|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2021

پاکستان پیپلزپارٹی 2008ء کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد بلوچستان سمیت مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی مگر جیسے ہی حکومتی مدت ختم ہوگئی پیپلزپارٹی کی سیاست بلوچستان میں مکمل طور پر ختم ہوکر رہ گئی تھی اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے پاس ایسی قد آور شخصیات نہیں تھیں کہ وہ 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں چند نشستیں لینے میں کامیاب ہوجاتی کیونکہ بلوچستان میں بیشتر ووٹ بینک قبائلی شخصیات کے اپنے ہی ہوتے ہیں جو اپنے علاقے میں اثرورسوخ رکھتے ہیں ۔قبائلی شخصیات جن جماعتوں میں جاتے ہیں پارٹی بیانیہ سے ہٹ کر انہیں ووٹ ملتا ہے ۔

یہ کہنا کہ بڑی جماعتوں کی پارٹی پالیسی یا بلوچستان کیلئے بڑی ہمدردی رکھنے کی وجہ سے انہیں عوام ووٹ دیتی ہے بالکل بھی ایسا نہیں ہے۔ جس طرح مسلم لیگ ن میں قبائلی شخصیات نے شمولیت اختیار کی تھی اور 2013ء میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنائی اس میں بیشتر افراد آزاد حیثیت سے جیت کر آئے تھے جو بعدازاں مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے اور اس طرح نیشنل پارٹی ، پشتونخواہ میپ اور ق لیگ کے اتحاد سے بلوچستان میں مسلم لیگ ن نے حکومت بنائی۔

بہرحال بعدمیں جس طرح سے مسلم لیگ ن کی بلوچستان میں حکومت ختم ہوگئی اس سے تقریباََ سب ہی واقف ہیں اور پیپلزپارٹی کا نام بھی اس میں خاص کر لیاجاتا ہے اور یہ بات پیپلزپارٹی کے قائدین خود بھی کہتے رہے ہیں کہ بلوچستان میں کس طرح سے ہم نے تبدیلی لائی مگر خود پیپلزپارٹی 2018ء میں اسی تبدیلی کے تناظر میں انہی شخصیات کے ذریعے کچھ حاصل نہ کرسکی، نہ ہی ان شخصیات نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی بلکہ مسلم لیگ ن سے منحرف سیاسی وقبائلی شخصیات نے اپنی ایک الگ جماعت بلوچستان عوامی پارٹی تشکیل دی جو 2018ء کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت لینے میں کامیاب ہوئی اور حکومت بنائی ۔ بہرحال اب پیپلزپارٹی نے بلو چستان میں سیاسی حوالے سے دبنگ انٹری ماری ہے بلوچستان کی اہم قبائلی شخصیات نے اپنے ساتھیوں سمیت پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ گزشتہ روزکوئٹہ میں مسلم لیگ ن چھوڑ کر نواب ثناء اللہ زہری اور عبدالقادر بلوچ کے پیپلز پارٹی میں شمولیت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ عوام کے حقوق اور وسائل کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے ساتھ ہی دیگر جماعتوں کو نشانے پر لیتے ہوئے وفاقی حکومت کو مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا چہرہ قرار دے دیا ،ان کا کہنا تھا کہ عوام جان چکے ہیں کہ تبدیلی کا اصل چہرہ مہنگائی،غربت اور بے روزگاری ہے۔بلاول نے دونوں رہنماؤں کو پیپلز پارٹی میں شمولیت پر خوش آمدیدکہتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پارٹی بلوچستان سمیت پورے ملک میں حکومت بنائیگی، ہم حکومت میں آکر صوبے کے مسائل کا حل بھی نکالیں گے۔ یہ سچ ہے کہ پیپلزپارٹی نے 2008ء میں بلوچستان میں حکومت کی تشکیل کے بعد بہت سے پیکجز بلوچستان کو دیئے جو شاید کسی بھی دوسری وفاقی حکومت نے دیئے ہوں۔

اس کے ساتھ ہی این ایف سی ایوارڈ کی مدمیں بڑی رقم دی یہ ریکارڈ پر موجود ہے ۔ نواب ثناء اللہ خان زہری ، جنرل عبدالقادربلوچ اور نواب محمدخان شاہوانی کی شمولیت کے بعد دیگر شخصیات پیپلزپارٹی میں آنے والے وقت میں شامل ہونگی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی حکومت بھی بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے مگر یہ سیاسی حالات پر منحصر ہے کہ حالات کا رخ اور سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے شخصیات کیا فیصلے کرینگی مگر یہ طے ہے کہ پیپلزپارٹی چند نشستیں لینے میں تو کامیاب ہوجائے گی مگر حکومت بنانے کیلئے اسے مزید اہم شخصیات کی شمولیت درکار ہوگی۔