|

وقتِ اشاعت :   August 1 – 2021

بلوچوں کے لئے اگست کا مہینہ ماہِ سیاہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مہینے میں بلوچ معاشرے میں بے شمارسانحے رونما ہوئے۔ ہرطرف آہ وزاری کا منظر رہا۔ ہر آنکھ اشکبار رہی۔ پہلا سانحہ سات اگست 2013 کو لیاری میں بزنجو چوک کے قریب فٹبال گراؤنڈ میں میچ کے دوران ہوا۔ اس بم دھماکہ میں پندرہ سے زائدبچے شہید اور 27 زخمی ہوئے جس سے علاقے میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی۔

دھماکے کے بعد ہرطرف افراتفری پھیل گئی اور لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے۔ دھماکے کے لئے 5 کلوگرام ریموٹ کنٹرول بم استعمال کیا گیا جو موٹر سائیکل میں نصب تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب حکومتی اداروں کی لیاری گینگ وار کو سرپرستی حاصل تھی۔ حکومت دہشت گردوں کے سامنے جھک گئی تھی۔ مٹھی بھر دہشت گرد خوف پھیلانا چاہتے تھے۔ لیاری میں مسلح افراد کا راج تھا۔ لیاری کے عوام کو گینگسٹرز کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا۔ علاقے میں سیاسی اور سماجی کلچر کو بندوق اور منشیات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیاری، پرانا گولیمار، جہانگیر روڈ، ملیر، گڈاپ، مواچھ، ماری پورسمیت ہاکس بے کے قدیم گوٹھوں میں جرائم پیشہ افراد منشیات فروشی میں مصروف تھے۔ کوئی روک ٹوک نہیں تھی، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آنکھیں بندکررکھی تھیں۔

11 اگست 1947 کو بلوچستان کی آزادی کا دن سمجھا جاتا ہے۔ اس دن بلوچستان کو آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کرلیا گیا تھا۔ تقسیمِ ہندوستان سے چند روز قبل 4 اگست 1947 کے دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے ہند نے خان قلات احمد یارخان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ لوئس ماؤنٹ بیٹن المعروف لارڈ ماؤنٹ بیٹن برطانوی سیاست دان،برطانوی بحری فوج کا افسر اورمتحدہ ہندوستان کے گورنر جنرل تھے۔

بلوچستان کا اس وقت انگریز حکومت کے ساتھ معاہداتی تعلقات تھے اوراس کی برصغیرسے بالکل منفرد سیاسی، ثقافتی، تمدنی تاریخ تھی۔ خان میراحمد یارخان نے بلوچستان کی مکمل آزادی کا اعلان کردیا اوربلوچستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ ریاست بلوچستان کے لیے دیوانِ خاص اور دیوان عام کے نام سے دواسمبلیوں کا اعلان کیا گیا۔ دیوان عام کے لئے انتخاب قبائلی معتبرین کی رائے سے ہوتا تھا جبکہ دیوان خاص کے امیدوار صرف موروثی سردار ہوتے تھے۔ دونوں ایوانوں کے سربراہ کو وزیراعظم کے منصب سے نوازا گیا۔ تاہم بلوچستان کی یہ آزادی چند ماہ کی تھی۔ ستائیس مارچ انیس سواڑتالیس کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کا الحاق فوجی طاقت کے بل بوتے پرپاکستان سے کیا گیا۔

گیارہ اگست 1989 کو بزرگ سیاستدان اور سابق گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو ہم سے جدا ہوگئے۔ یہ وہ دن ہے جب صرف بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کے نہایت عظیم سیاسی رہنما اور مدبر ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔ میرغوث بخش بزنجو جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ جہاں پیدا ہوتا ہے۔ اس علاقے کا فخربن جاتا ہے۔ اسی لیے بزنجو صاحب کو بابائے بلوچستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بیس اگست 2020 کو میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے میر حاصل خان بزنجو دارفانی سے کوچ کرگئے۔ وہ کینسرکے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ حاصل خان نے 70ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ 1972ء میں بی ایس او نال زون کے صدراوربعد میں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1987ء میں بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے اتحاد کے خلاف تنظیم سے علیحدگی اختیارکی۔ انہوں نے بی ایس او سے وابستگی کے خاتمے کے بعد بھی طلبہ سیاست نہیں چھوڑی۔ جب وہ کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے انہوں نے دیگر قوم پرست اور ترقی پسند طلباء کی مدد سے کراچی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ نامی اتحاد تشکیل دیا۔ وہ یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین بھی منتخب ہوگئے۔ 1985ء تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی ) میں متحرک رہے۔ 1988ء میں پاکستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیارکی اور نال سے انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

1989ء میں والد کی وفات کے بعد پاکستان نیشنل پارٹی کی سرگرمیوں میں زیادہ فعال ہو گئے۔2002ء میں ان کی پارٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کا الحاق ہوا اور نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ بلوچستان میں پہلی دفعہ مسلم لیگ ن کی مدد سے ان کی مخلوط حکومت بنی۔ اور کیچ سے تعلق رکھنے والے متوسطہ طبقہ کے حاجی عبدالسلام کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوگئے۔ تاہم ان کی حکومت ڈھائی سال رہی۔ اس دوران میرے (راقم) حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک بلوچ سے بلوچستان میں جاری سیاسی اور عسکری صورتحال کی وجہ سے شدید اختلافات ہوگئے۔

وہ اختلافات ذاتی نہیں تھے بلکہ سیاسی تھے۔ کیونکہ دونوں سے میرا ذاتی تعلق رہا۔ پورے ڈھائی سال کے عرصے میں ہماری ملاقاتیں تک نہیں ہوئیں۔ اس دوران سینیٹر طاہربزنجو نے ثالثی کا کردار بھی ادا کیا۔ تاہم نیشنل پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اور میرحاصل خان کی بیماری کی وجہ سے مجھے ان سے اپنا ذاتی تعلق بحال کرنا پڑا۔ بیماری کے دوران ان کی عیادت کے لئے کراچی میں ان کی رہائشگاہ جانا پڑتا تھا۔ ان کی رحلت کے بعد کراچی پریس کلب کے زیراہتمام ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد بھی کروایاگیا۔ جس سے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل میر جان محمد بلیدی اور میر حاصل خان کے قریبی صحافی دوستوں نے بھی خطاب کیا۔ ان کی موت نے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا کردیا۔ اس سیاسی خلا کو پر کرنا ممکن نہیں ہے۔

26 اگست 2006 کو کوہلو کے پہاڑوں میں بلوچ قوم پرست رہنما نواب محمد اکبر خان بگٹی کو شہید کیا گیا۔ میری پہلی ملاقات نواب اکبر خان بگٹی سے طالب علمی کے زمانے میں ہوئی۔ جب میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے منسلک تھا۔ طالبعلمی کو خیرباد کرنے کے بعد میں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور مختلف اوقات میں پیشہ ورانہ سرگرمیوں سے متعلق نواب اکبر سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ وہ ایک سیاسی شعور رکھنے والے سیاستدان تھے۔ سیاسی بصیرت سے حکومتوں کا حصہ رہے اور کبھی کبھار انہیں خیرباد کرتے رہے۔ وہ اصولوں کی ایک پابند شخصیت کے مالک تھے۔جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مشرف حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان کی صورتحال ابترہوگئی۔

بلوچستان کے پرامن ماحول کو جنگ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انارکی و انتشار کی آگ نے ڈیرہ بگٹی سے گوادر تک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔آگ اتنی شدید تھی کہ 79 سالہ بزرگ سیاستدان نواب اکبر خان بگٹی کو قومی حقوق کے حصول کے لئے شہادت نصیب ہوگئی۔حالانکہ نواب صاحب نے سیاسی مذاکرات کے لئے اپنے دروازے آخری دم تک کھولے رکھے۔ اس سلسلے میں کئی مذاکراتی ٹیمیں بنائی گئیں۔ تاہم سب بے سود ہوگئیں۔ اوربالآخرحالات نے نواب صاحب کو مجبوراً پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا۔ پہاڑوں کی جانب پیش قدمی سے چند روز قبل کراچی پریس کلب کی گورننگ باڈی نے نواب صاحب کو ٹیلی فونک میٹ دی پریس سے خطاب کی دعوت دی۔ کراچی پریس کلب نے مجھے یہ ذمہ داری دی کہ آپ میٹ دی پریس کی دعوت نواب صاحب کو دیں اور انہیں خطاب کے لئے راضی بھی کروائیں۔ کیونکہ نواب صاحب نام نہاد قومی پریس کی منفی پروپیگنڈہ سے نالاں تھے۔

آئے روز نواب صاحب کے خلاف اداریے اور کالم لکھے جاتے تھے اور ان کی کردارکشی کی جاتی تھی۔بہرحال میری اور نواب صاحب کے درمیان ایک طویل ٹیلی فونک گفتگو کے بعد نواب صاحب میٹ دی پریس سے خطاب کرنے پر راضی ہوگئے۔ اس طرح جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی رہنما رؤف خان ساسولی اور سینیٹر شاہد بگٹی کو بھی میٹ دی پریس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ یہ میٹ دی پریس کلب ٹیلی فون تھا۔ اس زمانے میں ٹیلی فونک آلات مارکیٹ میں ڈیکوریشن والوں کے پاس نہیں ہوتے تھے۔ ٹیلی فونک آلات ایم کیو ایم کے مرکز 90 سے لائے گئے۔ ان آلات کو لانے کی ذمہ داری رؤف خان ساسولی نے انجام دی۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق چوہدری شجاعت اور مشاہد حسین نے نواب اکبر بگٹی کو صدرپرویز مشرف سے برابری کی بنیاد پرمذاکرات پر راضی کرلیاتھا۔ دونوں کی ون آن ون ملاقات کسی نامعلوم مقام پر ہونی تھی۔ اس سلسلے میں نواب صاحب ایئرپورٹ پہنچے تو انہیں اطلاع دی گئی کہ جہاز میں تیکنیکی خرابی آگئی ہے اس لئے آج ملاقات نہیں ہوسکتی ۔ ملاقات کی آئندہ تاریخ طے کرکے آپ کو بتایا جائیگا۔ جب نواب صاحب ایئرپورٹ سے گھر کی جانب رواں دواں تھے تو آسمان پر وہی خراب جہاز صحیح حالت میں اڑ رہاتھا۔ نواب صاحب نے اپنی گاڑی روک کر جہاز کی طرف دیکھا اور اپنے محافظوں کو کہا کہ اب مجھے گھر مت لے جائیں بلکہ بلوچستان کے پہاڑوں کی طرف لے جائیں۔ بالآخر 26 اگست 2006 کو کوہلو کے پہاڑوں میں اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا۔

مصدقہ ذرائع کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں بیجنگ کا ہاتھ تھا۔ مذاکرات کے دروازے کو چائینیز تالا لگایاگیا۔ بعد میں وہی چائینیز تالا 79 سالہ بزرگ بلوچ رہنماء اکبر خان بگٹی کے صندوق کو لگادیا گیا۔چائینیز حکام کو یہ خدشہ تھا کہ گوادرپورٹ کی تکمیل کے بعد انہیں بلوچستان کے تین قبائلی اضلاع میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ کیونکہ ان اضلاع میں مضبوط بلوچ ٹرائیبل نیشنلزم موجود ہے۔ جن میں ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور وڈھ شامل ہیں۔ چینی حکام کا اصرار تھا کہ ان علاقوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے ان کو کچلا جائے تاکہ ٹرائیبل نیشنلزم جدید سائنسی بنیادوں پر استوار نہ ہوسکے اورغیرقبائلی علاقوں میں پھیل نہ سکے جن میں گوادر، تربت، پنجگور، پسنی، مند، بلیدہ، آواران، نوشکی، خاران، چاغی اور دیگر علاقے شامل ہیں۔

کیونکہ بلوچ تاریخ میں بیشتر جنگیں ٹرائیبل نیشنلزم کی بنیاد پر لڑی گئیں۔ ماضی میں خان آف قلات کے بھائی عبدالکریم بلوچ اور میر نوروز خان نے بلوچستان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ لیکن چینی حکام کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ 79 سالہ بزرگ رہنما کا خون انہیں آج گوادرپورٹ سے چاہ بہار پورٹ (ایران) کی جانب بھاگنے پر مجبور کردیگا۔آج بلوچستان ایک شورش زدہ صوبہ بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے چین نے ایران کے ساتھ چارسو ارب ڈالرز کے معاہدے پر دستخط کئے کیونکہ بلوچستان کے امن و امان کی موجودہ صورتحال سرمایہ کاری کے لئے ناساز ہوچکی ہے۔