|

وقتِ اشاعت :   August 15 – 2021

بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں جاگیردارانہ نظام اور حکومتی ریشہ دوانیوں کے خلاف کسانوں کی تحریک ایک مرتبہ پھر متحرک ہوگئی ہے۔ پٹ فیڈر کینال سے پانی کی مصنوعی قلت اور چوری کے خلاف نیشنل پارٹی کی کال پر آل پارٹیز الائنس اور کسانوں نے احتجاج کیا۔ پٹ فیڈر کے پورے علاقے کے کسانوں کو ایک بار پھر سزا دی جارہی ہے۔ وہ اپنی زمینیں چھوڑیں یا اونے پونے داموں فروخت کردیں اور یہاں سے بھاگ جائیں۔ ان کا پانی بندکردیاگیاہے۔ کسان مرکز سے اپنے پانی کا حصہ مانگ رہے ہیں اور سندھ پر بھی الزام لگارہے ہیں کہ سندھ کے حدود میں ان کا پانی چوری ہورہا ہے۔

پٹ فیڈر کینال نصیر آباد ڈویژن کے تین اضلاع کو پانی دیتا ہے۔ جن میں جعفرآباد، نصیرآباد اور صحبت پور شامل ہیں۔ پٹ فیڈر کینال بنائی گئی تھی تووہ صرف اندرون علاقوں کے لئے بنائی گئی تھی۔لیکن بااثر زمیندار پانی بیرونی علاقوں میں سپلائی کر رہے ہیں۔ جن میں جھل مگسی وغیرہ شامل ہیں۔ بلوچستان کا واحد ڈویژن ہے جو دریائے سندھ کے نہری نظام سے جڑا ہوا ہے۔پٹ فیڈر کینال گڈو بیراج سے نکلتی ہے اور نصیرآباد کے اسی فیصد زرعی رقبے کو سیراب کرتی ہے۔ کیرتھر کینال سکھر بیراج سے نکلتی ہے اور جعفر آباد کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے لیکن اس کینال کا پانی بھی دیگر علاقوں میں لے جایا جارہا ہے۔ ان دونوں نہروں کے درمیان ربیع کینال بھی بہتی ہے جو سیزنل ہے۔تینوں نہروں کے پانی کی رسائی دس لاکھ ایکڑ تک ہے۔

پٹ فیڈر کسان تحریک مختلف ادوار میں مختلف قوتوں کے خلاف اٹھتی رہی۔ یہ ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ کبھی فوجی آمروں کے خلاف تو کبھی جاگیردارانہ نظام کے خلاف سراٹھاتی رہی۔ اس تحریک نے کسان کے اندر ایک انقلابی سوچ پیدا کردی اس سوچ نے جاگیردارانہ سماج کے ڈھانچے کو ہلاکر رکھ دیا۔ جاگیردار اور سرداروں نے اس تحریک کو قبائلی رنگ دینے کی کوشش کی۔ ایک خالصتاً معاشی مسئلے کو قبائلی جنگ میں تبدیل کردیا۔ معصوم کسانوں پر لشکر کشی کی گئی۔ بے گناہ کسان مارے گئے۔ یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں ہوتا رہا۔

جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں گڈو بیراج سے پٹ فیڈر کینال نکالی گئی۔یہ ون یونٹ کا دور تھا۔ اس کینال کوبنانے کا مقصد تھا کہ علاقے میں حاضراور ریٹائرڈ فوجیوں کو اراضی دی جائے۔ لاہور سے یہاں لوگوں کو لاکر بسانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ ان کو پٹ فیڈر کینال کے کنارے زمینیں الاٹ کی گئیں۔ اس عمل کے خلاف مقامی لوگوں نے آواز اٹھائی۔ اس زمانے میں مقامی افراد کو بگٹی اور مری قبائل نے مدد کی۔ علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا۔ حالات اتنے خراب ہوگئے کہ قابضین بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ملک میں زرعی اصلاحات کی گئیں۔

یہ اصلاحات کسی حد تک نصیر آباد ڈویژن میں کامیاب ہوگئیں۔ کیونکہ اس کے لیے پیپلز پارٹی کے بانی رہنما شیخ محمدرشید نے خود علاقے میں کیمپ لگایا تھا۔ جس کی وجہ سے مستحق کسانوں کو زمینیں واقعی الاٹ ہوگئی تھیں۔ اس عمل سے علاقے کے جاگیردار اور نواب خوش نہیں تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ہاریوں کو زمینیں ملیں اور وہ معاشی طورپر خود کفیل ہوں۔ تاہم وہ حکومت کے سامنے بے بس تھے۔

جیسے ہی 1977 میں جنرل محمدضیاء الحق کا مارشل لاء لگا۔ نصیر آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے میر ظفراللہ جمالی( سابق وزیراعظم پاکستان) ،تاج محمد جمالی (سابق وزیراعلیٰ بلوچستان) اور دیگر جاگیردار جنرل ضیاء الحق سے مل گئے۔ انہوں نے ضیاء الحق سے ایک ہی مطالبہ کیاکہ کسانوں کو جو اراضی بھٹو نے الاٹ کی وہ انہیں واپس کردیں۔ اس وقت ضیاء الحق امیرالمومنین بناہوا تھا۔ اس نے انتظامیہ کے ذریعے ان کی مدد کی اور کہا کہ کسانوں سے زمینیں جاکر واپس لے لو۔ میر ظفراللہ جمالی نے کسانوں کے خلاف لشکر کشی کی۔ پٹ فیڈر کینال جہاں سے شروع ہوتی ہے۔

وہاں سے کسانوں سے زمینیں خالی کرانا شروع کردی گئیں۔ بہت سے کسانوں نے بغیر مزاحمت کے زمینیں واپس کردیں۔ کیونکہ کسان اتنے بڑے جاگیرداروں اور سرداروں سے دشمنی مول لینے کے پوزیشن میں نہیں تھے۔ ان کے پیچھے فوجی حکمران تھے۔ لشکر کشی کرتے کرتے وہ ’’ ٹیپْل ڈیرہ‘‘ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پٹ فیڈر سے نکلنے والی قیدی شاخ پہنچے۔ واضح رہے کہ پٹ فیڈر کی آٹھ شاخیں ہیں جن میں قیدی شاخ بھی شامل ہے۔

اس کا نام قیدی شاخ اس لئے پڑا، کیونکہ یہ شاخ جیل کے قیدیوں سے کھدوائی گئی۔ اس قیدی شاخ کے مقام پر مختلف گاؤں آباد ہیں۔ جن میں موسیانی، لہڑی، رخشانی اور دیگر قبائل سے تعلق رکھنے والے کسان آباد ہیں۔ میر ظفر اللہ جمالی کی قیادت میں لشکر نے میرگل موسیانی گوٹھ کی پوری آبادی کو گھیرے میں لے لیا۔ اور خود ظفر اللہ جمالی اپنے پانچ محافظوں کے ساتھ گوٹھ والوں سے زمین خالی کرانے کے لئے گاؤں کے اندر پہنچ گئے۔

انہوں نے گاؤں والوں سے مطالبہ کیا کہ گاؤں خالی کریں۔ اور زرعی زمینیں ان کے حوالے کردیں۔ یہ 21 دسمبر 1978کے شام کی بات ہے۔ اس وقت سرسوں کی فصل لگی ہوئی تھی۔ کھیت صفائی کے لئے تیار تھے۔ فصل ایک طرح سے نقد چیزتھی۔ لشکر نے پورے علاقے کے سرسوں کی فصل پر قبضہ کرلیا۔ گاؤں والوں نے میر ظفر اللہ جمالی سے مخاطب ہوکرکہا کہ یہ زمینیں انہیں حکومت نے زرعی اصلاحات کے ذریعے دی ہیں۔ ان کے پاس لیزدستاویزات ہیں۔ آپ جاؤ پہلے حکومت سے زمینوں کی لیز کینسل کروائو۔ پھر ہم آپ کو قبضہ دیں گے ورنہ نہیں ۔ جب ظفر اللہ جمالی کو یہ جواب ملا وہ بڑا مشتعل ہوگیا اور کہا کہ زمینیں خالی کردو۔ گاؤں والوں نے کہا کہ ہم زمینیں خالی نہیں کریں گے۔ جس پر لشکر نے فائرنگ کی۔

گاؤں والے بھی پہلے سے تیار تھے۔ وہ اپنے گھروں کو مورچے بناچکے تھے۔ ان کو لشکر کی آنے کی پیشگی اطلاع تھی۔جبکہ آس پاس کے گاؤں کے لہڑی اور رخشانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے کسان بھی میرگل موسیانی گاؤں والوں کی مدد کے لئے آگئے۔ ظفر اللہ جمالی گائوںوالوں سے بات چیت کرنے کے لئے اپنے پانچ محافظوں کے ساتھ گاؤں کے اندر موجود تھے۔ اس طرح وہ گاؤں کے بیچ میں پھنس گیا کیونکہ گاؤں والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا، جبکہ جمالی کا لشکرگاؤں کے باہر مورچہ بند تھا اور اس نے پورے گاؤں کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔

اس طرح وہ ایک دوسرے کے گھیرے میں تھے اور دونوں طرف سے فائرنگ کا سلسلہ چلتا رہا۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ظفر اللہ جمالی نے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو مدد کے لئے طلب کیا تاکہ سرکاری طورپر ان کی مدد کی جاسکے۔ جب ڈی سی فورسز کے ہمراہ گاؤں پہنچے اور امن کا سفید جھنڈا لہرایا۔ ڈی سی نے ظفر اللہ جمالی کو ریسکیو کیا۔ جب ظفر اللہ جمالی گاؤں والوں کے نرغے سے آزاد ہوگیا تو ان کے لشکر نے کسانوں پر فائرنگ کردی۔ جس کے نتیجے میں پانچ کسان مارے گئے۔ جن میں چار لہڑی اور ایک رخشانی قبیلے سے تھا۔

شہید ہونے والے کسان ساتھ کے گاؤں میں رہتے تھے وہ میرگل موسیانی گاؤں کے کسانوں کی مدد کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ڈی سی کی موجودگی میں ان کسانوں کو مارا گیا۔ ڈی سی خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ میر گل موسیانی گاؤں میں ایک جمالی کسان بھی رہتا تھا۔ اس کا نام عبدالوہاب جمالی تھا۔ گاؤں والوں کی مدد کے لئے اپنے سردار میرظفراللہ جمالی کے محافظوں پر فائرنگ کردی۔ جس کے نتیجے میں میر ظفراللہ جمالی کا ایک محافظ ہلاک ہوگیا تھا۔

اس کے بعد گاؤں والے بہت مشتعل ہوگئے۔ کیونکہ ظفر اللہ جمالی نے ایک تو قبائلی رسوم و رواج کی خلاف ورزی کی اور دوسرا پانچ بے گناہ کسانوں کو شہید کردیا ۔ ڈی سی نے بجائے شہید ہونے والے کسانوں کا ایف آئی آر کا درج کرتا انہوں نے شہید ہونے والے کسانوں کے خاندانوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ اور کسانوں کی سرسوں کی فصل کو سرکاری تحویل میں لے لیا۔ ان کے کھیتوں پر لیویز تعینات کردیا گیا۔ کسانوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ ڈھائی سو کے قریب کسان گرفتار کرلیے گئے۔ اس واقعہ کے خلاف کچھ مقامی افراد نے کوئٹہ جاکر پریس کانفرنس کی۔

جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مرکزی رہنما صوفی عبدالخالق نے کمیونسٹ پارٹی سے درخواست کی کہ وہ کسانوں کے قتل خلاف تحریک چلائیں۔ کیونکہ میرظفر اللہ جمالی والے اس انسانی مسئلے کو قبائلی رنگ دے کر قبائلی فسادات کروائیں گے اور اس سے وہ ذاتی فائدے حاصل کرینگے۔ یہ وہ دور تھا جب حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔

پابندی کے باعث کمیونسٹوں نے ایک فرضی تنظیم کے نام سے سرگرم تھے۔ جس کا نام ’’ مزدور کسان طلبہ عوامی رابطہ کمیٹی ‘‘ رکھا گیا جس کا دفترکراچی کے علاقے شو مارکیٹ میں قائم تھا۔ کمیونسٹ پارٹی نے ایک وفد تشکیل دیا۔ جن میں ڈاکٹر عبدالجبار خٹک (موجودہ روزنامہ عوامی آواز کے چیف ایڈیٹر) کامریڈ رمضان میمن، (موجودہ نیشنل پارٹی کے سندھ کے مرکزی رہنما)، جاوید شکور، آصفہ رضوی (آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی بیوی) تھی۔

اس زمانے میں یہ تمام کمیونسٹ پارٹی، ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) اور سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایس این ایس ایف) کے رہنما تھے۔ وفد جائے وقوعہ پہنچنے سے قبل جیکب آباد میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کے رہنما امداد اوڈھو کے گھر پہنچے جہاں سے انہوں نے نصیر آباد جانے کا سارا بندوبست کیا۔ واضح رہے کہ آج کل امداد اوڈھو لندن سے وائس آف سندھ ریڈیو چلارہا ہے۔ جب گاؤں پہنچے تو گاؤں والے’’ لڈھ پلان‘‘ کررہے تھے۔

یعنی بلوچی روایات کے مطابق جب کسی سے بدلہ لینا ہوتا ہے تو اپنے علاقے سے چلے جاتے ہیں اور روپوش ہوجاتے ہیں۔ جبکہ روانگی سے قبل اپنے دشمن کو یہ بتاتے ہیں کہ وہ واپس آکر بدلہ لیں گے۔ جب وفد پہنچا کسان اپنا سامان باندھ رہے تھے۔ ان کے کچے گھر تھے۔ ان کوڈھا رہے تھے۔ گھر کا سامان باندھ رہے تھے۔ وفد نے پہلے ان سے تعزیت کی۔ متاثرین خاندان نے وفد کو بتایا کہ وہ جارہے ہیں۔ اب وہ جمالیوں سے بدلہ لیں گے۔

اس وقت کسان عبدالوہاب جمالی وہاں موجود تھے۔ جس نے اپنے سردار کے محافظوں پر فائرنگ کی تھی جس سے ایک محافظ مارا گیا تھا۔ وفد نے کہا کہ آپ کس سے بدلہ لیں گے؟۔ اگر ایسا ہوا تو یہ قبائلی جنگ ہوگی۔ جبکہ یہ مسئلہ قبائلی نہیں ہے۔ بلکہ طبقاتی ہے۔ جمالیوں نے آپ کے قبیلے پر حملہ نہیں کیا۔ انہوں نے پورے پٹ فیڈر کے کسانوں پر حملہ کیا۔ یہ جمالی (کسان، عبدالوہاب جمالی) ہمارے ساتھ موجود ہے۔ اس نے بھی تمھارا ساتھ دیا تھا اور اپنے سردار پر حملہ کیا تھا۔ وفد نے کہا کہ اگر جمالیوں سے بدلہ لو گے پھر ایسے معصوم لوگوں کو ماروگے جو آسانی سے آپ کے ہاتھ میں آجائیں گے۔

وفد نے کہا کہ اس کو (عبدالوہاب جمالی) مارو اور ایک خون کا حساب یہاں سے برابر کرو۔ یہ سن کر گاؤں والے شرمندہ ہوگئے۔ وفد نے گاؤں والوں کو جاگیرداروں کے خلاف تحریک چلانے پر راضی کروایا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ بھوک ہڑتال اور مظاہرے کریں گے۔ حکومت پر دباؤ ڈالیں گے۔ تاکہ انتظامیہ قاتلوں کو گرفتار کرے۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مسئلے کو ملک گیر سطح پر اٹھانا ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ یہاں کیا ہوا تھا۔ اس طرح کسانوں کا وفد کراچی لے کر آئے۔ اس وفد میں کسان عبدالوہاب جمالی بھی شامل تھا۔کیونکہ یہ خود جمالی تھا تاکہ تحریک قبائلی رنگ سے نکل کر طبقاتی تحریک میں تبدیل ہوسکے۔ اور جمالیوں کے نواب اور سردار اپنے اوچھے ہتھکنڈوں میں ناکام ہوجائیں۔

کراچی میں کسانوں کی پریس کانفرنسیں کروائی گئیں۔ مختلف یونینز کے دفاتر میں میٹنگز کروائیں۔ اس طرح اس واقعہ کو اجاگر کیا گیا۔ اس زمانے میں کراچی سے ایک مقبول رسالہ ’’معیار‘‘شائع ہوتا تھا۔ جس کو واحد بشیر، محمود شام اور ارشاد راؤ والے نکالتے تھے۔ اس رسالے نے اس واقعہ کو کور اسٹوری کے طورپر شائع کیا۔ اسی طرح دیگر اخبارات میں بھی خبریں چھپوائی گئیں۔ اس طرح حیدرآباد اور سکھر میں انہیں لے کر گئے۔ پورے سندھ میں اس واقعہ کو اجاگر کروایا گیا۔

یہ فیصلہ کیا گیا کہ پٹ فیڈر کے علاقے میں جاگیرداروں کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ اس فیصلے کے بعد کسانوں کو پہلے ان کے گاؤں روانہ کیا گیا اور کہا گیا کہ آپ وہاں جائیں اور بھوک ہڑتال اور مظاہرے کی تیاریاں شروع کریں۔ اس طرح وہ اپنے گاؤں چلے گئے۔ کمیونسٹ پارٹی نے تحریک کی قیادت کرنے کے لئے تین رکنی وفد تشکیل دیا جن میں کامریڈ رمضان میمن، غلام اکبر، عمر دین شامل تھے۔ اس بات کا خطرہ بھی تھا وفد کے تمام ارکان مارے بھی جا سکتے ہیں۔

کیونکہ یہ قبائلی علاقہ تھا۔ جب وفد ٹیپل ڈیرہ پہنچاتو پتہ چلا کہ کسانوں پر قبائلی سرداروں اور انتظامیہ کا دباؤ تھا۔ کسانوں کے وارنٹ گرفتاری نکالے گئے تھے۔ وہ روپوش ہوچکے تھے۔ صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وفد نے نصیرآباد میں پیپلزپارٹی اور جمیعت علمائے اسلام کے مقامی رہنماؤں کی مدد سے احتجاج کی تیاری شروع کردی۔ اس طرح روپوش کسان بھی وہاں پہنچ گئے۔ اس طرح پیدل مارچ کیا گیا۔ جس میں گاؤں کے گاؤں نے شرکت کی۔ 18 فروری 1978 کے دن بھوک ہڑتال کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ مظاہرین کے تین مطالبات تھے۔

کسانوں کی اراضی پر قبضہ ختم کیا جائے، تمام گرفتارافراد پر جھوٹے مقدمے واپس لئے جائیں اور تمام اسیران کو رہا کیا جائے۔ اور پانچ شہید کسانوں کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ وغیر وغیرہ شامل تھے۔ اس مہم کے دوران انتظامیہ کوڈھائی سو کے قریب گرفتار کسانوں کو رہا کرنا پڑا۔ 17 فروری کو ٹیپل ڈیرہ میں احتجاجی کمیپ کا انعقاد کیا گیا۔ جہاں لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ 18 فروری کے احتجاج کی تیاریاں چل رہی تھیں۔

اس دوران ضلعی انتظامیہ کے حکم پر لیویز فورس نے کیمپ پر دھاوا بول دیا۔ اور لاٹھی چارج کیا۔ کیمپ میں شریک کسان منتشر ہوگئے۔ کمیونسٹ پارٹی کے وفد سمیت آٹھ افراد کو گرفتار کرلیا۔ جن میں کامریڈ رمضان میمن، غلام اکبر، عمر دین، پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما پیربخش حامد، ڈاکٹر احمد حسین پندرانی، ملگزار ڈومکی، پیپلز کسان کمیٹی کے ہزار خان بنگلزئی، اور جمیعت علمائے اسلام کے غلام قادر مینگل شامل تھے۔

گرفتار شدہ رہنماؤں کو ٹیپل ڈیرہ کے لاک اپ میں بند کردیاگیا۔ دوسرے دن یعنی 18 فروری کو گرفتار رہنماؤں نے لاک اپ کے اندر بھوک ہڑتال شروع کردی۔ لاک اپ کے اندر نعرے بازی کرتے رہے۔ 18 فروری کو کسانوں نے شہر میں ریلیاں نکالیں اور لاک اپ کی طرف مارچ کیا۔ جس پر فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ کردی۔ تاہم مظاہرین منتشر نہیں ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنرکو مظاہرین سے مذاکرات کرنا پڑے۔ ڈی سی نے کسانوں سے کہا کہ وہ احتجاج نہ کریں ان کے تمام مطالبات تین دن کے اندر پورے کئے جائیں گے۔ جن میں قاتلوں کو گرفتار کریں گے۔

گرفتارشدگان کو رہا کریں گے۔ زرعی اراضی پر قبضے کا خاتمہ کریں گے۔ کسانوں کا ایک وفد ڈی سی کے ساتھ لاک اپ میں قید رہنماؤں کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنی بھوک ہڑتال بھی ختم کردیں۔ہمارے تمام مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ لاک میں قید رہنما بھوک ہڑتال ختم کرنے سے منکر ہوگئے۔ تاہم کسان وفد کی اصرارپر قیدیوں نے بھوک ہڑتال ختم کردی۔ اسی رات کو لاک اپ میں تمام قیدیوں کو سبی منتقل کردیا گیا۔ اور فوجی عدالت نے ان پربغاوت کے چارجز لگائے۔

انہیں مچھ جیل منتقل کردیا گیا۔ جہاں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین ایوب جتک اور بی ایس او کے مرکزی رہنما سلیم کرد نے تمام قیدیوں کو اپنے بیرک میں رکھا۔ ان کا خیال رکھا گیا۔ جبکہ کچھ مقامی رہنماؤں کو سبی جیل میں رکھا گیا۔ اس طرح آٹھ رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد تحریک دب گئی۔ تحریک کو دوبارہ متحرک کرنے کے لئے کمیونسٹ پارٹی نے کراچی سے دوسرا وفد ٹیپل ڈیرہ روانہ کردیا۔ وفد کی قیادت بائیں بازو کے طالبعلم رہنما شہید نذیر عباسی کی بیوہ حمیدہ گھانگرو کررہی تھی۔ اس زمانے میں نذیرعباسی قلی کیمپ کوئٹہ میں قیدوبند کی سزا کاٹ رہا تھا۔

اس وفد میں آصفہ رضوی بھی تھی۔ اس وقت آصفہ رضوی، مزدور کسان طلبہ عوامی رابطہ کمیٹی کی سیکریٹری تھی۔ جبکہ مزدور لیڈر الطاف احمد ،حیدرآباد سے پیر شہاب، محمد سلیم اور دیگر شامل تھے۔ وفد نے پٹ فیڈر میں جلسہ و جلوس کرکے تحریک کو دوبارہ متحرک کیا۔ دونوں لڑکیوں نے دھواں دھار تقاریر سے انتظامیہ کو ہلاکر رکھ دیا۔ انتظامیہ نے تمام رہنماؤں کو گرفتار کرکے مچھ جیل میں منتقل کردیا۔ ان کی گرفتاری سے تحریک ٹھپ ہوگئی۔

جس سے کسانوں میں مایوسی و بے چینی پھیل گئی۔ جب تحریک کو حکومتی مشینری کے ذریعے دبانے کے نتیجے میں شہید ہونے والے چار لہڑی کسانوں کے لواحقین نے قبائلی بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے کو خفیہ رکھا۔ تحریک میں شامل عام کسانوں سے اپنا فیصلہ چھپایا۔ وہ ضلع مستونگ میں دشت کے علاقے میں میں روپوش ہوگئے۔ پھر لہڑیوں نے کوئٹہ میں آکر چمن پھاٹک پر میر ظفراللہ جمالی کے بڑے کزن میر مراد جمالی کو فائر کرکے قتل کردیا۔

قتل کے بعد لہڑیوں نے اس بدلہ لینے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میرمراد جمالی کا قتل کیا ہے۔ اور کہا کہ یہ قتل ان کے چار کسان لہڑی کے خون کا بدلہ ہے۔ اس واقعہ نے بلوچستان سے لیکر اسلام آباد کو ہلاکر رکھ دیا۔ جنرل ضیاالحق کوئٹہ آیا۔ وہ جمالیوں سے تعزیت کرنے کے لئے ٹیپل ڈیرہ گیا۔ ان سے تعزیت کی۔ اور اس دوران انہوں نے ٹیپل ڈیرہ کا نام ڈیرہ مراد جمالی رکھا۔ جو آج بھی نصیرآباد کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ جبکہ کسانوں کا مطالبہ تھا کہ اس کا نام کسان ڈیرہ رکھا جائے۔ کیونکہ کسانوں نے طبقاتی تحریک چلائی ہے۔

اس طرح یہ تحریک ختم ہوگئی۔ ضیاالحق کے حکم پر گورنر بلوچستان نے ایک جرگہ تشکیل دیا۔ اس کو قبائلی تنازعہ قراردے کر جرگہ بنایا۔ جس میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سارے بڑے بڑے نواب اور سردار شامل کئے گئے۔جرگہ کے دوران میر ظفر اللہ جمالی نے بڑی چالاکی کا مظاہرہ کرکے اپنے کزن میر مراد جمالی کا خون لہڑیوں کے سرداروں کو معاف کردیا۔ یہ جذباتیت پہلے سے طے تھا۔ جس میں کسانوں کی نمائندگی کرنے والے کمزور پڑگئے۔ انہوں نے بھی چار لہڑی کسانوں کا خون معاف کردیا۔ پھر رخشانیوں نے کہا کہ ہم اپنا خون معاف نہیں کریں گے۔ پھر ان کا خون بہا دیا گیا۔

موسیانیوں پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے سردار جمالی پر فائرنگ کی تھی وہ تین سال کے لئے اپنے زمینیں کسی اور کو دے دیں اور تین سال کے لئے علاقے نہ آئیں۔
پٹ فیڈر میں چلنے والی کسان تحریک میں اہم پہلو یہ سامنے آیا کہ بلوچستان میں قبائلی جنگ کا رجحان بدل گیا۔ تحریک نے کسانوں کو سیاسی طور پر بیدار کردیا وہ طبقاتی معاملے کو سمجھنے لگے۔ تحریک سے وہ یہ سیکھ گئے تھے کہ بدلہ یہ نہیں ہوتا ہے کہ بدلہ قبائلی جنگ کی بنیاد پر لیا جائے۔ بلکہ سیاسی تحریک کے ذریعہ لیا جائے۔اس تحریک نے قبائلی جنگ کا رنگ اور ڈھنگ بدل دیا۔

ا