|

وقتِ اشاعت :   August 3 – 2021

5جولائی 2021میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے گوادرکا ایک روزہ دورہ کیا۔میڈیا اور سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پاکستان گوادر میں بے شمار ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھ کر گئے ہیں جن سے مستقبل قریب میں تبدیلی آنے کے ساتھ یہاں کے ماہی گیروں کی معاشی زندگی پر مثبت اثرات پڑیں گے۔لیکن گوادر میں بسنے والے مقامی ماہی گیروں کا وزیراعظم کے چلے جانے کے بعد نہ قسمت بدلی اور نہ ہی شہدکی نہریں بہنے لگیں۔ بادشاہ سلامت نے ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر تسبیح پڑھتے ہوئے دو تین منٹ میں گوادر کا “آسمان” سے جائزہ لیا۔ سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین عاصم سلیم باجوہ ان کو چلتے چلتے یوں ہی گوادر میں ہونے والی ترقی پر “تفصیلی بریفنگ” دیتے رہے۔

باجوہ صاحب بڑے کمال کے آدمی ہیں ان کا اس فیلڈ میں کافی تجربہ بھی ہے اس لیے ہیلی کاپٹر کو بدحال بستیوں اور گٹر کے بہتے ہوئے نالیوں کے بجائے سمندر کی خوبصورت لہروں کے اوپر سے گزارتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے وزیراعظم کو جی ڈی اے (ادارہ ترقیات گوادر)المعروف ادارہ بربادیات گوادر کابنایا ہوا دو کلومیٹر 15فٹ لمبی سڑک دکھایا جس پر عمران خان نے اطمینان کا اظہارکیا ہوگا۔

وزیراعظم پاکستان کی تقریب کا اسٹیج سنبھالتے ہوئے گوادر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون وی لاگر کا دوران خطابت منہ پھسل گئی اور انہوں نے “میں گوادر کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں” کا جملہ کہی جبکہ اصل میںان کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ “وزیراعظم صاحب نے گوادر کی ترقی کا ہیلی کاپٹر سے بغور جائزہ لیا ہے”تقریب میں حلقہ سے 32ہزار ووٹ لینے والے منتخب ایم پی اے کو تو دعوت ہی نہیں دی گئی تھی جبکہ گوادرکم لسبیلہ سے منتخب عوامی ایم این اے صاحب (جو دو دن پہلے لسبیلہ سے گوادر تک اپنے ووٹروں سے پھول وصول کرتے ہوئے یہ وعدہ کرکے آئے تھے کہ وزیراعظم کے سامنے ایسا تقریر کرونگا جو کبھی کسی نے نہیں کی ہو) کو نہ اسپیچ ملا اور نہ ہی تھرڈ رو میں بیٹھنے کیلئے کرسی ملی۔خوامخواہ ووٹروں کے قیمتی ہار ضائع ہوگئے۔

وفاق میں وزیراعظم کے اتحادی اور بلوچستان میں برسراقتدار حکمران پارٹی کے گوادرسے تعلق رکھنے والے سنیٹر بھی تقریب میں شریک نہیں تھے،شاید ان کو اسلام آباد سے پرواز بھرنے والے ترقی کی بشارتیں لیکر گوادر آئے ہوئے جہاز میں جگہ نہ ملی ہو۔یہ الگ بات ہے کہ سنیٹر صاحب گوادر کے گرد لگنے والی خاردار تاروں کی باڑ کو بھی ماہی گیروں کی ترقی کا ذریعہ قرار دے کر لمبی لمبی پریس بریفنگز”پڑھتے” ہیں۔

بات صرف یہاں تک نہیں رکی۔وزیراعلیٰ بلوچستان کی پارٹی کے مقامی و صوبائی کچھ رہنماؤں کو بیٹھنے کیلئے کْرسی ہی نہیں ملی جس سے وہ”ناراض” ہوکر واپس چلے گئے۔بعد میں وزیراعظم نے اسپیچ میں “ناراض بلوچوں سے مذاکرات” کا ذکر کیا جس کو میڈیا نے کافی سیریس لیا۔دراصل وزیراعظم صاحب کا مقصد ان بلوچوں سے بات چیت کرنا تھا جو آڈیٹوریم کی ہال میں کرسی نہ ملنے پر واپس چلے گئے تھے۔


دو گھنٹے کے دورہ گوادرکے لیے پورے مرکزی بازار،کاروبار ،شہر کی سڑکوں اور ماہی گیروں کا سمندر میں شکار کو یہ کہہ کر بندکردیا گیا تھا کہ دیرپا ترقی اور خوشحالی کیلئے ایک دن کی ذلت و خواری کو برداشت کریں۔ ان کو کہا گیا کہ آپ نے گھبرانا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ وزیراعظم صاحب جاتے وقت ترقی کی شاہراہ کو ایسے کھول کر جائینگے جو ہمیشہ کیلئے آپ کی بھوک اور پسماندگی کو ختم کردے گی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ترقی،خوشحالی اور معاشی استحکام پر بڑی اعتماد سے بات کرتے ہوئے پھولے نہیں سمارہے تھے بلکہ انکی خود اعتمادی دو قدم ایسے آگے چلی گئی کہ وہ گوادر کو کسی مغربی ملک کا دارالحکومت سمجھ کر انگریزی میں تقریر کرتے رہے جس پر بعد میں وزیراعظم نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ جام صاحب نے اتنی اچھی تقریر اگر اردو میں کی ہوتی تو سب کی سمجھ میں آجاتا۔اب وزیراعظم کا “سب کی سمجھ” سیمطلب ہال میں بیٹھے ہوئے گوادر کے ان پڑھ ماہی گیروں سے نہ نکالیں کیونکہ ہال میں صرف وفاقی اور صوبائی وزراء سمیت مختلف محکموں کے اعلیٰ ذمہ داران بیٹھے تھے۔
سرکاری ہیلی کاپٹر اور پاک فضایہ کے سی ون تھرٹی جہاز سے لائے گئے ملک کے کچھ معروف صحافیوں کو تو یہاں ہونے والی خوشحالی کی کوریج کا موقع نہیں ملا۔ وہ جیسے ہی پی سی ہوٹل پہنچے،پیسوں کی تقسیم پر معمولی سی اختلاف کولے کر ایک دوسرے کے منہ پر برتن مارنے لگے۔
عمران خان صاحب دورہ کرکے چلے گئے۔ماہی گیر سمندر میں جانے کی اجازت نامہ کے انتظار میں تھے اور اسی آس پر آنکھیں لگائے بیٹھے تھے کہ شاید آج ایک مہینہ بعد انکے گھروں کی ٹینکیوں میں پینے کے صاف “پانی” کی صورت میں ترقی آجائیگی لیکن ہوا کیا؟

ترقی کو پانی، بجلی کے روپ میں آنا ہی نہیں تھا سو پورے مکران میں ایران سے بجلی آنا بند ہوگئی۔ گھروں کی ٹینکیوں میں رات کوپانی آنا تو شروع ہوگیا مگر گٹر کی آلودہ پانی کی صورت میں۔ ماہی گیروں کو شکار پرجانے کا اجازت نامہ بھی مل گیا، پھر چین سے آئے ہوئے اژدھا نما ٹرالر سمندر کی مچھلیوں کو صاف کرنے لگے۔

وزیراعظم کے دورے اور ہیلی کاپٹر سے لی گئی بریفنگ کے بعد گوادر میں ترقی کی شدت اتنی بڑھ گئی ہے کہ 45ڈگری سینٹی گریڈ گرمی میں بجلی ایک منٹ کیلئے نہیں جارہی، پانی کا تو پوچھیں ہی نہیں۔ماہی گیروں کی بستیوں میں “گٹر” کی صورت میں آبِ زْم زْم بہہ رہا ہے۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت سرکار نے ماہی گیروں کیلئے ایسے گھر بنائے ہیں کہ “جب بارش ہوتی ہے تو چھت سے پانی ٹکپتا ہے”۔ شہر کی اندرونی سڑکیں اور مرکزی بازار کو وسیع کرکے ایسا ماڈرن بنادیا گیا ہے جب بادل برسیں گے تو تالاب بنیں گے۔ ترقی اور خوشحالی سے یہاں کے لوگوں کے دل ایسے بھر گئے ہیں کہ خواتین اپنے شیر خوار بچوں کو گود میں لیے گوادر پورٹ سے کاشغر تک جانے والی سڑک پر ٹائریں جلاکر چیخ رہی ہیں کہ ایسی ترقی نہیں چاہیے جس سے ہم گھبرانے لگیں۔