|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2021

کچھ واقعات ناصرف انسان کو جھنجوڑتے ہیں بلکیں دماغ تا دیر اْن کے زیر اثر رہ جاتا ہے۔ 20 جولائی 2021 کی ایک خاموش شام جہاں اسلام آباد کے ایک پوش علاقے کی ایک خوبصورت بنگلے میں ایک 27 سالہ جوان نازک اندام لڑکی نور مقدم کی بنا سرکی لاش پڑی تھی جن کی گردن سے رستے ہوئے تازہ خون کسی کی بے رحمی اور وحشی پن کا داستان بیان کررہی تھی۔جس کے بدن پربھی پے درپے کہیں واروں کے نشانات تھے، جن کی آنکھیں کرب و اذیت سے پھٹی ہوئی تھیں۔کٹا ہوا سر بھی زخموں سے خالی نہ تھا جسے قاتل نے قتل کرنے سے پہلے کسی چیز سے پٹخ پٹخ کر مارا تھا۔

بے حس و حرکت وجود کو دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے اِس کی چیخیں ابھی تک تصور میں بازگشت کررہی ہوں۔ قاتل دور کھڑا اس کی بے جان جسم کو گھور رہا تھااور شاید اب بھی اِس گمان میں تھا کہ یہ جسم میری ملکیت ہے میری مرضی میں چاہے جو کروں۔ شاید یہ بھی کہہ رہا ہو تیرا جسم میری مرضی ۔ اس قتل نے پورے اسلام آباد کو خوف میں مبتلا کرکے جھنجھوڑ دیا۔ لوگو ں کی راتوں کی نیندیں اڑگئیں۔ قاتل بااثر تھا ، پیسے والا تھا، ہرچیز خرید سکتا تھا، تبھی تو وہ پْرسکون اور مطمئن تھا لیکن پھر بھی وہ مقدمے سے بچ نہ سکااور امریکی شہریت بھی اْس کو تفتیش سے بچا نہ سکا۔

تفتیش ہوئی سوال و جواب ہوا اْس کے والدین تک گرفتار کئے گئے وہ بھی انڈر ٹرائل رہے۔ اْن کی ضمانتوں کی درخوست بھی اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے مسترد کردی۔سوشل میڈیا پہ آگ لگ گئی ، موم بتیاں جلائی گئیں ، انصاف کا مطالبہ کیا گیا۔ جو ممکن ہوسکا وہ کیا گیا، کیس عدالت میں چل رہی ہے۔ بالکل اِسی طرح کا کیس بلوچستان کے علاقے تربت میں ہوا۔ قاتل نے شاہینہ کا سر تو نہیں کاٹا لیکن بدن کو گولیوں سے ضرور بھون ڈالا اور اْس کو ہسپتال میں پھینک کر چلا گیا۔ جہاں وہ سسک سسک کر مرگئی۔ نہ آسمان گرا نہ زمین پھٹی، صرف ایک لڑکی ہی تو مری تھی۔ آبادی میں سے ایک ہندسہ ہی تو کم ہوا تھا۔ اْس کے پیچھے کوئی بھی کاروائی نظر نہیں آئی۔ قاتل آزاد تھا۔ نواب تھا ،دلارا تھا۔ ایک کھلونا ہی تو ٹا تھا اْس کا۔ لیکن شاہینہ کا بہت کچھ ختم ہوچکا تھا۔ اْس کے خواب، اْس کے سپنے ، اْسکی جدوجہد، اْس کی بہنوں کے خواب، اْس کی ماں کی اْمید و آس سب کچھ ختم ہوگئے تھے ۔

وہ ایک بے ضرر سی یتیم لڑکی تھی۔ اپنے بل بوتے پر ہرچیز کرنا چاہتی تھی۔ وہ ایک پرخلوص اور انسانیت سے محبت کرنے والی لڑکی تھی۔ وہ ایک آرٹسٹ تھی ۔ رنگوں سے محبت کرتی تھی اور دنیا میں خوبصورت رنگ بکھیرنا چاہتی تھی لیکن صرف کسی کے غصے اور گناہ کی بھینٹ چڑ کر وہ اپنے لہو سے رنگین ہوگئی اور اْس کی زندگی ختم کردی گئی ۔ دونوں واقعات کو ملانے کا مقصد یہ ہے کہ اگرایک لڑکی کا قتل پورے اسلام آباد کو ہلا سکتی ہے تو شاہینہ کا قتل کیوں پورے تربت کو ہلا نہ سکی؟۔۔ کیا وجہ تھی جس نے سب کے منہ بند کردئیے؟ کیونکہ وہ یتیم تھی اورایک سفیر کی بیٹی نہیں تھی۔ غریب خاندان سے تعلق تھا اْس کا۔ شائینہ کی لاش بمعہ اپنے ادھورے سپنو ں کے دفنا دی گئی۔ ایک باب ختم ہوا۔ ایک جہد ختم ہوئی ۔ لوگ بھول بھال گئے اور اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں مصروف ِہوگئے۔ ہم نے شائینہ کو انصاف نہیں دیا۔ہماری خاموشی سے قاتل اور طاقت ور بن گئے پھر یکے بعد دیگرے واردات کرکے ہمارے ضمیروں کو جنجھوڑتے رہے لیکن ہم سارے تماش بین بن چکے تھے۔

لیکن قاتل یہاں بھی خاموش نہیں رہا اِس دفعہ اْنھوں نے ایک نیا ہدف چْن لیا۔ ایک ننھا معصوم فرشتہ جس کو زندگی کے بارے میں بھی پوری طرح معلوم نہیں تھا اْس کو موت کا دردناک مزا چکھا دیا۔ جی ہاں پنجگور میں 4 سال کے معصوم بچے قدیر کو گلے میں رسی ڈال کر پنجگور کی گلیوں میں گھسیٹا گیا، اْس وقت تک جب تک اْس معصوم کی نازک کھال چل نہیں گئی اور اْس کا سر پھٹ نہ گیا اور اْس کی روح پرواز نہ کرگئی۔ لیکن مجال ہے کہ کسی نے کوئی تعزیت کی ہو ، کسی نے کوئی افسوس کیا ہو، بس ایک بچہ ہی تو تھا۔ لیکن کسی نے اْس درد کا اندازہ نہیں کیا کہ ہمیں ایک کانٹا چھبے تو ہمیں رات بھر نیند نہیں آتی ایک معصوم پھول سا بچہ جس کا بدن روئی سے زیادہ نرم اور پھول سے زیادہ نازک ہے وہ بے رحم پتھروں سے رگڑ کر کس درد اور اذیت سے گزرا ہوگا۔ کس طرح درد کی شدت سے تڑپ کر اْس نے اپنی ماں کو آوازیں دی ہوگی جس کے بے گناہ بدن کا خون رس کا زمین کا مانگ بھر رہا ہوگا اور زمین کا بھی سینا پھٹ رہا ہوگا لیکن قاتل کا دل نہیں پسیجا وہ گھسیٹتا رہا اْس وقت تک جب تک وہ گوشست کا صرف ایک لوتھڑارہ گیا۔لیکن ہم پھر بھی ٹھس سے مس نہ ہوئے۔

ہم اِتنے بے حس پہلے تو نہیں تھے اب کیا ہوگیا کہ ہم میں کسی چیز کی تمیز ہی نہ رہی۔ کسی کو زندگی دینے میں سست رہے لیکن موت دینے کے نت نئے طریقے اپناتے رہے ہیں۔ کیا یہاں بھی امیری غریبی کا فرق بیچ میں آگیا؟۔ ہم حق سچ اور انصاف کو نہیں صرف سامنے والے کی جیب کی بھاری پن سے متاثر ہوکر اپنا موقف تبدیل کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔ ہمیں دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا آگیا ہے لیکن ہم انسانیت سے گر کر ضمیر سے پیدل ہوتے جارہے ہیں۔ اگر ایک سفیر کی بیٹی کے لیے پورا سسٹم ہل سکتا ہے تو میرے گاؤں کی معصوم شاہینہ اور میرے ننھے قدیر کے لیے تربت کیوں نہیں جنبش کرسکا؟۔۔ میرے شہر کی گلیاں ماتم کدہ کیوں نہ بنے۔ کیا ہمارے ضمیر مرگئے ہیں یا مرگ ِ نزاع میں ہیں۔