روئے زمین پر تقریباً دو سو ممالک آباد ہیں ان سارے ممالک کا اگر جائزہ لیا جائے تو ترقی اور خوشحالی کے لحاظ سے وہ ممالک آگے ہیں جو علم و تعلیم میں آگے ہیں۔ کمزور ممالک تعلیم کی کمی کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تعلیم سب سے بڑا سرمایہ اور ہتھیار ہے۔
امریکہ سائنس وٹیکنالوجی، میڈیکل ، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں اعلی پائے کی ترقی کر چکا ہے یہ سب تعلیم ہی کی مرہون منت ہے اور اسی وجہ سے دنیا کے سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ ملک ہونے کا اعزاز اس کو حاصل ہے۔
ترقی یافتہ ممالک ہر قسم کی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں ان میں یکساں نصاب ، تعلیم مادری زبان میں ، قابل اساتذہ ، بہترین ادارے اور سب سے اہم وجہ حکومت کی طرف سے زیادہ بجٹ اور ہر کام کے لیے قابل منصوبہ ساز منصوبے تیار کرتے ہیں ۔ہمارے ملک میں تعلیمی پالیسیاں عارضی بنیادوں پر بنائے جاتے ہیں مستقل اور پائیدار منصوبے کسی بھی حکومت نے نہیں بنائے ہیں۔
خیبرپختونخوا کی پچھلی اور موجودہ حکومت نے کالجز کو بورڈ آف گورنرز کے تحت لانے کے لیے کئی دفعہ کوشش کی لیکن کالج اساتذہ نے بھر پور احتجاج کرکے وقتی طور پر حکومت کے بی او جی کو ملتوی کر دیا۔ بی او جی کیا ہے؟ اس سے طلباء ، عوام اور اساتذہ کو کون سے نقصانات ہوسکتے ہیں؟
بی او جی بورڈ آف گورنرز سا مخفف ہے یعنی تعلیمی اداروں میں بورڈ بنانا جو ادارے کو مالی،انتظامی اور تعلیمی لحاظ سے خودمختار بنا کر چلائے۔
بی او جی خیبرپختونخوا کے کچھ بڑے بڑے ہسپتالوں میں کئی سال سے نافذالعمل ہے جس کی وجہ سے سینئر ڈاکٹرز نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کی جگہ جونیئر ڈاکٹرز کو تعینات کیا گیا۔ اس وجہ سے مریضوں کے علاج معالجے پر بہت اثر ہوا ہے۔
اداروں کے بارے میں حکومت کی صحیح اور درست پالیسی نہیں ہے وہ ہر ادارے کو پرائیویٹ کرنا چاہتی ہے پرائیویٹ کرنے کے بہت نقصانات ہوتے ہیں اس کی وجہ سے چند مخصوص افراد کو فائدہ ہوتاہے باقی لوگوں کو سخت نقصان ہوتا ہے۔ حکومت ہر ادارے کو منافع بخش کرنا چاہتی ہے جو کہ ٹھیک پالیسی نہیں ہے ۔ریاست میں تعلیمی ادارے منافع کے لیے نہیں بلکہ اس پر حکومت کو اپنے بجٹ سے خطیر رقم خرچ کرنا ہوتا ہے حکومتوں کی غلط پالیسوں اور نجکاری کی وجہ سے منافع بخش ادارے بھی نقصان کی طرف چلے گئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک میں اہم پالیسیاں بیرونی ممالک کے لوگ بناتے ہیں وہ کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستان تعلیمی میدان میں ترقی کرے۔
بی او جی کی وجہ سے ادارے زوال کی طرف گامزن ہیں آپ ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں کو دیکھئے وہ روز بروز زوال کی طرف جارہے ہیں ان کے لیے حکومت نے اپنی گرانٹ بند کی ہے اس وجہ سے یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں۔ ان کے ملازمین تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اکثر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ۔ حکومت نے ان کو آزاد چھوڑا ہے جس طرح چاہے طلباء سے فیس لیتے رہو لیکن اپنے بجٹ کا انتظام خود کر تے رہواسی لیے یونیورسٹیاں دن بدن اپنی فیسوں میں اضافہ کررہی ہیں۔ یونیورسٹیاں مختلف طریقوں سے اپنے فنڈز میں اضافہ کررہی ہیں چاہے وہ ٹھیک ہو یا غلط لیکن ان کی مجبوریاں ہیں۔اب ایچ ای سی نے ملک کے تمام یونیورسٹیوں کو حکم نامہ جاری کیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں بی ایس کے داخلے کے لیے طلباء انٹری ٹیسٹ دینگے جن کا داخلہ فیس بارہ سو روپے ہوگا تو اس سے ساڑھے دو ارب روپے آمدن ہونے کا تخمینہ ہے۔
اب حکومت نے صوبے کے تیس بڑے کالجز کو ماڈل کالجز میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے بجٹ میں اس کے لیے رقم بھی مختص کیا ہے میرے خیال میں ماڈل کالجز بنانا بی او جی کی طرف قدم ہے۔ حکومت یہ تجربہ جہانزیب کالج سوات پر کر نا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نے 16 اگست کو جہان زیب کالج کے پرائیویٹائزیشن کے لیے میٹنگ بلائی تھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا فاصلہ کیا ہے۔ جہانزیب کالج سوات صوبے کا سب سے بڑا اور ایک تاریخی کالج ہے اس میں ہزاروں کی تعداد طلباء و طالبات پڑھتے ہیں اس کے فارغ التحصیل افراد ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں جو عوام کی خدمت کر رہے ہیں ۔اس کالج اور دوسرے سرکاری کالجز میں اکثر غریب طلباء و طالبات پڑھتے ہیں۔
اگر حکومت نے جہانزیب کالج کو بی او جی دے دیا تو اس سے غریب عوام پر بہت برا اثر ہوگا کالج کا انتظام ماہرین تعلیم کے بجائے غیر ماہرین تعلیم کے پاس چلا جائے گا جو کہ تعلیم کے لیے زہر قاتل ہوگا۔ طلباء و طالبات کی فیسوں میں اضافہ ہوگا جس سے غریب طلباء وطالبات پر تعلیم کے دروازے بند ہو جائیں گے کیونکہ ابھی کالجز میں ہر سمسٹر کی فیس چار ہزار روپے ہے نجکاری سے وہ فیس چالیس پچاس ہزار فی سمسٹر ہو گی جس کی ادائیگی غریب طلباء کے لیے بہت مشکل ہوگی۔ تمام ملازمین ریگولر سے کنٹریکٹ ہوجائیں گے اس وجہ سے قابل اور سنیئر ملازمین ریٹائرڈ ہوجائیں گے یا دوسرے ادارے میں چلے جائیں گے۔ نجکاری سے ملازمین کے استحصال شروع ہوگا اور اس سے کوالٹی ایجوکیشن متاثر ہوگا۔ جہانزیب کالج میں بی او جی لانے کی وجہ سے صوبے کے تمام کالجز نے اس کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی تھیںان سب ملازمین نے بی او جی کے خلاف نعرے بھی لگا ئے۔
کپلا کے صدر نے صوبہ کے تمام کالجز کو پیغام دیا جب تک حکومت بی او جی کا فیصلہ واپس نہیں لیتی تو صوبہ کے تمام کالجز میں مرحلہ وار احتجاج ہوگا۔ لہذا حکومت کو چاہئے کے اس حساس مسئلے کو مزید نہ چھیڑے۔ چونکہ تمام تعلیمی اداروں میں دو سال سے کرونا وائرس کی وجہ سے طلباء کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اب اگر کالجز ملازمین نے بی او جی پر احتجاج شروع کیا تو تعلیم نظام بالکل تباہ ہو جائے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ کالجز میں تعلیم بہت بہتر چل رہا ہے ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کالجز میں سٹاف، فرنیچرز،لیب کے سازوسامان اور عمارتوں کی کمی فی الفور حل کرے تاکہ تعلیم کی کمی پوری ہوسکے ۔