|

وقتِ اشاعت :   August 12 – 2021

سردار حمیداللہ سے میری پہلی ملاقات 2003ء میں کراچی میں الہٰی بلوچ کے گھر بادبان D.H.A میں ہوئی، سردار کے ساتھ بھی دوست واحباب تھے، پہلی ملاقات میں سردار حمیداللہ سے ایسی قربت بڑھی کہ اسی دن سے لیکر آخرتک ایک دوستانہ تعلق رہا۔ میں نے ڈی ایچ اے صباء کمرشل میں اپنا آفس 2003میں تیارکیا توسردار حمیداللہ سے درخواست کی کہ آپ آئیں اس کا افتتاح کریں تو سردار صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ آئے،الہٰی بلوچ، عاشق جاموٹ، سردار ظفرگچکی، حفیظ ہوت اوربھی بہت سے دوست واحباب تھے توسردارصاحب نے ازراہ مذاق کہاکہ فداحسین میں افتتاح کررہاہوں اللہ تعالیٰ آپ کوکامیاب کرے اگر کاروبارنہیں چلا تومجھ پر ناراض نہ ہوں کہ سردار نے افتتاح کیا، کاروبارنہیں چل رہا۔میں نے کہاکہ انشاء اللہ برکت ہوگا، اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت کامیاب کیا جب بھی ہم ملتے توسردار صاحب پوچھتے، میں کہتا کہ اللہ کاکرم ہے۔

سردار صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی،مل بیٹھتے تو سیاست پر ضرور بات ہوتی وہ اپنے خیالات کااظہارکرتے، ان کومکران پاکستان اورمکران ایران کے لوگوں کے ساتھ ایک محبت تھی وہ ایک پرامن سیاسی جدوجہد کے قائل تھے، بلوچستان کی صورتحال پر بہت پریشان تھے وہ اکثرتربت گوادریاکراچی آتے توہمارے ساتھ ضرور ملتے، ان کی وجہ سے خلیل درخشان، واجہ رستم بلوچ اوربہت سے دوستوں سے ملاقاتیں ہوتیں، میر حاصل خان بزنجو کے ساتھ ساتھ ان کی رشتہ داری تھی، ان کے ساتھ بہت محفل ہوجاتا، سیاست اور علاقائی مسائل پر بات چیت ہوتی، سردار کو شاعری کابڑا ذوق تھا، خودبھی شاعری پڑھتے تو ظہورشاہ ہاشمی کو زیادہ ترجیح دیتے، سردار سے عمان میں ملاقات ہوئی، جاوید رند کی صاحبزادی کی شادی تھی، سردار بولا آج کل مجھے پاکستان والے اجازت نہیں دے رہے کہ آپ وہاں بلوچ آزادی پسندوں کو مددکررہے ہیں، بس ابھی آپ لوگ ایران آئیں توملاقاتیں ہوں گی۔

سردار حمید اللہ سے ہروقت فون یا واٹس ایپ پر رابطہ ہوتا، ہر صبح ان کا سلام آتا، مجھے جنوری2020 ء میں شے ابراہیم کی وفات پر فاتحہ پر جانا تھا تو سردار حمید اللہ کومیں نے بتایا کہ میں آرہاہوں، سردار صاحب نے بارڈر پر سارا انتظام کیاتھا، حاجی شوکت دشتی، حاجی محمدبخش نگور والے کے علاوہ میرے 2بیٹے شافین دشتی اور شاہ میردشتی بھی ساتھ تھے، گوادرمیں انیس گورگیج نے ہمیں راہداری جاری کئے، ہم 1بجے بارڈرپر پہنچے، پاکستانی بارڈرکراس کیا وہاں اسلم نام کا بندہ ہمارے انتظارمیں ویگو گاڑی میں کھڑاتھا انہوں نے کہاکہ شئے عبدالکریم دلگان میں آپ لوگوں کا انتظارکررہے ہیں ہم روانہ ہوئے، دلگان پہنچے میں نے ہروقت شئے صاحبان سے دلگان کانام سنا تھالیکن میں نے دیکھانہیں تھا۔ وہاں پہنچے پہلے مسجد میں نمازپڑھا، پھر شئے عبدالکریم کے پاس گئے وہاں فاتحہ پڑھا، حال احوال ہوا، پھرکھانے کا تیاری ہوا، ایران میں پہلے فروٹ کھلاتے ہیں پھرکھانا دیتے ہیں۔


ہم نے کھانا کھایا، واجہ شئے عبدالکریم سے اجازت مانگی کہ شئے ہم رات سردار حمید اللہ کے مہمان ہیں۔ واجہ نے کہاکہ آج آپ جائیں لیکن واپسی میں ایک رات آجاؤ، ہم نے خداحافظ کیا اور روانہ ہوئے، چاہ بہار کیلئے، ہم وہاں پہنچے سردارنے اللہ بخش جدگال کے گھرمیں انتظام کیاتھا وہ چاہ بہارپورٹ کے اوپر والے فری زون میں تھا بہت خوبصورت نیابنگلہ تھا ہم وہاں پہنچے فروٹ اورچائے سے خدمت کی گئی، رات کو سردار صاحب، رستم خان، عبدالمالک، اللہ بخش جدگا ل اور ایک دو دوستوں کے ساتھ آیا۔ حال احوال ہوا، سردار صاحب نے میر حاصل خان بزنجو کی صحت کے بارے میں دریافت کیا میں نے تمام رپورٹ بتایا، پھر سردار صاحب نے اللہ بخش کوبولا کہ اپنے بیٹے کوبلائے،فداحسین کے بیٹوں کو چاہ بہار گھمائے وہ آگئے، شافین اور شامیر ان کے ساتھ گئے، ہم رات لیٹ تک بیٹھے حال احوال اور سیاست ہوا۔ ایران میں الیکشن ہورہے تھے، سردار صاحب نے معین جان کو امیدوار کیاتھا لیکن ایران میں ایک طریقہ کارتھا کہ ایک دفعہ تہران سے امیدوار کا اپروول آتاہے پھر حصہ لے سکتاہے، سردار صاحب نے ورک شروع کیاتھا وہ دن کو الیکشن مہم میں جاتے، شام کوہمارے پاس، عبدالمالک کو ذمہ داری دی اس نے ہمیں چاہ بہار گھمایا، چاہ بہارمیں اکثرکاروبار بلوچوں کے پاس تھی، فری زون میں بھی دوکانوں میں بلوچ عورتیں بھی دوکان چلا رہی تھیں، ایرانیوں کی بھی بہت سی دوکانیں اور شاپنگ مال تھے، پشتون بھی تھے، زیادہ کپڑے کی مارکیٹ میں ان کے بھی بڑے دوکان تھے، ہم نے وہ پورٹ دیکھا جہاں انڈین کام کررہے تھے۔ ایک دن رستم خان نے دعوت دی، دن کے کھانے کیلئے ہم وہاں گئے، ساتھ میں سردار حمیداللہ کاگھر بن رہاتھا وہ دیکھا اس میں کام بہت تھا، تقریباً 6مہینہ کاکام تھا، ہم رستم کے گھرپہنچے پہلے وہاں اسماعیل بھی بیٹھاتھا سردارصاحب معین جان اورتمام دوست آگئے۔ گپ شپ شروع ہوئی،رستم نے کہاکہ فداحسین آپ بھی یونیورسٹی میں ہمارے ساتھ تھے تو سردار حمید اللہ نے کہاکہ نہیں فداحسین چھوٹے ہیں ہم لوگ سنیئرہیں کیونکہ سردار اوررستم بھی میر حاصل خان کے ساتھ پڑھے ہیں۔


ایران کے حالات پر سیاست شروع ہوئی، اسی دن قاسم سلیمانی کا بغداد میں واقعہ ہواتھا اس کی میت ایران لارہے تھے، حالات خراب تھے، میں نے سردارکوکہاکہ آپ لوگوں کے ساتھ رہ کربڑا مزا آیا لیکن ہم کل پاکستان جائیں گے، حالات کاکوئی بھروسہ نہیں، امریکہ بھی دھمکی دے رہاتھا، سردار حمیداللہ نے کہاکہ نہیں رکو کچھ دن، میں نے کہاکہ آپ لوگ بھی الیکشن مہم میں مصروف ہیں انشاء اللہ پھر آئیں گے انہوں نے اسلم کوکہہ دیا، پھر رات کو دیوان ہوا میں نے شئے عبدالکریم سے بھی اجازت لی، صبح اسلم لیٹ ہوا ہم نے فون کیا وہ11بجے آیا ہم جلدی بارڈر روانہ ہوائے، دو گھنٹے میں پہنچ گئے وہاں سے بارڈر کراس کیا، پھر گوادر آئے وہاں ایران میں الیکشن ہوئے، سردار حمید اللہ کابھتیجا معین جان جیت گیا ایک قومی اسمبلی والا سیٹ ناصر جیتا، سردار سے بات ہوئی وہ بہت خوش تھے کہ31سال بعد پھرہم عوام کی خدمت کیلئے سلیکٹ ہوئے ہیں وہ بہت خوش تھے، کچھ دن بعد کرونا بیماری شروع ہوئی، سردار صاحب مجھے روزانہ واٹس ایپ پر صبح کا سلام بھیجتے میں جواب دیتا اچانک میسیج بند ہوئے تومیں نے خلیل سے حال احوال کیا انہوں نے کہاکہ سردار صاحب کوکرونا ہواہے ہم تہران جارہے ہیں پھر ہرایک دوروز میں خلیل سے حال احوال کرتا گیا وہ ہسپتال میں وینٹی لیٹرپر تھے، درمیان میں انہوں نے کہاکہ گھرآگئے ہیں طبعیت صحیح ہے لیکن اچانک پھر طبیعت بگڑ گیا انہیں کسی اورہسپتال میں لے گئے ہیں، پھر10اگست رات ایک بجے مجھے انور کوتوال کا فون آیا کہ سردار حمیداللہ ہم سے جداہوگئے ہیں وہ فوت ہوگئے ہیں مجھے بہت افسوس ہوا کہ ہم سے ایک بہادر وطن دوست قوم دوست جدا ہوگی۔


ہم سردار صاحب کے جنازہ وتدفین اورآخری دیدار کیلئے فوری طورپر ایران روانہ ہوگئے ہم جب عیدگاہ کے قریب پہنچے وہاں گاڑیوں کی قطاریں دیکھ کرمیں خود حیران ہوگیا، پھرہم نے گاڑی کھڑی کی اندرداخل ہوئے بہت رش تھا، ایران بلوچستان پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگ آئے تھے، ہم آگے کی طرف گئے وہاں لوگ تقریر کررہے تھے، غفور ہوت نے بھی تقریر کی، معین جان سمیت ایران سے مختلف لوگوں نے فارسی میں بھی تقریر کی، سردار حمید اللہ کوخراج عقیدت پیش کررہے تھے، ان کی جدوجہد کو سلام پیش کیا، ممتاز عالم دین زاہدان سے آئے تھے انہوں نے بھی تقریرکی، نمازجنازہ 6بجے پڑھایا گیا، ہرطرف لوگ ہی لوگ تھے، پھر ان کی میت قبرستان کی طرف لے جائی گئی جہاں انہیں سپردخاک کیاگیا ایک بہت بڑی ہستی کا سفریہیں سے ختم ہوا، وہ ایک مشن کے پیروکار تھے، ان کے مشن کو آگے لے جانا ہوگا۔