|

وقتِ اشاعت :   August 19 – 2021

پاکستان 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا ہے آزادی اللہ تعالی کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہے آزادی کا احساس ہمارے ساتھ اس لیے نہیں کہ ہم نے غلامی کی زندگی دیکھی نہیں جو قومیں غلامی کی زندگی گزارتی ہیں وہی آزادی کی قدر و قیمت سے آشنا ہیں ہمارے دل میں اس کی قدر و منزلت کہاں؟

متحدہ ہندوستان پر مسلمان بادشاہوں نیسات سو سال مسلسل حکومت کی تھی جب مسلمان حکمران اسلامی تعلیمات سے منحرف ہونے لگے تو ان کا زوال شروع ہوا ان کا طویل سلسلہ اقتدار ختم ہونے لگا اور ان کی جگہ فرنگی سامراج اقتدار پر براجمان ہوا ۔

برطانیہ فرانگی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ہندوستان میں آئی اور اپنی تجارتی سرگرمیاں شروع کردیں اس کمپنی نے ابتدا میں مصالحے وغیرہ کی خرید و فروخت کی اور ایک خاص سازش کے تحت مسلمانوں میں آہستہ آہستہ اپنی جڑیں مضبوط کیں انگریزوں نے مال و دولت کے بل بوتے پر مسلمانوں میں سے افراد خر یدے جنہوں نے انگریزوں کی سوچ وفکر عام کرنے کے لیے کام کیا اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال ہو ئے

اس تجارتی کمپنی نے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور اہستہ اہستہ حکومتی امور میں مداخلت کرنے لگے ابتدا میں جگہ جگہ چھوٹے موٹے نوابوں اور سرداروں کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنے لگے اور بعد میں سارے ہندوستان کی حکومت پر قابض ہوئے۔ انگریزوں نے برصغیر میں تقریباً دو سو سال حکومت کی انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم کئے جنوبی ہندوستان میں قحط آیا جس میں تقریبا ستر لاکھ افراد لقمہ اجل بنے قحط کے دوران انگریز ہندوستان سے غلہ دوسرے ممالک میں سپلائی کرتے رہے اور قحط زدگان کو ایک نوالہ تک نہ دیا۔

انگریز ہماری تہذیب، رسم و رواج ،ثقافت اور تجارت پر اثر انداز ہوئے ہندوستان سب چیزوں سے مالامال ملک تھا اس میں زراعت صنعت و تجارت سب کچھ موجود تھی پرانے زمانے میں خلیجی ممالک سے لوگ ہندوستان میں محنت مزدوری کرنے کے لیے آتے تھے ہندوستان کے گورنر جنرل کونسل کے پہلے رْکن برائے قانون ’’ لارڈمیکالے’’ نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں 2 فروری 1835 عیسوی کے خطاب میں کہاکہ “میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا مجھے تمام لوگ کام کرنے والے معلوم ہوئے کوئی بھی شخص بے کار نظر نہیں آ یا اس ملک میں مال و دولت کی کوئی کمی نہیں ان لوگوں کے اخلاق ، کردار اور سمجھ بوجھ بہت اچھی ہے میرے خیال میں ہم اس وقت تک ہندوستان کو فتح نہیں کر سکتے۔

جب تک ہم ان کی سوچ وفکر، دین، ثقافت اور رسم و رواج کو تبدیل نہ کردیں وہ تبدیلی عملی لحاظ سے ان کے نظام تعلیم کو تبدیل کرنا ہے” اسی لیے لارڈمیکالے نے اعلان کیا کہ ہمیں ایسے نظام تعلیم وضع کرنا ہے جس کو حاصل کرنے والے ہندوستانی ہوں لیکن ان کے دل ودماغ انگلستانی سوچ والے بن جائیں۔جواب میں مولانا محمد قاسم نانوتھوی نے اعلان کیا کہ “ہمیں ایسا نظام تعلیم وضع کرنا ہے جس کے حاصل کرنے والے ہندوستانی ہوں لیکن ان کے دل ودماغ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم والے بن جائیں” اسی سوچ کو عام کرنے کیلئے مولانا محمد قاسم نانوتھوی نے 1866 میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ ابتدا ایک استاد اور ایک شاگرد سے ہوئی اور وہ پہلا شاگرد جس کا نام محمود الحسن تھا بعد میں ایک بڑی شخصیت بن کر ابھرا ان کی شہرت شیخ الہند مولانا محمودالحسن سے ہوئی۔

انہوں نے انگریز قوم کے خلاف جہاداور بہت سی تحاریک چلائیں انگریزی سامراج کے خلاف ایک تحریک بنائی گئی جس کا نام تحریک ریشمی رومال تھا یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے شیخ الہند کو شاگردوں سمیت گرفتار کیا اور مالٹا جیل میں پابند سلاسل کیا دارالعلوم دیوبند کے علماء نے انگریزوں کے خلاف ہر محاذ پر چاہے سیاسی، جہادی، اور علمی ہو ہر میدان میں مقابلہ کیا۔

ان علماء کی شب و روز جدوجہد کے بعد مسلم لیگ کا قیام ہوا جس کے صدر قائداعظم محمد علی جناح منتخب ہوئے انہی کے ساتھ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال تھے ان سب کی کوششیں رنگ لائیں اور آخر کار پاکستان 14 اگست 1947 میں معرض وجود میں آیا انگریزوں سے آزادی چھینے کی کوشش کرتے ہوئے ہزاروں علماء اور لوگ شہید ہوئے دیندار لوگ اور علماء کو جیلوں میں ڈالا گیا ان کو قسم قسم کی تکالیف دی گئیں۔

لیکن اس کے باوجود مسلمان قوم انگریزوں سے لڑتی رہی آخر کار انگریز بھاگنے پر مجبور ہوئے اور نتیجتاً مسلمان، ہندو اور سکھ سب کو آزادی حاصل ہوئی انگریزوں نے اس ملک کو چلانے کے لیے اپنا فرسودہ نظام چھوڑا جس میں خاص طبقات کے لوگ جیسے بروکریٹس کے لیے اعلیٰ مراعات اور اختیارات جو انگریز نے اپنے لیے مقرر کی تھیں اب وہ طور طریقے ہمارے آفیسرز آفسر شاہی بنائے ہوئے ہیں گاڑیوں کے بے دریع استعمال و شاہ خرچیوں سے اس ملک کے خزانے لوٹ جاتے ہیں اسی طرح عوام میں انہوں نے خاص طبقہ جو انگریز قوم کے وفادار تھے آج تک مسلسل برسراقتدار رہا ان کو انگریزوں کی وفاداری میں بہت جائیدادیں ملیں اس خصوصی ٹولے کا ہر دور حکومت میں کافی عمل دخل رہا وہ ہر وقت اس ملک کے عوام کے مفادات کے لیے کم اور اپنے مفادات کے لیے زیادہ فکر مند رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ ملک ترقی نہیں کر رہا ۔

ہم نے انگریز سامراج سے حقیقی آزادی حاصل نہیں کی ان کے پیروکار مسلمان ہونے کی شکل وصورت میں اقتدار میں ہوتے ہیں اس ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے ملک کے لوٹنے والے طویل عرصے سے ہم پر حکومت کرتے رہے ہیں اور اس ملک کے خزانے لوٹ رہے ہیں ہر نئی حکومت بیرونی ممالک سے قرضے لے رہی ہے ہمارے ادارے آزاد نہیں ہیں اکثر اہم عہداداروں کی تقرریاں امریکہ کی رضامندی سے ہوتی ہیں جب بھی وہ چاہتے ہیں ہمارے ملک میں سب کچھ کرسکتے ہیں۔

اس کی اصل وجہ مقروض ہونا ہے ہمارے ملک میں گیس ، بجلی بل،آٹا اور دیگر اشیاء کی قیمتوں کا تعین آئی ایم ایف کرتی ہے آؤ عہد کریں کہ اس ملک کو حقیقی معنوں میں آزاد کرنے کی کوشش کریں گے ملک کو قرض کے دلدل سے آزاد کرنے کی کوشش کریں گے۔ہر کام میں اعتدال و میانہ روی سے کام لیں گے۔ فضول خرچیوں سے اجتناب کریں گے علاؤہ ازیں انتخابات میں ایسے لوگ کا انتخاب کیا جائے جو عوام اور ملک کے لیے بہتر کام کرسکیں جو اپنے مفادات پس پشت ڈال کر وطن عزیز کی ترقی کا سوچیں جن کا جینا مرنا پاکستان کے لیے ہو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے
آمین۔