|

وقتِ اشاعت :   August 21 – 2021

میرحاصل بزنجوکومیں کبھی بھی بھول نہیں سکتابلکہ یہ کہنازیادہ بہترہوگاکہ میرصاحب کے تعلقات جس کسی کیساتھ بھی رہے ہیں وہ سب عمربھرانہیں یادکرتے رہیں گے حاصل خان کایہ کمال تھاکہ وہ سب دوستوں،پارٹی کارکنوں اورلیڈروں کوآپس میں جوڑے رکھتے تھے ۔راقم کامیرصاحب سے بہت قریبی تعلق تھاانکے بچھڑجانے کے بعدہم دوست آپس میں جب بھی مل بیٹھتے ہیں توہماری محفلیں انکے ذکرسے خالی نہیں ہوتیں ہم بعض معاملات پرمیرصاحب سے لڑتے جھگڑتے بھی تھے اورپھرجلدراضی بھی ہوجاتے تھے حاصل خان مجھے ہمیشہ یہ بات سمجھاتے تھے کہ سیاست میں جذبے کی توبہت ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن سیاسی کارکن کوہروقت جذباتی نہیں ہوناچائیے وہ یہ باتیں کبھی پیارسے اورکبھی ڈانٹ کرسمجھایاکرتے تھے میں بھی انکی نصیت پرعمل کرتاتھا۔میرحاصل خان بے پناخوبیوں کے مالک ایک خوبصورت انسان تھے ہم نے زندگی میں انکی قدرنہیں کی بدقسمتی سے ہم بلوچ قوم مردہ پرست ہوگئے ہیں میں نے میرصاحب کیساتھ بہت سفرکیئے اندرون ملک بھی اورملک سے باہربھی۔ہم جب ماسکوایئرپورٹ پراترے تووہاں عزیزبلوچ ہمیں لینے کیلئے آئے ہوئے تھے یہ میرے خیال میں سن2011کی بات ہے پاکستان میں اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ایئرپورٹ سے ماسکوشہرتک عزیزنے ہمارے ساتھ سیاسی گپ شپ کادورچلایاشہرکے اندرایک فلیٹ میں ہم ٹھہرے توعزیزنے وہاں بھی اپنے نظریئے کاپرچارشروع کردیا۔ تب میرصاحب نے کہاعزیزادھرہم چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے ہیں اس لیئے آپ اس وقت ہمیں تھوڑاآرام کرنے دیں اور آپ جس آزادی کی بات کررہے ہیں وہ آزادی پسندہماری جماعت کے دوستوں کے قاتل ہیں کل ہم ان مسئلوں پرآپ سے ضروربات کریں گے۔

میرصاحب کے اندرسیاسی مخالفت کوبرداشت کرنیکابڑاحوصلہ تھاوہ کبھی بھی اپنے نظریاتی مخالف کی بات پرغصے میں نہیں آتے تھے۔دوسرے دن عزیزہمیں عظیم لینن گراڈلے گئے وہاں پرعزیزنے ہمیں یہ نویدسنائی کہ بس ایک سال کے اندراندربلوچستان آزادہوجائیگاجواب میں صاحب نے کہادیکھوعزیزخواب دیکھنااچھی بات ہے لیکن ایسے خواب جنکی تعبیریاتوممکن نہ ہواوریاخواب دیکھنے والے اپنے خوابوں کی عملی تعبیرکی ذمہ داری دوسروں پرڈال کراپنے خوابوں کی تعبیرچاہتے ہوں ایسے لوگوں کے خواب جب ٹوٹتے ہیں توپھروہ خودبھی سیاست سے مایوس ہوجاتے ہیں اوردیگر بہت سارے لوگوں کومایوس کردیتے ہیں،جولوگ محکوم عوام کی آزادیوں کے خواب دیکھتے ہیں انہیں اپنے عوام کے اندررہ کرجدوجہدکرنی ہوتی ہے وہاں کی سیاست کاحصہ بنناپڑتاہے۔ قوموں کی آزادی کاخواب دیکھنے والے اپنی تنظیمیں منظم کرتے ہیں اورلوگوں کوسیاسی شعورسے آرائستہ کرتے ہیں۔میرصاحب کی باتوں نے پتہ نہیں عزیزپرکوئی اثرکیایانہیں لیکن عزیزخاموش ہوگیا۔

شام کوعزیزکاایک کاروباری دوست آگیااس کاتعلق بھی پاکستان سے تھایہ ہمیں رات کے کھانے پرلے گئے ہو ٹل میں کھانے کے دوران پھرسیاسی بحث شروع ہوئی اب عزیزکادوست جنرل مشرف کی حکومت کی تعریفیں کرنے لگااس پرمیرصاحب نے قدردرشت لہجے میں کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ آپ لوگ ایک فوجی ڈکٹیٹرکی تعریف کررہے ہوجس نے تمام مسلمہ اصولوں کوروندتے ہوئے ملک پرقبضہ کرلیااورعوام کے پاس جدوجہدکے جوتھوڑے بہت حقوق تھے انہیں بھی غصب کرلیاکیاآپ کو معلوم نہیں کہ ڈکٹیٹرسیاست کی جڑیں کاٹ دیتے ہیں اورآج یہ جس آگ میں بلوچستان جل رہاہے یہ آگ اسی جرنیل کی لگائی ہوئی ہے اوریہ آگ نہ ختم ہونے والی آگ ہے اگرکوئی بھی جمہوری حکومت ہوتی تووہ بلوچستان میں پہلے والی غلطیاں کبھی نہ دہراتی۔میرصاحب کی یہ ایک بڑی خوبی تھی کہ وہ سیاست برائے بحث نہیں کرتے تھے وہ سیاست کوعوامی مسائل کے حل کاذریعہ سمجھتے تھے اوراپنے موقف کودلائل کیساتھ درست ثابت کرتے تھے۔

حاصل خان کراچی،گوادر،تربت،کوئٹہ جب بھی دوستوں کیساتھ اکٹھے ہوتے خاص کراشرف محمودکے ساتھ میرصاحب کاالگ دیوان ہوتاتھارات کواشرف محمودمختلف شاعروں کی شاعری کونہایت مترنم آوازمیں گاتے۔ قاضی مبارک سے شروع ہوتے اوربشیربیدارکی ناچی بیاناچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئٹہ میں اکثر راقم،اسلم بلوچ،میرعبدالخالق ،حاصل خان اوردوسرے بہت سے ساتھی ڈاکٹریوسف بزنجوکے گھرپرجمع ہوتے اوررات گئے تک محفل جمی رہتی میرصاحب عبدالخالق بلوچ کوبہت عزیزرکھتے تھے اوران کاخیال بھی بہت کرتے تھے۔آج ہم پاکستان اورخصوصی طورپربلوچستان ہماری سرحدوں پرواقع افغانستان اورایران اورایران کے بارڈرپررونماہونیوالی تشویشناک صورت حال کودیکھتے ہیں توہمیں میرحاصل خان جیسے بلندقامت سیاستدان کی کمی شدت کیساتھ محصوص ہوتی ہے آج ہمارے وطن کے حالات تیزی کے ساتھ2013والی صورت حال کی طرف جارہے ہیں22کروڑعوام پرایک ایسی حکومت مسلط کردی گئی ہے جس کاعوام کیساتھ سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں آج بلوچستان اورپاکستان کومیرحاصل بزنجوجیسے بہادراوردوراندیش رہنماکی اشدضرورت ہے۔ میرصاحب کی رہنمائی سے محروم ہوجانے کے بعدتمام ذمہ داریاں ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کے کندھو پرآگئی ہیں لیکن آج میرجمہوریت میرحاصل خان بزنجوکی پہلی برسیکے موقع پرہم سب کویہ عہدکرناہوگاکہ ہم سب مل کرڈاکٹرمالک کے کندھے سے کندھاملاکراپنے مرحوم قائدکے پیغام کوپاکستان خصوصی طورپربلوچستان کے کونے کونے میں پہنچائیں گیاورانکے مشن کی تکمیل کیلئے ہرطرح کے ظلم اورظالموں کابے خوف وخطرمقابلہ کریں گے۔