|

وقتِ اشاعت :   August 21 – 2021

نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کی موت نے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا کردیا۔ اس سیاسی خلا کو پر کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے والد ممتاز سیاست دان میر غوث بخش بزنجو نے اپنی وصیت میں کہا تھاکہ اس کی سیاست کے وارث ان کی اولادیں نہیں بلکہ اس کے سیاسی کارکنان ہیں۔ لیکن حاصل خان نے کبھی بھی اس سیاسی وراثت کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور نہ ہی سیاست کے میدان میں انہوں نے اپنے والدکا نام استعمال کیا۔ انہوں نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی الگ شناخت بنائی۔ طالب علمی کے دور میں سیاست کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے پلیٹ فارم سے کیا اور اپنی بنائی ہوئی سیاسی جماعت، نیشنل پارٹی پر اختتام کیا۔

بیس اگست 2020 کو میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے میر حاصل خان بزنجو دارفانی سے کوچ کرگئے۔ وہ کینسرکے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ حاصل خان نے 70ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا۔ 1972ء میں بی ایس او نال زون کے صدراوربعد میں تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1987ء میں بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے اتحاد کے خلاف تنظیم سے علیحدگی اختیارکی۔ انہوں نے بی ایس او سے وابستگی کے خاتمے کے بعد بھی طلبہ سیاست نہیں چھوڑی۔ جب وہ کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے انہوں نے دیگر قوم پرست اور ترقی پسند طلباء کی مدد سے کراچی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ نامی اتحاد تشکیل دیا۔ وہ یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس موومنٹ کے چیئرمین بھی منتخب ہوگئے۔ 1985ء تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی ) میں متحرک رہے۔

1988ء میں پاکستان نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیارکی اور نال سے انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1989ء میں والد کی وفات کے بعد پاکستان نیشنل پارٹی کی سرگرمیوں میں زیادہ فعال ہوگئے۔ 2002ء میں ان کی پارٹی اور بلوچ نیشنل موومنٹ کا الحاق ہوا اور نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ بلوچستان میں پہلی دفعہ مسلم لیگ ن کی مدد سے ان کی مخلوط حکومت بنی۔ اور ان کے پارٹی کے مرکزی رہنما اور موجودہ نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوگئے۔ تاہم ان کی حکومت ڈھائی سال رہی۔ 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ پنجابی سیاسی قیادت کو اقتدار سے باہر کردیاگیا۔ مسلم لیگ ن کے بانی میاں نوازشریف کو وزیراعظم سے قیدی بنادیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھاجب مسلم لیگ ن کی بیشتر قیادت نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کا اعلان کردیا اور نوازشریف سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ حاصل خان واحد سیاسی لیڈر تھے جنہوں نے نوازشریف کی معزولی کے خلاف کراچی پریس کلب میں پہلی پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے ملک میں جمہوریت کے خاتمہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے پرویز مشرف کو للکارا۔ حالانکہ ان کا مسلم لیگ ن سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن یہاں بات جمہوریت کی بالادستی کی آتی ہے۔ حاصل خان نے آمریت کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ شاید یہ سوچ ان کو طالبعلمی کے دور سے بی ایس او نے دی تھی۔ اور وہ آخری دم تک بلوچ سیاسی سوچ کی عکاسی کرتے رہے۔ وہ اعصابی طورپر ایک مضبوط سیاسی رہنما تھے۔

2006 میںایک فوجی آپریشن میں بلوچ قوم پرست رہنما ء نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت ہوتی ہے۔ اس بزرگ سیاستدان کی شہادت پر بھی حاصل خان واحد بلوچ رہنما تھے جہنوں نے پہلی پریس کانفرنس کی تھی۔ انہوں نے اس فوجی ایکشن کو ملک کی سلامتی و استحکام کا قتل قراردیا۔ آج بلوچستان جس آگ کی لپیٹ میں ہے۔ ان خدشات کا اظہار حاصل خان نے نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت پر کیا تھا۔

حاصل خان نے پرویز مشرف کے آمرانہ اقدامات کا کھل کر مقابلہ کیا۔ نوازشریف کی بیگم کلثوم نواز کے ساتھ مل کر حاصل خان نے ملک میں ڈکٹیٹر شپ کے خلاف آواز بلند کی۔ جس کی وجہ سے وہ کبھی بھی سسٹم کا حصہ نہیں بن سکا۔ وہ اپوزیشن کی سوچ رکھنے والے سیاستدان تھے۔ اقتدار ان کا مقصد نہیں تھا۔اس کی پارٹی کو بلوچستان میں حکومت نوازشریف نے دی تھی۔ بلوچستان میں نیشنل پارٹی کی حکومت سے اسٹیبلشمنٹ خوش نہیں تھی۔ دراصل نوازشریف نے حاصل خان کے احسان چکانے کے لیے یہ حکومت ان کو دی تھی۔ جبکہ مسلم لیگ ن بلوچستان میں بھاری اکثریت سے منتخب ہوچکی تھی۔اور نیشنل پارٹی کے پاس صرف چند نشستیں تھیں۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی بھی وینٹی لیٹر پر چلی گئی۔ ایک عرصے تک کمیونسٹوں کے پاس کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ وہ انفرادی طورپر سیاست کرتے رہے بعض این جی اوز بناکر اپنا سیاسی ٹارگٹ پورا کرتے رہے۔جب حاصل خان نے نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ تو پارٹی بلوچستان کی حد تک محدود تھی۔ حاصل خان نے پارٹی کو مزید فعال کیا۔ جتنے بھی لاوارث کمیونسٹ ملک میں موجود تھے ان کو پارٹی پلیٹ فارم فراہم کیا۔ اس طرح آج نیشنل پارٹی نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ اور پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں میں فعال جماعت بن چکی ہے۔ اس طرح ان کی جماعت نے قوم پرستی سے وفاق پرستی کی سیاست کو اپنایا۔ جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر اور باہر سخت مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
حاصل خان نے ہمت و جرات کا مظاہرہ کرکے تمام کمیونسٹوں کے اختلافات کو دور کیا۔ اور ان کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ دراصل کمیونسٹوں کو اکھٹا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا جو حاصل خان نے سرانجام دیا۔

حاصل خان نے ملکی سیاسی صورتحال میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے اختلافات کا خاتمہ کروایا۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، اے این پی، جے یو آئی (ف)، سمیت دیگر جماعتوں کو متحد کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ جس کی بنیاد پر انہیں تمام جماعتوں نے متفقہ طورپر سینیٹ کے چیئرمین کا امیدوار نامزد کیا۔

ان کی موت نے ملک میں ایک سیاسی خلا پیدا کردیا۔ اس خلا کو کون پورا کریگا؟۔ یہ سوال ہر سیاسی رہنما اور کارکنان کے ذہنوں میں گردش کررہا ہے۔
حاصل خان نے اصولوں کی سیاست پر سودے بازی نہیں کی۔ وہ ایک سیاسی ورکر کی صورت میں ایک سیاسی رہنما تھے۔ اور آخری دم تک ورکروں کے درمیان رہ کرہم سے جدا ہوگئے۔