کسان کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کی ترقی میں ان کا کلیدی کردار ہے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے زراعت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو صوبے کے ذرائع معاش کا نصف سے زیادہ حصہ زراعت سے چلتا ہے لوگوں کی بڑی تعداد کا روزگار اسی سے وابستہ ہے۔المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں پانی بحران اور بجلی جیسے مسائل نے اس شعبے کو بہت زیادہ متاثر کرکے رکھ دیا ہے جو پیداواری قوت ہے ان بحرانات کی وجہ سے بری طرح متاثر ہے۔ اس وقت بھی زمینداروں کو پانی اور بجلی جیسے سنگین بحرانات کا سامنا ہے جس سے ان کی فصلیں متاثر ہورہی ہیں اگر ان دونوں مسائل کو حل کیاجائے تو کسی حد تک کسان بہتر فصلیں کاشت کرسکتے ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک شمار ہوتا ہے اس لئے اس شعبہ پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔گزشتہ روزوزیراعظم عمران خان نے بہاولپور میں کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 84لاکھ کسان ہیں جو ہمارا اثاثہ ہیں۔ کسانوں کی مدد کرنے سے پاکستان ترقی کرے گا۔ جاگیر داروں نے ملک تباہ کر دیا، شہر میں رہنے والے کسانوں اور جاگیرداروں میں فرق نہیں کر سکتے۔کسانوں کو مقررہ نرخ سے کم پیسے ملتے تھے۔ ہم نے گنے کی بروقت کرشنگ سے متعلق قانون پاس کرایا۔ملکی آبادی 4کروڑ سے ساڑھے 22کروڑ ہو چکی ہے لیکن آبادی کے تناسب سے پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا۔زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے تحقیق بہت ضروری ہے۔وزیراعظم نے بتایا کہ ہم اس وقت 40لاکھ ٹن گندم درآمد کر رہے ہیں۔ اس سال ہم نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ اناج درآمد کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسان کارڈ کے ذریعے کسانوں کوبراہ راست سبسڈی دیں گے۔ دنیا زراعت میں ترقی کر کے آگے بڑھی۔
کسانوں کوبجلی، ٹیوب ویل اور کھاد میں سبسڈی دیں گے۔ اس سال کے آخر تک پنجاب میں بھی ہیلتھ کارڈ فراہم کریں گے۔ پنجاب میں کسان کارڈ اور ہیلتھ کارڈ کی تقسیم ٹرننگ پوائنٹ ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے دور میں سب سے زیادہ بہتری محنت کش کسانوں کیلئے آئی۔ پاکستان میں موٹرسائیکل فروخت کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ موٹرسائیکل زیادہ فروخت ہونے کا مطلب دیہات میں زیادہ پیسہ جانا ہے۔عمران خان نے کہا کہ مشکل وقت گزر گیا اب ملک کو آگے لے کر جائیں گے۔وزیراعظم عمران خان کو بلوچستان میں بھی زراعت سے وابستہ افراد خاص کر کسانوں اور زمینداروں کو سہولیات فراہم کرنے پر توجہ دینا چائیے۔ جس طرح پانی اور بجلی کا ذکرکیا گیا اس عمل کو ضروری بنایاجائے تو بلوچستان میں پیداواری صلاحیت بڑھ سکتی ہے۔
جبکہ دیگر ضروریات کوپورا کرنے سے بلوچستان زراعت کے ذریعے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ضرورت ہے صرف ان مسائل کو حل کرنے کی جس کیلئے آئے روز زمیندار طبقہ سڑکوں پر احتجاج کرتا ہے کیونکہ پیداواری عمل بہت زیادہ متاثر ہوکر رہ گیا ہے۔ بلوچستان میں جو فروٹ اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں ان کی پیداوار بہت کم ہو گئی ہے لہٰذا بلوچستان کے کسانوں اور زمینداروں کو ترجیح دیتے ہوئے ان کیلئے خصوصی پیکج کا اعلان کیاجائے تاکہ بلوچستان میں زرعی شعبہ زوال کی بجائے ترقی کی جانب گامزن ہوسکے اور لوگوں کی معاشی زندگی میں تبدیلی آسکے۔ امید ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان بلوچستان کے زمینداروں کے مسائل پر غور کرتے ہوئے انہیں ہر قسم کی ریلیف فراہم کرنے کیلئے صوبائی حکومت کے ساتھ ملکر منصوبہ بندی کرینگے۔