|

وقتِ اشاعت :   August 8 – 2021

افغانستان کی موجودہ صورتحال نے نہ صرف ہمسائے ممالک کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے بلکہ افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو عدم تحفظ جیسی صورتحال سے بھی دوچار کردیا ہے۔ افغان طالبان اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان تصادم کے خدشات کا اظہار کیاجارہا ہے۔

دوسری جانب بلوچ مزاحمت کار حلقوں نے افغان طالبان سے تصادم کے خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد بلوچ تحریک پر اثرات پڑ سکتے ہیں لیکن اس طرح نہیں جس طرح لوگ سوچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ آج کے حالات 1990 کی دہائی سے یکسر مختلف ہیں کیونکہ آج بلوچ تحریک کسی ہمسایہ ملک پر انحصار نہیں کرتی۔ یقیناً جنگ سے متاثرہ بلوچ مہاجرین افغانستان و ایران کے ان بلوچ علاقوں میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں، جنہیں وہ اپنا وطن تصور کرتے ہیں۔بلوچ مزاحمت کاروں کے اس موقف کو سمجھنے کے لئے ہمیں افغان اور بلوچ قوم کی تاریخی معاہدوں اور عسکری رشتوں پر روشنی ڈالنی پڑے گی۔


تاریخی طورپر بلوچ اور افغان قوم کے درمیان ریاست کا ریاست کے ساتھ اور قبائل کا قبائل کے ساتھ ثقافتی، تاریخی، عسکری اور معاشی رشتے رہے ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔ ان کے درمیان کچھ ایسے معاہدے ہیں جو زبانی ہیں اور یہ معاہدے صدیوں پرمحیط ہیں۔

بلوچ ریاست کے ایک سوسال بعد افغان ریاست افغانستان میں قائم ہوئی جبکہ بلوچوں کی مدد سے درانی سلطنت کوتقویت ملی۔درانی سلطنت کابانی احمدشاہ درانی جسے احمدخان ابدالی بھی کہا جاتا ہے۔ ریاست قلات کے حکمران میرنصیرخان نوری نے بلوچ فوج اور دیگر بلوچ ریاستوں کے سربراہوں کی مدد سے احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دیااورمرہٹوں کے خلاف مشہور پانی پت کی لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ نصیرخان نوری نے درانی سلطنت کے بانی احمد شاہ ابدالی کی سلطنت کوتوسیع دینے میں اہم کردارادا کیا۔ نصیر خان نوری نے پانی پت کی جنگ جیت لی۔ انہوں نے فارس کے حکمرانوں سے احمد شاہ ابدالی کی جنگ لڑی اور ہرات جنگ میں فتح حاصل کی۔

جب برطانوی سامراج اس خطے میں فتح حاصل کرنے کی کوشش کی تو بلوچوں نے سخت مزاحمت کی۔ تاہم طویل مزاحمت کے بعد برطانوی سامراج نے فتح حاصل کرلی۔ انگریزوں نے بلوچ مرکزیت کا خاتمہ کرنے کے لئے گریٹر بلوچستان کو تین ممالک میں تقسیم کردیاجس کی وجہ سے آج بلوچستان آپ کو پاکستان، ایران اور افغانستان میں ملے گا۔ تقسیم در تقسیم کی پالیسی کامقصددراصل بلوچوں کوسیاسی و عسکری طورپر کمزور کرناتھا۔

ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔ بلوچوں کی قومی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ان کی طاقت کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کیاگیاتاکہ بلوچ کمزور سے کمزورتر ہو سکیں اور حکمران ان پر حکمرانی کرتے رہیں۔ انگریز نے موجودہ پاکستانی بلوچستان اور ایرانی بلوچستان کے درمیان گولڈ سمتھ لائن بنائی جبکہ افغانستان میں موجودہ بلوچستان کو ڈیورنڈ لائن کے ذریعے تقسیم کردیا۔ افغانستان میں بلوچ آبادی کی تعداد لگ بھگ بارہ سے پندرہ لاکھ ہے۔بلوچوں کی اکثریت جنوبی افغانستان میں رہتی ہے۔

زیادہ تر صوبہ نیمروز میں آباد ہیں۔ باقی صوبہ قندھار، ہلمند اور دیگر علاقوں میں رہتے ہیں۔ سینٹرل افغانستان میں بھی بلوچوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔ عبدالکریم بروہی نیمروز کے گورنر رہے ہیں،اور اشرف غنی کے دور میں وہ وزیر بھی رہے۔

پاکستانی بلوچستان میں صورتحال کی خرابی کی وجہ سے بے شمار بلوچ خاندانوں نے افغانستان کی طرف ہجرت کی۔ عام بلوچ جو پاکستانی بلوچستان سے افغانستان گئے۔ ان کو افغانستان کی مقامی آبادی میں ضم ہونے میں کوئی مسائل درپیش نہیں ہونگے۔ جو قبائل وہاں پرموجود ہیں۔ انہیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ چاہے وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہویاکسی اورکی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان کے قومی ترانے میں دیگر قومیتوں کے ساتھ بلوچ کا ذکر بھی آتاہے۔ حال ہی میں آل بلوچ کانفرنس ہرات میں ہوئی تھی جس میں حامد کرزئی اور دیگر افغان قیادت نے شرکت کی تھی۔ تاہم افغانستان میں پاکستان مخالفت بہت زیادہ ہے۔ کوئی بھی پاکستان سے وہاں جائے اس سے نفرت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان طالبان ایک پراکسی ہے اور وہ کسی کی کمک کی وجہ سے جنگ لڑ رہا ہے۔ جس کی مدد سے وہ جنگ لڑ رہا ہے ان کے کہنے پر کچھ بھی کرسکتا ہے۔

افغان طالبان چین، ایران اور پاکستان کے مفادات کے خلاف نہیں جائیں گے۔ بلوچ مزاحمت کار اسلام آباد مخالف ہیں اور افغان طالبان اسلام آباد کے حامی ہیں۔ اس صورتحال میں بلوچ پناہ گزینوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو بلوچ مہاجرین ہیں۔ ان میں دو قسم کے پناہ گزین ہیں۔ ایک ان کی اعلیٰ قیادت اور دوسرے عام متاثرین ہیں۔ جن کی فیملی کے لوگ لاپتہ ہیں، وہ اپنی جان بچانے کے لئے افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ عام بلوچ پناہ گزین مقامی آبادی میں گھل مل گئے ہیں۔ ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور جو لیڈر شپ ہے، وہ ان حکومتی زیراثر علاقوں میں چلے جائیں گے۔

جہاں افغان طالبان کا کنٹرول نہیں ہے۔ جن میں اشرف غنی کے علاقے شامل ہیں۔ ماضی میں بھی افغانستان میں بلوچ کمانڈر مارے گئے ہیں جن میں گوریلا کمانڈر اسلم بلوچ شامل ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ طالبان اگر افغان قومی سوچ و فخر کی بنیاد پر جنگ لڑیں گے۔ ان کو کوئی بھی ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔ماضی میں ملا عمر نے اسامہ بن لادن کی حوالگی پر انکار کردیا تھا۔ دراصل وہ سوچ ایک افغان نیشنلزم کی عکاسی کرتی تھی۔ یہ بڑا مشہور واقعہ ہے جب ملا عمر سے سعودی اینٹلی جنٹس کے چیف نے ملاقات کی جس کو ملا عمر نے اپنے دفتر سے بھگا دیا تھا۔ دیکھا جائے افغان طالبان کی قیادت مکمل قبائلی ہے۔ ان کے اندر ایک حد تک قبائلی نیشنلزم کا عنصر ہوتا ہے۔ یہ نیشنلزم کا مظاہرہ پہلے بھی دیکھاگیا ہے۔

 

جب اسلام آباد نے ڈیورنڈلائن پر باڑ لگانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس سلسلے میں سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر نے افغانستان میں ملا عمر سے ملاقات کی جس پر ملا عمرنے ڈیورنڈلائن پر باڑ لگانے کی مخالفت کی کیونکہ اس منصوبے سے پاک افغان سرحد پرآباد پشتون اور بلوچ قبائل تقسیم ہوجائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ طالبان میں پشتون نیشنلزم موجود ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پراکسیز ہیں۔ افغان طالبان کی بڑی تعداد اسلام آباد مخالف ذہن رکھتی ہے جبکہ وہ پاکستان میں بھی رہتے ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ افغان طالبان کو افغانستان میں موجود پاکستانی پشتون اور ایرانی بلوچ اور چائینز طالبان جیسی شدت پسند تنظیموں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین کے صوبے سنکیانگ کی افغانستان کے ساتھ سرحد ملتی ہے۔ افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر، چین کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ اگر واقعتاً طالبان اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ تو چین کے علاقے سنکیانگ میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کو وہاں سے پناہ اور امداد مل سکتی ہے۔ وہ ایک آزاد مشرقی ترکستان کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ سنکیانگ صوبے میں چین کی نسلی اقلیت یعنی اویغر مسلمان ہیں۔اسی خوف کی وجہ سے دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ملا برادر کی سربراہی میں چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور سنکیانگ میں چلنے والی تحریک پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس ملاقات کے بعد افغان طالبان کا چائینز طالبان کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہوگا۔


اسی طرح ایران کو داعش اور جنداللہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ ایران کے ساتھ طالبان کے تعلقات گزشتہ پندرہ سال سے بہت خوشگوار ہیں۔ افغان طالبان کا تہران میں غیر سرکاری طورپر دفتر بھی قائم ہے۔ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت ایران میں موجود ہے جن کی بڑی تعداد پارسیوان (پارسی زبان بولنے والے) ہیں۔ اور افغانوں کی دیگر اعلیٰ قیادت بھی ایران جاتی رہتی ہے جس کی مثال کچھ یوں ہے۔ افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کو امریکہ نے ایران سے واپسی پر بلوچستان کے ضلع نوشکی میں فضائی حملے میں ماردیا تھا۔

ماضی میں ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والی مزاحمت پسند تنظیم جنداللہ کو افغانستان میں افغان طالبان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ افغان طالبان نے یہ عمل ایران کو خوش کرنے کے لئے کیا تھا۔ آج بھی جنداللہ کی بعض لیڈر افغانستان میں موجود ہیں۔ ان سے مزید دودوہاتھ ہوسکتے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد بھی افغانستان میں موجود ہے۔ ان کے لئے بھی افغانستان میں جگہ تنگ ہوچکی ہے۔ پاکستانی پشتون مہاجرین کی بڑی تعداد کابل وغیرہ میں پناہ لئے ہوئے ہے۔افغان طالبان کو مسئلہ سب سے زیادہ پی ٹی ایم سے ہے۔


یہ ساری چیزیں اس وقت افغان طالبان کے لئے ممکن ہونگی جب وہ کابل پر قبضہ کرلیں گے۔ کابل فتح کرنے کے بعد وہ افغانستان میں اپنی حکومت بنائیں گے۔ حکومت کے قیام کے بعدوہ نیشنل پالیسی مرتب کرسکیں گے جس کے تحت وہ بلوچ اور پشتون پناہ گزینوں کو ٹف ٹائم نہیں دے سکیں گے وگرنہ انہیں بھی سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔