بڑے بوڑھے کہتے ہیں بھلے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کے احترام میں کھڑے ہوتے تھے، ہاتھ اور گلے مل کر ایک دوسرے کیلیے بیٹھنے کی جگہ بناتے تھے۔چائے کھانا وغیرہ سے ایک دوسرے کی تواضع کی جاتی تھی۔ محافل تھیں خوش گپیاں تھیں۔کسی محفل میں نووارد کیلیے جگہ بنانا نوجوانوں کی مشرقی اقدار میں سے ایک نمایاں قدر ہوا کرتا تھا۔
آج کا نوجوان بھی آپکا احترام کریگا، مگر وہ احتراماً صرف آپ کیلیے اپنے کانوں سے ہینڈز فری نکالے گا، کھڑا ہونا یوں بھی محال ہوگیا ہے کہ اتنے گیجٹس کے ساتھ کھڑا ہونا ہزاروں کے نقصان برابر ہے، وہ اپنے اینڈروئیڈ پر چلنے والے پروگرام کو روک کر دو لفظی مصافحہ کرے گا، اپنے گیم کے چکن ڈنر کو گھر کی کڑائی پر ترجیح دیگا۔ اماں کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کی بجائے موٹیویشنل سپیکرز کو سنیگا اور آبدیدہ ہوگا۔خطبے کی بجائے آنلائن وعظ اور بہت کچھ۔ کالم کے تہی دامنی کے پیش نظر فہرست دینے سے اجتناب ہی بہتر رہے گا۔ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں؟ یقیناً ہاں! کوئی بد بخت ہی ہوگا جو اس سے مستفید نہیں ہوگا۔
مگر ایسا ہرگز نہیں! ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہم انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں بلکہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں شامل آج کا انسان انٹرنیٹ پر ایسا مگن ہے کہ گماں ہوتا ہے کہ وہ انٹرنیٹ استعمال نہیں کررہا بلکہ خود استعمال ہوا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا، گوگل اور کہی ویب سائٹس پہ نوجوان نسل یوں چمٹ گئی ہے جیسے زندگی اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سوشل میڈیا نے تو جیسے ہمارے خوشامدی کیڑے کو مزید خوراک فراہم کرکے موٹا تازہ اٹا کٹا بنادیا ہے، طوفان بدتمیزی ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ ٹک ٹوک اور اس جیسے ایپلیکیشنز نے نکال دیا۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کوئی بھی پتھر اٹھاؤ تو شاعر ملے گا آج تک ٹاکروں نے شعراء کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اللہ بھلا کرے سینیٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالرازق صاحب کا جنہوں نے پی پی ایل لائبریر قلات میں وقت نکال کر خوش گپیوں کے دوران میری مشکل آسان کرتے ہوئے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ہوائیاں اڑنے والے افواہوں پر کچھ حقائق بتا کر یہ ثابت کردیا کہ لوگ حقیقت کو چھوڑ کر کس طرح افواہوں اور غلط باتوں پہ کان دھرنے لگے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ایک تحقیق کے مطابق دن میں لاکھوں جھوٹ اور ریومرز گردش کرتے رہتے ہیں اور تحقیق سے سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پہ لاکھوں جھوٹ ثابت ہوچکے ہیں جنہیں صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اچھالا گیا تھا۔
یقیناً تبدیلی رلا دینے والی شے ہوتی ہے کہ جس کا ایک نمونیا 2018 کے بعد ہماری چیخیں نکالنے کیلئے کافی ہے تاہم اصلی والی تبدیلی تب شروع ہوئی تھی جب 1492 میں کولمبس نے گلوبلائزیشن 0.1 میں ٹرانسپورٹیشن کے ذریعے امریکہ دریافت کیا تھا اور وہیں سے سہل ذرائع آمدورفت شاید دنیا کی پہلی ایجاد تھی جس نے اس بڑی دنیا کو سکیڑنے کی بھر پور کوشش کی۔ دریں اثناں تبدیلی نے اٹھارویں صدی میں گلوبلائزیشن 0.2 مواصلات/کمیونیکیشن کے ذریعے سے انٹری مار کر دنیا کو چھوٹے سے چھوٹا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑا کہ بالآخر سنہ 2000ء کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اور ذہنوں کو مائوف و منجمد کرنے والی تبدیلی گلوبلائزیشن 0.3 ٹیکنالوجی کے نام سے متعارف ہوا جس نے دنیا کو بے شمار فائدے پہنچائے، جہاں اس انٹر- نیٹ نے صنعتی، کاروباری اور تجارتی دنیا کو فروغ دیکر اسے ملٹی نیشنل اور متنوع بنادیا تو وہی سائبر کرائمز، افواہوں، امراضِ چشم، دماغی کمزوری اور معاشرتی بیماریوں کا موجب بھی بنا۔
ذرا غور کیا جائے تو آج کا آدم زاد/زادی کتنا خوشامد پرست اور لالچی بن بیٹھا ہے یہ سوشل میڈیا پر اپنے تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کرکے اپنے جھوٹے تعریف سننے کیلئے ایسے بے سکون کیوں ہوجاتیہیں؟ کیا اس سے پہلے بھی ایسی پیچیدہ قسم کے نفسیاتی مسائل تھے؟ گماں یہی ہوتا ہے کہ یہ بیماریاں اگر واقعتاً پہلے موجود تھے تو ابھی بہت بھیانک صورت میں ابھر کر سماج کیلئے کسی خطرے سے کم نہیں رہیں۔۔ میں پوچھنا چاہوں بھی تو نہیں پوچھ سکتا کہ کہیں تنگ نظر، اجڈ اور غیر ترقی پسند کا الزام بھگتنا نا پڑ جائے مگر کیا ایسا نہیں کہ سوشل میڈیا نے سچ کے بجائے جھوٹ، برائی، بے حیائی، خود پسندی ڈرگز اور منشیات کو فروغ دیا ہے؟
کیا ہم اس جال میں بہت بری طرح نہیں پھنسے؟ چلئے آج اسکی مصنوعی یا حقیقی معنوں پہ تھوڑا غور کریں جس کو میں انٹرنیٹ کے بجائے انٹر- نیٹ لکھنا پسند کرتا ہوں تاکہ قارئین کو اسکا مطلب کسی چونکہ چنانچہ کے بغیر سمجھ آجائے میں نے ہمیشہ سے انٹر-نیٹ کو اپنے سے ایک معنی دے کر اپنے جاننے والوں کو اس سے باز رہنے کی تلقین کی کیونکہ اس کے استعمال سے ناواقف ہوکر اس کے ہاتھوں خود استعمال ہو کر مفلوج ہونا کون سی عقل مندی ہے ؟ روایتی اور آرتھوڈوکس نہ سمجھا جاؤں تو عرض یہ ہے کہ میں نے انٹر (INTER) کا مطلب داخل ہونا اور نیٹ (NET) کو ہمیشہ جال/ مکڑی کی جال سے تشبیہ دی مگر یہ مکڑی کا نہیں انسانوں کو پھنسانے والی وہ جال ہے جس میں آج ہر خاص و عام نے خود کو پھنسا دیا ہے۔ جس طرح ہم مچھلی پکڑنے والی جال میں خود نا پھنس کر مچھلیاں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ انٹرنیٹ میں داخل ہوکر پھنسنے، کاہل ہونے، وقت ضائع کرنے کے بجائے ہم اسی نیٹ کو اپنے بہتری کیلئے استعمال کرتے!
طلباء کی اکثریت آپکو یوٹیوب، فیسبک، انسٹاگرام استعمال کرتے ہوئے ملیںگے مگر صحیح نہیں نا ہی غلط، غلط کرنا بھی چاہے مگر ناممکن، میڈیا ناخواندگی (Media illiteracy) کی وجہ سے ہم خاک صحیح یا غلط استعمال کر پائینگے کاش اس نسل کو انٹرنیٹ کی صحیح نا سہی تو غلط استعمال آتی جو بیٹھ کر ملک کے بین الاقوامی دشمنوں کو ٹریک (track)، ہیک (hack) یا لوٹتے مگر افسوس میڈیا کے بارے ہمارا علم اتنا ہی تھوڑا ہے جتنا ہم میں اخلاص۔ وگرنہ ہم انٹر ہوکے استعمال ہونے سے پہلے اسی نیٹ (جال) کو اپنے ترقی و خوشحالی کیلئے استعمال کرتے۔
سوشل میڈیا پر خوش آمد پرست بننے سے اچھا نہیں ہوتا کہ ہم بین الاقوامی سطح پر چلنے والے خبروں، حالات و واقعات سے با خبر رہتے انٹرنیٹ پر پہ کام کرنے والے انہیں ماہر (skilled) لوگوں میں سے ایک ہوتے جو فریلانسنگ کے ذریعے لاکھوں کماتے ہیں! کیا ہی اچھا ہوتا جو طلباء وطالبات فارن سکالرشپس ڈھونڈ کر ان میں اپیئر ہوتے۔ ٹک ٹاک، یوٹیوب اور فیسبک پہ سر کھپا کر وقت ضائع کرنے سے اچھا نہ تھا کہ وہ کتابوں کی آڈیوز سنتے۔
فکر لاحق ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا کو استعمال کرنے کا علم، ہنر، سکھانے اور سیکھنے والے متجسس افراد نہیں کہ پوچھا اور سیکھا جائے تاک انٹر- نیٹ میں اپنے ترجیحات کو قید کرکے اپنے اپنے مفادات میں بدل دیتے۔ مگر افسوس کہ آج مفادات کو پرے رکھ کر انٹر-نیٹ کی جال میں یوں پھنس چکے ہیں کہ ایک انسان انسانیت کی قدر و منزلت سے نا واقف ایک دوسرے سے اجنبی ہوتے جارہے ہیں جسکی سب سے بڑی مثال ہر طرف بیٹھے لوگوں کی جھکی نگاہیں، ٹیڑی گردنیں ہیں جو سامنے بیٹھے انسان پر دور بیٹھے انجان، نظروں سے اوجھل اور بے بس انسان کو فوقیت دینے والے حضرات ہیں۔ مگر ایسا کیوں نہیں کہ انٹرنیٹ کو ہی استعمال کرکے اپنا کام نمٹائے اور سامنے بیٹھے انسان کو ترجیح دے کر انٹرنیٹ کے استعمال سے پیدا ہونے والے ڈپریشن، ٹینشن اور بعض شدید نقصانات سے بچا جائے۔