممکن ہے اس کاانحصار بھی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں پرہے جن میں گمشدہ افراد کا معاملہ ، فوجی آپریشنز ،بلاجواز چوکیاں اور انکے مسلح افراد ہیں جن کی وجہ سے عام عوام بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو حکومت یا تو سنجیدہ نہیں یا پھر جان بوجھ کر حالات کو مزید خرامی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے کیونکہ جو عوامی نمائندے ہیں بلوچستان یا پشتونخواہ کے وہ بھی شدید مایوس ہیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کی نہ صرف بات نہیں سنی جارہی بلکہ انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عثمان لالا کے واقعے پہ حکومت کا کوئی واضح بیانیہ سامنے نہیں آیا اور نہ کوئی تعزیتی ریفرینس سامنے آیا۔ بلوچستان میں اپوزیشن کے تمام اراکین شدید برہم اور انتہائی مایوس ہیں۔ بلوچستان میں عوام کے لئے بھی کوئی قابل ذکر فلاحی کام بھی نہیں ہوا حتیٰ کے موجودہ بجٹ میں ملازمین کو وہ الائونسز بھی وفاق کے منظور کردہ تناسب سے نہیں دئیے گئے۔

ان تمام اندرونی معاملات کے علاوہ بین لااقوامی معاملات جن میں خاص کر افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ تعلقات اور دوسری جانب ایران کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی امور کا خوشگوار ہونا بھی سرفہرست ہے۔ میری ناقص سمجھ کے مطابق ان معاملات کو دیکہے بغیر حکومت یا موئثر قوتوں کا مزاحمت کاروں سے مذاکرات کا اقدام نہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔