۶ مئی ۱۲۰۲ء کو یہ خبر کشمیری عوام پر قیامت بن کے ٹوٹی کہ زیر حراست مذاحمتی تحریک کے مخلص ترین قائد جناب محمد اشرف خان صحرائی جموں کے ہسپتال میں انتقال کر گئے: اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اس طرح سے کشمیر کی تحریک آزادی کے ایک اور قائد کی جدوجہد کا باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
مرحوم صحرائی صاحب کو ۰۲۰۲ء میں اپنے بیٹے شہید جنید صحرائی کی شہادت کے ٹھیک دو ماہ بعد جموں وکشمیر میں نافذ کالے قانون ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت پس زندان ڈال دیا گیا تھا۔
واضح رہے یہ ایک ایسا بے رحم قانون ہے جس میں دو سال تک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے کسی بھی شخص کوپابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے۔ صحرائی صاحب مرحوم کے اہلِ خانہ نے اسے قتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم کو انتظامیہ کی جانب سے کوئی طبی امداد نہیں دی گئی، جب کہ وہ کئی امراض میں پہلے ہی مبتلا تھے۔ میڈیا کو دیئے گئے بیانات میں ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ’’میرے والد نے اپنی وفات سے چند دن قبل مجھے فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے لیے یہاں کسی دوائی وغیرہ کا انتظام نہیں ہے۔ میں چند دنوں سے شدید بیمار ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومت مجھے یہاں مارنے کے لیے ہی لائی ہے، اس لیے ا?پ میری رہائی کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں اْنھیں ترک کر دیں۔ مجھے یہ ایسے رہاکرنے والے نہیں ہیں۔آپ اپنے معمول کے کام کاج میں مصروف ہو جائیں ‘‘۔
محترم صحرائی صاحب کے انتقال پر کئی ہند نواز سیاسی لیڈروں نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے حکومت پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا :
اشرف صحرائی کی اچانک موت کے بارے میںجان کر بہت صدمہ ہوا۔ انھی کی طرح ان گنت سیاسی قیدیوںاور جموں وکشمیرکے دیگر نظر بندوں کو بھی اپنے نظریا ت اور افکار کے لیے مکمل طور جیل میں ڈالنے کا عمل جاری ہے۔ آج کے ہندستا ن میںاختلاف رائے کی وجہ سے ایک شخص اپنی زندگی کی قیمت ادا کرتا ہے۔
پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا:
انھیں قید میں کیوں مرنا پڑا نہ کہ اپنے پیاروں اور رشتہ داروں میں۔کیا ہم اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ علیل بزرگ شخص ریاست کے لیے خطرہ ہے؟ صحرائی صاحب ایک سیاسی رہنما تھے، دہشت گرد نہیں۔
آل پارٹیزحریت کانفرنس نے اظہار تعزیت کرتے ہو ئے کہا کہ:’’ جموں وکشمیر کے لوگوں نے ایک مخلص، قابل اور ایمان دار لیڈرکوکھو دیا ہے ‘‘
محترم اشرف صحرائی کے فرزند راشد خان صحرائی نے دی وائر نیو ز پورٹل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ:’’ان کے طبی معائنے اور علاج کے لیے تین درخواستیں دائر کی تھیں،جس میں ان کی مزید دیکھ بھال کے لیے جموں یا سرینگرکی جیلوں میں منتقل کر نے کی درخواست بھی تھی کہ اہل خانہ کو ان سے ملنے دیا جائے‘‘۔ راشد صحرائی نے کہا کہ ’’درخواستوں پر نظر ثانی کے لیے جج مسلسل دیر کرتا رہا‘‘۔
اس عظیم اور بے با ک قائد کی زندگی عزیمت اور قربانیوں کی لازوال داستانوں سے پْرہے۔ مرحوم قائد کی پیدایش شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی خوب صورت ترین وادی لولاب میں ۴۴۹۱ء کو ہوئی۔وہی لولاب جہاں عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت اور محدث علامہ انور شاہ کشمیری۵۷۸۱ء -۳۳۹۱ء ]نے آنکھ کھولی تھی۔ جس وادی کے متعلق شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ایک مشہور نظم بھی ’اے وادی لولاب‘ عنوان کے تحت لکھی ہے۔ موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گائوں میں حاصل کی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے گریجوشن کی۔ آپ بچپن سے ہی دینی مزاج کے حامل تھے اور دینی کتابوں کے مطالعے سے بھی خاصا شغف رکھتے تھے۔ قرآن کریم کا گہرا مطالعہ تھا۔ ایک فیس بْک ساتھی نے مطالعہ قرآن کے حوالے سے ایک پوسٹ میں مرحوم کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ :’’قرآن کا گہرا مطالعہ تھا اور تفاسیر پر بھی نظر تھی۔ جب درسِ قرآن پیش کرتے تھے تو بالکل بھی روایتی انداز کا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اْن کا پہلا درس ’اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر‘ کے تربیتی پروگرام میں سْنا۔اس وقت میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ درس آج تک میرے ذہن میں مستحضر ہے۔کیا ہی دل چسپ اندازِ بیان تھا۔قرآنی آیات کی توضیح و تشریح ایسے کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ قرآن آج ہی نازل ہو ا ہے۔وہ اپنے دروسِ قرآن میں زمانے کے تطابق کا خاص خیال رکھتے تھے۔ایسے درس پیش کرتے جیسے موتیوں سے ہمارے دامن بھررہے ہوں‘‘۔
اشرف صاحب کا گھرانہ ابتدا سے ہی تحریک اسلامی سے وابستہ تھا۔مرحوم کے گھر سے دوبڑے بھائی جماعت اسلامی جموں وکشمیرکے بنیادی ارکان میں سے تھے، جن کی وساطت سے محترم صحرائی صاحب کو بھی جماعت اسلامی سے آشنائی ہوئی۔ جماعت کے دفتر واقع کپواڑہ میں ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ اسی دوران میں ان کی ملاقات اْس دور میں فعال ترین کارکن سید علی گیلانی صاحب سے ہوئی۔ گیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ: میری قربت صحرائی صاحب سے قدرتی طور پر کچھ زیادہ ہی ہونے لگی۔ جب کبھی بھی ہمارا کپواڑہ آنا جانا ہوتا تھا تو میں محترم موصوف کے گھر جایا کرتا تھا۔ ابھی صحرائی صاحب دسویں جماعت میں ہی تھے کہ اْن کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ’یہ ہاز چھی حوالہ‘ یعنی اب یہ (صحرائی صاحب) آپ کے حوالے ہیں۔ اور اس کے بعد تحریک اسلامی کے یہ دونوں سرفروش تا عمر حالات کے سرد و گرم کا مقابلہ جاں فشانی سے کرتے رہے۔
صحرائی صاحب تحریک اسلامی کے مخلص ترین اور بے باک قائد تسلیم کیے جاتے تھے۔ موصوف نے اپنی ساری زندگی کو تحریک اسلامی کے لیے وقف کردیا۔ جموں وکشمیر کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ کو وجود بخشنے میں صحرائی صاحب کا خاصا بنیادی کردار تھا۔ کشمیر کے ایک رسالے کو اپنے ایک انٹرویو میں اسلامی جمعیت طلبہ کے وجود میں آنے کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ’’انھی دنوں زالورہ، بارہمولہ میں جماعت اسلامی جموں وکشمیر نے مولانا شیخ سلیمان مرحوم (شیخ محمد سلیمان مرحوم نے ضلعی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک جماعت کے اپنے فرائض بڑے اخلاص اور محنت سے انجام دیے، خاص کر ارکان وذمہ داران کی تربیت کے حوالے سے انھوں نے کافی کام کیا) کے گھر پر جولائی ۷۷۹۱ء میں مجلس شوریٰ کا اجلاس چار دن تک جاری رہا، جہاں میں [صحرائی صاحب] بھی شامل تھااور گیلانی صاحب بھی۔ جماعت کو سیاسی طور پر وادی میں جو نقصان اٹھانا پڑا اس پر زبردست بحث و مبا حثہ ہوا، یہاں تک کہ امیر جماعت کو بھی تبدیل کرنے پر بات ہوئی۔ شوریٰ میں محترم سیدعلی گیلانی صاحب سے کہا گیا کہ آپ امیر جماعت کی حیثیت سے کام کریں، لیکن جونہی انہوں نے یہ بات سْنی، انہوںنے اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور انتہائی غصے کی حالت میں کہا کہ: ’’کیا میں امیر جماعت بننے کے لائق ہوں؟‘‘
’’ اس شوریٰ میں یوتھ فیڈریشن کا رول بھی زیر بحث آیا اور اس پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی کہ جماعت کو نوجوانوں کے لیے ایک تنظیم قائم کرنی چاہیے۔ اس کے لیے وہاں موجود کسی نے میرا نام پیش کیا اور بتایا کہ محمد اشرف صحرائی نوجوانوں کے ساتھ مل جل کر کام کرتے رہتے ہیں۔ میں اجلاس کی کارروائی لکھ رہا تھا۔ جب یہ فیصلہ ہوا کہ صحرائی صاحب نوجوانوں کو منظم کریں گے۔ اس کے بعد اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ اس تنظیم کا کیا نام رکھا جائے؟ وہاں پر موجودا رکانِ شوریٰ نے مختلف نام تجویز کیے۔میں نے اپنی رائے یہ پیش کی کہ جب سید مودودی نے پاکستان میں ۸۴۹۱ء میں طلبہ تنظیم قائم کی تو انھوں نے اس کانام ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ رکھا تھا کیوں نہ ہم بھی اسی مناسبت سے اس کا نام ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ ہی رکھیں۔شوریٰ میں امیر جماعت سمیت تمام لوگ اس نام پر متفق ہوئے اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے لیے جماعت نے مجھے تنظیمی ذمہ داریوں سے فارغ کیا۔ اس کے بعد میں نے ۷۷۹۱ء میں جمعیت کے لیے کام کا آغاز کیا۔ اس وقت میری عمر تقریباً ۲۳ یا ۳۳سال تھی اور ساتھ ہی اس کے لیے ایک دفتر کا بھی انتظام کیا‘‘۔(یہ انٹرویو ۴۱۰۲ء میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے )۔
بہرکیف، اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے پہلے ناظم اعلیٰ محترم مرحوم صحرائی صاحب مقرر ہوئے۔اس کے بعد موصوف نے جموں وکشمیر میں طلبہ میں دعوت کا کام شروع کر دیا۔ انفرادی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ مختصر فولڈر اور لٹریچر کو یہاں کے تعلیمی اداروں تک پہنچایا۔ عوامی اجتماعات بھی منعقد کرائے جن میں سے ۵۱اور۶۱ جولائی ۸۷۹۱ء کو جمعیت کا دو روزہ اجتماع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس اجتماع میں محترم شیخ تجمل الاسلام نے جو کہ اْس وقت معتمد عام (سیکرٹری جنرل) تھے، مذکورہ اجتماع میں ڈائس انچارچ کے فرائض انجام دیے۔یہ دو روزہ اجتماع سرینگر کی گول مارکیٹ میں منعقد ہوا۔ اس طرح سے محترم صحرائی صاحب نے اپنی جوانی کے دنوں کو بھی تحریکی کام کے لیے وقف کر دیا۔ وہ پہلی بار ۵۶۹۱ء میں گرفتار ہوئے ، تب آپ کی عمر محض ۱۲ سال تھی۔
موئے مقدس کی گمشدگی کے متعلق کشمیر میں زوردار احتجاجی تحریک برپا تھی۔ احتجاجیوں کا مطالبہ تھا کہ موئے مقدس کو بازیاب کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید کردیا۔ اس ظلم کے خلاف ردعمل میں محترم صحرائی صاحب نے بارہمولہ پٹن کی ایک مسجد میں جمعہ کے موقع پر ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے حکومتِ وقت کو للکارا اور اْن کی جمہوریت کے کھوکھلے دعوئوں کا پول کھول کے رکھ دیا۔ اس بیان کے اگلے دن ۱۲سال کی عمر میں انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ جہاں قیدِ تنہائی کے ایام موصوف نے وہاں ملنے والی ایک کتاب زرِ گْل پڑھنے میں گزارے۔ وہ اتنی بار پڑھی کہ ذہن میں محفوظ ہو گئی۔
تقریر کے ساتھ ساتھ موصوف تحریر کے جوہر بھی دکھاتے رہے جس کی ایک کڑی کے طور پر ۹۶۹۱ء میں طلوع کے نام سے جماعت کی مدد سے ایک رسالہ شائع کیا۔اس میں بڑی ہی بے باکی سے کفر اور سامراجی طاقتوں کو آئینہ دکھاتے رہے اور ساتھ ہی جمہوریت کے حقیقی معنوں سے بھی عوام الناس کو آشنا کرتے رہے۔ لیکن اس کا انجام اس رسالے پر حکومت کی طرف سے پابندی کی صورت میں ہوا۔
صحرائی صاحب کی زندگی میں نشیب و فرازآتے رہے لیکن راہ عزیمت سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ تحریک اسلامی کے ہمراہ مقصد کی لگن اور اسلام کی اقامت کے لیے جدوجہد کے لیے مرمٹنے کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے صحرائی صاحب کو جماعت میں سب سے پہلے بانڈی پورہ، کپواڑہ اور بارہمولہ (اْس دور میں یہ تینوں اضلاع ایک ضلع تھا اور آج الگ الگ ہیں) کے امیر ضلع کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کے بعد مرکز جماعت میں شعبہ سیاسیات کا سربراہ اور پھر نائب امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کی ذمہ داریاں سپرد کی گئیں۔ ان فرائض کو انجام دینے میں کسی سْستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ غرض صحرائی صاحب اپنی ذات میں ایک تحریک تھے، صحرائی ایک نظریہ اور فکر کا نام ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو بھی مذاحمتی تحریک کے نام وقف کر دیا تھا۔
ایک مرحلے پر جماعت اسلامی جموں وکشمیر کو محسوس ہوا کہ مزاحمتی تحریک کے لیے جماعت اسلامی سے الگ نظم، عمل میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے صحرائی صاحب اور سیّد علی گیلانی صاحب کا رول انتہائی اہم تھا۔۴۰۰۲ء میں تحریک حْریت کا وجود عمل میں لایا گیا۔جہاں سے گیلانی صاحب اور صحرائی صاحب نے مزاحمتی تحریک کو رواں دواں کیا۔ اس مذاحمتی جدوجہد کے دوران محترم صحرائی صاحب نے مسئلہ کشمیر کے متعلق وہی موقف اختیار کیا، جو عام کشمیریوں کا ہے۔
صحرائی صاحب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اہلِ کشمیر کے حق خود ارادیت پر زور دیتے تھے۔ حکومت کو بھی بار بار کہتے آ رہے تھے کہ فوجی طاقت کے ذریعے آپ کشمیریوں کے نہ دل جیت پائیں گے اور نہ کشمیر کو۔ لہٰذا بھارت کو چاہیے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو پْر امن طریقے سے حل کرنے میں پہل کرے تا کہ دونوں اطراف سے انسانی جانوں کازیاں نہ ہو اور عوام پْر امن زندگی گْزار سکیں۔لیکن ہم سب یہ دیکھ چْکے ہیں کہ بھارتی حکومتوں کی طرف سے اس مسئلے کو طول دینے کے نتائج کتنی خطرناک شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد بندوق کی طرف راغب ہورہی ہے اور گھروں کے گھر اْجڑ رہے ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور بزرگ والدین اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو کھو رہے ہیں۔ بستیوں کی بستیاں ویران اور قبرستان آباد ہو رہے ہیں۔
۸۱۰۲ء میں محترم صحرائی صاحب کے فرزند جنید صحرائی نے بھی کشمیری عوام کی مظلومیت کے حق میں بندوق اْٹھائی۔ جنید کے بندوق اْٹھانے کے بعد ایک مقامی صحافی نے محترم اشرف صاحب سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ اپنے بیٹے کو بندوق چھوڑ کے گھر آنے کی اپیل نہیں کر سکتے؟‘‘ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’میں کیوں اپیل کروں گا، کیامیں بے ضمیر ہوں؟ کیا شیخ محمد عبداللہ ہوں؟ میں بخشی ہوں؟ میں قاسم ہوں؟میں غلام رسول کار بھی تو نہیں ہوں۔ میں خدا کا وہ بندہ ہوں جس کی رگ رگ میں آزادی کی تڑپ موجود ہے‘‘۔ اس سے موصوف کی اپنے مقصدکے ساتھ کمٹ منٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اْن کی وفات کے بعد اْن کے بیٹے مجاہد صحرائی نے میڈیا کے ایک نمایندے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے والد صاحب نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی کہ آپ سودی کاروبار یا سود کھانے سے وابستہ نہیں ہوں گے او ر آپ کو سرکاری نوکری نہیں کرنی۔ اس لیے کہ اگر آپ سرکارکے ملازم ہوں گے تو مجھے آپ کے بدلے ہر جگہ سر جھکانا پڑے گا‘‘۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنید صحرائی ۹۱ مئی ۹۱۰۲ء کے دن سرینگر میں ایک خونیں معرکے میں جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے کے بعد جنید صحرائی کی میت بھی دیگر عسکریت پسندوں کی لاشوں کی طرح اْن کے لواحقین کو نہیں دی گئی، بلکہ جنیدشہید کو اپنے گھر سے دور پہلگام میںدفنا دیا گیا۔ تعزیت پر آنے والوں کی ایک بھیڑ میں فون پر کسی عزیز کے ساتھ محترم صحرائی صاحب مرحوم اپنے بیٹے کی شہادت کو علامہ شبلی نعمانی کے ان اشعار کے ساتھ بیان کر رہے تھے کہ :
عجم کی مدح کی ،عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے یوں چندے مقیم استانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
یہ الفاظ ۹۱مارچ ۸۱۰۲ء کو تحریک ِ حْریت کے مقرر ہونے والے چیئرمین محمد اشرف صحرائی جیسے عظیم انسان کی زبان سے ہی نکل سکتے ہیں۔ابھی لوگ محترم صحرائی صاحب کے بیٹے کی تعزیت کے لیے آرہے تھے کہ انتظامیہ نے امن و امان کا مسئلہ بتاتے ہوئے ۸۷ سالہ بزرگ جو کہ مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے کو جموں کی ایک جیل میں ’پبلک سیفٹی ایکٹ‘ کے تحت پابند سلاسل کر دیا۔
صحرائی صاحب پہلے سے ہی کافی علیل تھے۔ اس کے باوجود اْنھیں جموں کی جیل میں رکھا گیا۔ ایک نیوز پورٹل کے ساتھ موصوف کے فرزند نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ہمیں ہر ہفتے دومرتبہ فون کیا کرتے تھے لیکن گذشتہ دس دنوں سے کوئی فون نہیں آیا۔ آخری مرتبہ جب بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ صحت ٹھیک نہیں ہے۔دراصل یہ مجھے یہاں مارنے کے لیے لائے ہیں‘‘۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق محترم صحرائی صاحب کی صحت اچانک بگڑ گئی، جس کے سبب اْنھیں جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں علاج کے لیے لایا ہی گیا تھا کہ جہاں وہ اپنے اہل خانہ سے دْور، داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انتظامیہ نے انھیں سرینگر کے مزار شہداء میں دفنانے کی اجازت نہ دی۔جس کی وجہ سے اْن کو اپنے ا?بائی گائوں ٹکی پورہ لولاب، کپواڑہ میں اپنے مختصر اہلِ خانہ کی موجودگی میں سپردِ خاک کیا گیا۔
ابھی صحرائی صاحب کی جدائی کے غم میں ہی اہل خانہ نڈھال تھے کہ مرحوم کے دوبیٹوں کو ’غیر قانونی سرگرمیاںکے ایکٹ‘( UAPA)قانون کے تحت یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا کہ ’’انہوں نے صحرائی صاحب کے جنازے کے دوران غیر قانونی اور ملک دشمن نعرہ بازی کی ہے‘‘۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق: ’’۵ مئی ۱۲۰۲ء کو محمد اشرف صحرائی کے دونوں بیٹوں، مجاہدصحرائی اور راشد صحرائی کو اپنے گھر واقعہ برزلہ، سرینگر سے گرفتار کر کے کپواڑہ منتقل کر کے داخل زنداںکیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں جنازے میں موجود۰۲ افراد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔غرض یہ کہ صحرائی صاحب کی وفات کے بعد بھی اْن کے گھر سے قربانیوں اور عزیمت کی لازوال داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔نہیں معلوم کہ نہ جھکنے اور نہ بکنے والے اس مرد مجاہد کے اہل خانہ کو ابھی آزمائشوں کے کن کن مراحل سے گْزرنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم صحرائی صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما ئے اور اْن کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!