قارئین کرام۔ایک رپورٹ پہ نظر پڑی جس میں ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد طلباء اور طالبات آئس نامی نشے کی لت میں پڑ چکے ہیں میں حیران تھا کہ کیا یہ واقعی سچ ہے یا جھوٹ۔ جب میں نے مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ واقعی یہ بات سچ ہے۔ پھر ایک دوست سے پوچھا کہ یہ آئس ہوتا کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ آئس نشہ ’میتھ ایمفٹامین‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔
یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر کرسٹل جیسی ایک سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے عام طور پر بلب (انرجی سیور) کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے انجیکشن کے ذریعے بھی جسم میں اتارا جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آئس کا نشہ کرنے کے بعد انسان کی توانائی وقتی طور پردو گنی ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے۔ اس دوران انسان چاک وچوبند رہتا ہے مگر نشہ اترنے کے بعد زیادہ نیند اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔طالب علم امتحانات کی تیاری کے دنوں میں جاگنے کی نیت سے اس نشے کا آغاز کرتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ اس کے عادی بن جاتے ہیں۔اس نشے میں انسان کا حافظہ انتہائی تیز ہوجاتا ہے اور اس میں بے پناہ توانائی آجاتی ہے اور وہ دو اور تین تین دنوں تک جاگ سکتا ہے۔
لیکن اس نشے کے عادی افراد کئی سال تک آئس کا نشہ کرنے کی وجہ سے پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی انھیں مارنے کے لیے سازش کررہا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس نشے کی وجہ سے انسان منہ کے کینسر اور فالج کے اٹیک کا نشانہ بنتا ہے۔ بس یہی کہوں گا کہ خود کو اپنے ہاتوں برباد نا کریں۔ کہیں ایسا نا ہو کہ آپ عبرت کا نشان بن جائیں کیونکہ یہ ایک ایسی نشہ اور عادت ہے جو انسانی روپ کو بگاڑ کر چھوڑ دیتاہے۔آئس (ICE)۔ ہیروئن ٹیکہ اور پوڈر سے بھی ہزار گنا زیادہ خطرناک اور تباہ کن نشہ ہے۔ اگر یہ جمی ہوئی برف کے چھوٹے ٹکڑوں کی طرح ہو تو اسے کرسٹل میتھ یا آئس ( ICE ) کہتے ہیں۔
اور اگر پاؤڈر کی شکل میں ہو تو اسے سپیڈ ( Speed ) کہتے ہیں۔
اس بدبخت نشے کو استعمال کرنے والا شخص پہلے دن سے ہی اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ایک دفعہ استعمال کرنے کا اثر بارہ گھنٹے تک رہتا ہے۔اور استعمال کرنے والا نشئی تین سے چار دن تک جاگ سکتا ہے۔آئس ( ICE ) کا نشہ استعمال کرنے والے شخص کی بقیہ عمر چھ مہینے سے ایک سال تک رہ جاتی ہے۔ہم سپریم کورٹ آف پاکستان۔ پرائم منسٹر آف پاکستان۔ سے ہاتھ جوڑ کر التماس کرتے ہے کہ ہمارے ملک کو بچائیں۔ آئس ( ICE ) جیسے خطرناک نشے کی سمگلنگ کرنے والے تمام سمگلرز کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے۔ اور ان آئس ( ICE ) موت سمگل کرنے والے تمام موت کے سوداگروں کے خلاف پھانسی کے آرڈر جاری کیے جائیں۔افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ یہاں جب بھی کسی شئے پر پابندی عائد ہوتی ہے تو یہی شئے قانونی اداروں کی اور ہمارے بڑے سے بڑے اشخاص کی توجہ کا مرکز بن جاتاہے۔
اگر ہمارے قانونی ادارے ایمانداری سے کام کریں تو ایک ہی مہینے میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن ہمارے ملک کے ادارے پابندیاں تو عائد کرسکتے ہیں عمل درآمد نہیں کرسکتے۔اسکی واضح مثال ایک یہ ہے کہ غیرملکی اشخاص کو اپنے ملک کے اسناد اور دستاویزات بنا کر دینا قانونی جرم ہے لیکن پاکستان میں پیسوں کیلئے یہ کام ادارے بشمول ایجنٹس کھلم کھلا کرتے ہیں۔ منشیات جیسی ناسور کامواد لانا قانوناً جرم ہے مگر پاکستان میںآسانی سے سب کچھ آجاتا ہے اور سر عام بکتا بھی ہے۔آج تک پاکستان میں خطرناک اور غیرقانونی اسمگلرز کو سزائے موت یا پھانسی نہیں دی گئی ہے۔ہمارے ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ پیسوں کی خاطر قانون کو پاؤں کے تلے روندھتے ہیں۔ جن اشیاء پر پابندی ہے وہ اسمگلرز کی توسط سے قانونی ادارے والے خود دولت بٹورنے کی خاطر ملک میں لاتے ہیں۔یہی وجوہات ہیں کہ آج پاکستان میں عدل انصاف، تجارت، تعلیم ،صحت ،معیشت ،اقتصاد اور امن وامان کا جو فقدان ہے یہ سب غیرقانونی تجارت اور سرگرمیوں کا کھلم کھلا ثبوت ہے اور اداروں کی ناقص کارکردگی کا نتیجہ ہے۔