|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2021

بلوچستان کے ساتھ طویل سرحدی شراکت دار پڑوسی ملک جو بلوچستان کے پاکستان سے الحاق سے پہلے بھی ریاست قلات کے لیے بہت اچھا دوست ملک رہا ہے افغانستان میں گزشتہ دنوں غرور کو ہزیمت اور مشرقی کلچر کی جیت ہوئی ہے، اس کو میں اسلامی اور مشرقی کلچر کی جیت اس لیے قرار دوں گا کیوں کہ یہ ایک مہمان کی عزت پر لڑی جانی والی تاریخ کی طویل ترین لڑائی ہے، اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی سے نظریات کو دبانے کی دعویدار طاقتیں کسی کے مہمان کو مارنے اور ملک کو تباہ کرنے آئے تھے مگر ان لوگوں کو بھی چھوڑ کر بھاگے جنہوں نے اس عمل کے دوران دامے درمے سخنے ان کی مدد کی تھی، یہ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار رہے مگر کم نسل شاہ انہیں بر سر راہ چھوڑ کر بھاگ نکلا۔

دنیا طالبان کو قبول کر چکی ہے، اگر نہیں بھی کرتی ہے تو اس بار کے طالبان کے پاس اچھا سیاسی سمجھ بوجھ اور وہ معدنی ذخائر ہیں جن کا اگلے کئی سال تک الیکٹرک مشینری پر راج ہوگا، اس لیے روس ہو یا چین ان کو یہ موقع ضائع کرنا شاید بہت مہنگا سودا لگے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان محض ایک جنگجو گروہ تھے تب بھی ان دو ویٹو پاور ممالک کے ساتھ ان کی سفارتی سطح کے رابطے سر عام موجود تھے۔بلوچستان افغانستان سے جغرافیائی ملحق ہونے کے ناطے وہاں کی امن اور بد امنی سے ہمیشہ سب سے زیادہ متاثر رہا ہے۔ روس کی آمد نے سرخ انقلابیوں کو ماسکو سے دلی ہمدردی دلادی، ماسکو جب مشن میں ناکام ہوا تو ایک عرصہ اسی صدمہ میں گزرا،۔یہ درست ہے کہ تب ماسکو کی نگاہیں گوادر پر تھیں، اسے یہاں کا سب سے بڑا چودھری بننا تھا مگر جو راستہ اس نے چنا اس راستے پر اس کے لیے پرخار وادیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔امریکہ کی آمد بھی اسی لیے تھی، اس کو چودھری بننے کا شوق چڑھا، اس کی یہاں موجودگی کی وجہ سے انڈیا کو بلوچستان میں بد امنی کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کی سبیل نظر آئی، اور اس نے اس گندے کھیل کے لیے ریاستی استحصال کے شکار بلوچ عوام کو استعمال کرنے کی ٹھانی، یہ سو فیصد درست بات ہے کہ انڈیا بلوچستان سے مخلص ہے نہ بلوچوں سے، اسے صرف بد امنی پیدا کرنی تھی ایک اور پہلو یہ ہے کہ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر مقامات پر جا بجا شدت پسند قوتیں، ریاستی سر پرستی میں بم دھماکہ کراتے جس میں بہت بے گناہ لوگ شہید ہوتے، اور سرکار کے پاس یہ گھڑا ہوا عذر ہوتا کہ دشمن نے سرحد پار سے حملہ کیا اور بھاگ گیا۔ایک چوتھا پہلو یہ بھی ہے کہ گزشتہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ دو تین مہینے قبل اپنے پٹھوؤں کو فنڈنگ کرکے سیاست میں مداخلت کا اپنا ازلی کھیل کھیلا، اس بار اس نے بھی پینترا بدلا ہے اور اس کے ہارے ہوئے امیدوار اپنے مقابل جیتے ہوؤں سے زیادہ فنڈز علاقے میں خرچ کر رہے ہیں، پہلے ضمیر بکتے تھے۔

اب لوگ بکتے ہیں وہ بھی گروہ در گروہ۔ان سارے مسائل کا افغانستان کی صورتحال سے براہ راست تعلق ہے۔آنے والے کل کا گوادر گزشتہ کل کی نسبت خطروں سے نکل گیا ہے، اب چائنا چودھری آف گوادر نہیں بن سکتا کیوں کہ پاکستان کے پڑوس میں امریکہ کی صورت میں ایک خوف موجود نہیں جس کی وجہ سے چائنا کے تمام نخرے پاکستان قبول کر لے۔اب پڑوس میں امن و کاروبار ہے تو بلوچستان کے باسی صرف ایران پر ڈپینڈ نہیں کریں گے جو کبھی مہینوں بارڈر بند کر لے اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہوں، ریاست ویسے بھی استحصال کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

اب افغانستان میں امن کی وجہ سے بلوچستان میں تخریب کاری کا سرحد پار والا جواز بھی ختم ہوچکا ہے، اس لیے انگلی کو جس جانب اٹھنا چاہیے وہ بہت واضح ہوگا۔سب سے مثبت بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی اجارہ داری بہت خطرے میں ہے، یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو وہ پہلے ظاہر کیے بنا استعمال کرتے تھے اب ان کو مجبوراً میدان میں ان کی اصلی تعارف کے ساتھ اتارنا ہے۔نواب زہری اور بلاول کا یکجا ہونا اس کی سب سے بڑی دلیل ہے، حالانکہ بلوچستان عوامی پارٹی موجود تھی مگر یہاں سربراہی کے کئی ایک خواہش مند تھے۔اب بلوچستان کی مخلص قیادت کو متفقہ پلیٹ فارم پر آگے آنا چاہیے چاہے وہ مذہبی ہوں یا قوم پرست۔انہیں اسٹیبلشمنٹ کے چمچوں کا سنجیدگی کے ساتھ راستہ روکنا ہوگا اگر ایک بار ان کا زور ٹوٹ گیا تو ریاست کو استحصال کی پالیسی بھی بدلنی پڑے گی اور بلوچستان درست سمت میں سفر کرنا شروع کرے گا۔