|

وقتِ اشاعت :   August 26 – 2021

نواب اکبر خان بگٹی بلوچستان کے بلند قامت سیاسی راہنما ہونے کے علاوہ ملک بھر کی معروف سیاسی شخصیت تھے۔اس لیے میڈیا کے ذریعے ان کی سیاسی سرگرمیوں ، بیانات اور موقف کی خبر ملتی رہتی تھی لیکن ان سے ذاتی طور پر میری ایسی جان پہچان نہیں تھی جیسے دیگر کئی بلوچ قائدین کے ساتھ رہی تھی جن کے ساتھ میرا واسطہ سیاسی سرگرمیوں ، سیاسی قیدوبند اور جلاوطنی کے دوران رہا۔ کیونکہ1972 کے بعد نواب صاحب اور میں اکثر ایک دوسرے سے مختلف (اور کبھی تو مخالف ) سیاسی کیمپوں میں بھی رہے۔لیکن جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے دوران انسانی حقوق کمیشن پاکستان ( HRCP ) کے رکن کی حیثیت سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال جاننے کے لیے دوروں کے دوران دیگر سیاسی لیڈروں کی طرح ان سے بھی کئی بار ملنے اور تفصیلی گفتگو کرنے کا موقع ملا۔اور مختلف مسائل پر ان کے موقف کو جان سکا۔

ان میں سب سے اہم ملاقات جنوری2006 کے دوسرے ہفتے میں ہوئی جب میں انسانی حقوق کمیشن کے بلوچستان میں حقائق جاننے کے لیے بھیجے جانے والے مشن کے ایک رکن کے طور پر سوئی اور ڈیرہ بگٹی گیااور یہ ان کے ساتھ آخر ملاقات ثابت ہوئی۔البتہ میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انسانی حقوق کمیشن نے اپنے بلوچستان بھیجے جانے والے مشن کی 74 صفحات کی تفصیلی رپورٹ اور سفارشات اگست 2004 میں چھاپ دیں تھیں جو کہ اب بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ میری یہ مختصر تحریر اس سفر کے بارے میں محض میرے ذاتی تاثرات اور سفر کی کچھ تفصیلات ہیں۔جن سے شاید تھوڑے عرصہ بعد کے واقعات کو سیاق و سباق میں سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پہلے سے اچھی نہیں تھی لیکن2005 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے وہاں کے مختلف علاقوں میں ایک نئے فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس کے بعد بلوچستان سے بہت سے لوگوں کی گرفتاری ، اذیتیں دیے جانے اور بمباری میں ہلاک کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔جس سے انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں میں تشویش پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ بلوچستان کی اس وقت کی معروضی صورت حال کو سمجھنے اور حقائق جاننے کے لیے انسانی حقوق کمیشن نے کمیشن کی چئیر پرسن محترمہ عاصمہ جہانگیر کی سربراہی میں ایک مشن بھیجا جس نے 24 تا 28 دسمبر2006 کوئٹہ اور سبّی کا دورہ کیا جبکہ چند دن کے بعد دوسرا مشن بھی انہی کی قیادت میں 8 تا10 جنوری سوئی اور ڈیرہ بگٹی گیا، میں دونوں مشنوں میں کمیشن کے سابق چئیرپرسن کے طور پر شامل تھا۔ دوسرے مشن کی قیادت بھی عاصمہ جہانگیر نے کی، میں ان کے ساتھ ہو لیا اور کوئٹہ سے ہمارے اس وقت کے وائس چیئرپرسن ظہور احمد شاہوانی ایڈوکیٹ اور ضیاالدین ڈیرہ بگٹی میں ہمارے ساتھ آن ملے۔یہ سفر ہماری توقعات سے زیادہ پر خطر اور دشوار گزار ثابت ہوا۔اسی سفر کے دوران نواب اکبر بگٹی سے ہماری آخری ملاقات بھی ہوئی۔وفد کے جانے کا اعلان پریس ریلیز کے ذریعے کیا گیا اور وفد کے دونوں حصوں کے ساتھ الگ گاڑیوں میں چند صحافیوں نے بھی سفر کیا۔

آٹھ جنوری کو عاصمہ اور میں لاہور سے پی آئی اے کی پرواز میں ملتان پہنچے جہاں ایچ آر سی پی کے کارکنوں نے ہمارے آگے کے زمینی سفر کے لیے ایک کرائے کی جیپ کا بندوبست کیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ ملتان ایئر پورٹ اور آگے سفر میں بہاولنگر اور ڈیرہ غازی خان جہاں انسانی حقوق کے کارکن ہمیں ملنے آئے تھے وہاں جاسوسی اداروں کے افراد کا ایک گروہ بھی ہمارا منتظر تھا اور انہوں نے اس جیپ کی تصاویر بھی کھینچیں جس میں ہم سفر کر رہے تھے۔ہم جب کشمور پہنچ کر بلوچستان کی حدود میں داخل ہوئے تو شام ہو چکی تھی ، رینجرز کی چیک پوسٹ پر ہمیں روک کر شناخت کر لی گئی۔ ہماری جیپ سے آگے چند صحافی دوست اپنی گاڑی میں جارہے تھے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد رینجرز کی ایک اور چوکی سے تھوڑی دور آگے نکلنے پر ہمیں کلاشنکوف سے فائرنگ کی آواز قریب سے سنائی دی۔ شروع میں ہمارا خیال تھا کہ کسی اور پر فائرنگ ہوئی ہے اور ہم اتفاق سے بیچ میں آئے ہیں لیکن فائرنگ کا اگلا برسٹ بالکل ہماری گاڑی کے قریب لگا جس سے کافی گردوغبار اٹھا اور ہمیں یقین ہو چلا کہ فائر ہماری گاڑی ہی پر ہوئی ہے۔عاصمہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی اور میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ عاصمہ نے ڈرائیور کو گاڑی روک کر پیچھے لے جانے کا کہا۔میں نے بھی ڈرائیور کو احتیاط برتتے ہوئے پیچھے کی طرف گاڑی چلانے کا کہا۔ میں نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر دو آدمی جنہوں نے پہلے دو برسٹ لیٹ کر چلائے تھے، اٹھ کھڑے ہوئے دراصل وہ پہلے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ہمارے ساتھ کوئی مسلح محافظ تو نہیں ہیں، جب ہماری طرف سے کوئی جوابی کاروائی نہیں ہوئی تو وہ پگڑیوں سے اپنے چہرے ڈھانپے ہماری طرف آنے لگے۔ اور انہوں ایک بار پھر ایک برسٹ مارا جو بالکل ہماری گاڑی کے آگے لگا۔

ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ سڑک بالکل سیدھی تھی اور ڈرائیور نے پوری چابکدستی کے ساتھ گاڑی اچھی رفتار کے ساتھ ریورس میں چلائی۔ایک اور اچھی بات یہ ہوئی کہ ہماری صورت حال سے بے خبر ایک ٹرک پیچھے سے چلتا ہوا ہمارے قریب پہنچا جب ٹرک کی ہیڈ لائٹس حملہ آوروں کو نظر آئیں تو وہ پیچھے کی طرف یہ سوچ کر بھاگے کہ گویا ہمیں بچانے کے لیے کمک آئی ہے۔جب حملہ آور فرار ہو گئے تو ہم نے بھی گاڑی کا رخ موڑا اور تھوڑے فاصلے پررینجرز کی چوکی کے دروازے پر پہنچ کر ہم نے وہاں کھڑے سنتری سے کسی ذمہ دار افسر کو بلانے کا کہا۔ ایک کپتان باہر آیا تو ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے ہمارے اوپر ہونے والی فائرنگ کی آواز سنی لیکن وہ اور اس کا عملہ باہر اس لیے نہیں نکلے کہ ان کو شام کے بعد چوکی سے باہر نہ نکلنے کی ہدایات ہیں۔ بہر حال ہم کشمور چیک پوسٹ کی طرف واپس لوٹے اور سڑک کے قریب ایف سی کے مقامی ہیڈکواٹرز میں رات گزارنے کی جگہ مانگی۔وہاں سے فون کرکے ہم نے روجھان کے ڈی ایس پی کو بلایا۔ہم نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے لکھی ہوئی درخواست دی لیکن یہ ایف آئی آر درج نہ ہو سکی۔

 

تھوڑی دیر کے بعد ڈیرہ بگٹی کا اس وقت کا ڈپٹی کمشنر عبدالصمد لاسی وہاں پہنچا۔اسے ہمارے اوپر ہونے والی فائرنگ کا علم تھا۔جب ہم نے اس سے فائرنگ کرنے والوں کی شناخت کے بارے میں پوچھا تو اس نے خیال ظاہر کیا کہ ان لوگوں کا تعلق بگٹی قبیلے کی کلپر شاخ سے ہو سکتا ہے جو نواب اکبر بگٹی کے مخالف ہیں لیکن ہمارے ان تین سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کہ آخر کلپروں کو انسانی حقوق کے کارکنوں سے، جنکا مقامی پارٹیوں کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں، کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟ کیا کلپر بھی مسلح کاروائیوں میں ملوث ہیں؟ اور سب سے بھی زیادہ اہم سوال یہ تھا کہ رات کی تاریکی میں کلپروں نے ہماری گاڑی کیسے پہچانی اگر ان کو پیشگی اطلاع نہیں تھی؟ یہی وجہ تھی کہ اگلے دن کلپروں والی کہانی دہرانے کے بجائے کوئٹہ کے صحافیوں کوکسی شخص نے فون کرکے بلوچ لبریشن آرمی کے نام پر ہمارے اوپر کی جانے والی فائرنگ کی ذمہ داری قبول کی۔

یہ انتہائی مضحکہ خیز بات تھی۔ہمیں یقین تھا کہ فائرنگ کے پیچھے ریاست کی انٹلیجنس ایجنسیاں تھیں جو ہمارے مشن کو روکنا چاہتی تھیں۔اس کا اندازہ ہمیں اس بات سے بھی ہوا کہ کوئٹہ سے ہمارے ساتھیوں ظہور احمد شاہوانی اور ضیاالدین کوسنگسیلہ فوجی چیک پوسٹ پر روک لیا گیاحالانکہ کوئٹہ میں حکومت کو ایچ آر سی پی کے مشن کی اطلاع تھی۔لیکن اس کے باوجود شاہوانی صاحب اور ضیا الدین کو بلا وجہ روکا گیا۔ کچھ وقت وہاں رکنے کے بعد وہ دونوں ایک خطرناک اور لمبے متبادل کچے راستے کے ذریعے ڈیرہ بگٹی آنے آنے پر مجبور ہہوئے جہاں پر ہماری ٹیم اکٹھی ہوئی۔ بہرحال ہم کشمور کے قریب رات گزارنے کے بعد دوبارہ سوئی کے سفر پر روانہ ہوئے اور عبدالصمد لاسی بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت ہمارے ساتھ چل پڑے۔بظاہر وہ ہماری ‘‘ حفاظت ‘‘ کر رہے تھے لیکن اصل مقصد ہمارے دورے کو کنٹرول میں رکھنے کا تھا۔ ہم نے سوئی پہنچ کر اپنے بیگ وغیرہ ریسٹ ہاؤس میں رکھے۔ بازار میں نکل کر لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ لوگوں میں ممکنہ فوجی آپریشن کی وجہ سے کافی تشویش موجود تھی۔ پھر ہم لوگ ڈیرہ بگٹی چلے گئے۔ڈیرہ بگٹی ایک فوجی محاصرے کے اندر جنگ زدہ ٹاؤن کا منظر پیش کر رہا تھاجہاں مہینے بھر سے سکول بند پڑے تھے۔ یہاں پر بھمبور سکاؤٹس کے کمانڈنٹ کرنل فرقان ہمارا انتظار کر رہے تھے۔انہوں نے ہمیں ہیڈکواٹرز میں سیکیورٹی پر مسلح گروہوں اور فرار یوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ اس کے بعد ہم نواب صاحب کی رہائش گاہ بگٹی ہاؤس گئے۔نواب صاحب چند دن پہلے فوج کے حملے کے خطرے کے پیش نظر قریبی پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ ہم نے ان کے خفیہ ٹھکانے پر جا کر ان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے خاندان کے چند افراد ہمیں ڈبل کیبن گاڑیوں میں بٹھا کر ان کے پاس لے گئے۔ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک کچے کمرے میں ضعیف العمر نواب صاحب فرشی نشست پر تشریف فرما تھے۔ ان کے نوجوان پوتے اور نواسے ان کے پیچھے کھڑے تھے۔ہم نے بہت اصرار کیا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہمارے ساتھ مصافحہ کریں لیکن وہ نہیں مانے اوراپنی ساری عمر کی روایت برقرار رکھنے کے لیے بہ صد مشکل کھڑے ہوکر ہمیں خوش آمدید کہا۔پھر ان کے ساتھ ہماری ایک گھنٹے بھر کی نشست ہوئی۔ ان کا ذہن واضح تھا،انہیں یقین تھا کہ انہیں اور بالاچ مری کو قتل کر دیا جائیگا کیونکہ وہ بلوچوں کے قدرتی وسائل پر غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چند دن پہلے جنرل پرویز مشرف جب کوہلو آئے تھے تو کہیں دور سے ان کی طرف راکٹ پھینکے گئے تھے۔ جنرل مشرف نے کہا تھا کہ وہ اس کا بدلہ لیں گے جو بلوچوں پر حملہ کرنے کی کھلی دھمکی ہے۔

نواب صاحب نے سوال اٹھایا کہ جنرل مشرف پر اسلام آباد اور راولپنڈی میں خطرناک قاتلانہ حملے ہوئے ہیںجن میں وہ بال بال بچے ہیں تو کیا انہوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں کوئی فوجی آپریشن کیے ہیں؟ انکا خیال تھا کہ بلوچوں پر حملہ کرنے کے لیے کوئی بھی بہانہ چلتا ہے۔ نواب صاحب کا کہنا تھا کہ افراد کو قتل کیا جا سکتا ہے لیکن قومیں زندہ رہتی ہیں۔ بلوچوں اور ان کے وسائل پر غیر معینہ عرصے کے لیے قبضہ نہیں جمایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد نواب صاحب اور وہاں پر موجود دیگر افراد نے علاقے کی صورت حال کے بارے میں تفصیل بتائیں اور فوجی آپریشن میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کے بارے میں بتایا۔واپسی پر ہم نے بگٹی ہاؤس میں کھانا کھایا اور باہر نکلے تو کرنل فرقان اور لاسی کو دوبارہ ہمارا منتظر پایا۔ انہوں نے نواب صاحب سے ملاقات کے بارے میں پوچھا ،ان کا خیال تھا کہ ہم ممکنہ ملاقات کو چھپا کر اس کی تردید کریں گے۔ لیکن عاصمہ نے ان کو بتایا کہ ہم نواب صاحب سے مل کر آرہے ہیں کیونکہ وہ بلوچستان کے ایک مسلمہ سیاسی قائد ہیں۔یہ ان کا وطن ہے۔ ان کا نکتہ نظر جاننا لازمی امر ہے۔ اور ان کو فوج کی جانب سے گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا جانا افسوس ناک ہے۔

جب کرنل فرقان نے نواب صاحب سے ہماری ملاقات پر ہمارے تاثر پر سوال پوچھا تو میں نے کرنل اور ڈپٹی کمشنر کو جواب دیا۔ میں نے ان سے کہا کہ ایران میں امام خمینی کے انقلاب کے بعد جب ایرانی نوجوانوں نے امریکی سفارت کاروں کو اغوا کیا تو مغربی ممالک نے ان کو چھڑانے کے لیے مختلف تدابیر سوچیں۔ایک کتاب کے مطابق فرانسیسی جاسوسی ادارے نے تہران اور قْم کے بیچ میں ہیلی کاپٹر کے سفر کے دوران اغوا کرکے خلیج میں موجود امریکی بحری بیڑے پر لے جانے کی تجویز پیش کی تاکہ ان کی رہائی کے بدلے میں امریکی سفارت کاروں کو رہا کیا جا سکے۔ لیکن جب یہ تجویز اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کے سامنے رکھی گئی تو اس کا کہنا تھا کہ ’’ ہم اس ضعیف العمر شخص کے ساتھ یہ سب نہیں کر سکتے‘‘۔میں نے کہا کہ یہ امام خمینی کے بارے میں ایک دشمن اور غیرمسلم ملک کے سربراہ کا رد عمل تھا لیکن یہاں آپ اسلام اور پاکستان کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود جو کچھ ایک بوڑھے بلوچ قائد کے ساتھ کر رہے ہیں وہ ان دعوئوں کی مکمل نفی ہے۔

چونکہ کافی دیر ہو گئی تھی اس لیے ہم لوگ واپس سوئی آئے۔ جہاں ہم نے رات گزاری اور اگلے دن ہم واپس اپنے گھروں کو لوٹے۔ ہمارے جاتے ہی ڈیرہ بگٹی میں فوجی کاروائی کرکے بگٹی ہاؤس پر قبضہ کر لیا گیا۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ بگٹی ہاؤس پر فوجی قبضہ کرنے کا منصوبہ پہلے سے موجود تھا۔ انسانی حقوق کمیشن کے مشن کے ڈیرہ بگٹی جانے سے اس منصوبے میں خلل پڑا۔ ہماری گاڑی پر فائرنگ اسی لیے کرائی گئی کہ ہم ڈر کر واپس چلے جائیں لیکن جب ہم نے جانے پر اصرار کیا تو پھر ہمارے واپس جانے کا انتظار کیا گیا۔ لیکن معاملہ یہاں رکا نہیں اور بالآخر نواب اکبر بگٹی اور بالاچ مری کے ساتھ وہ کچھ ہوا جس کی پیش گوئی نواب اکبر بگٹی نے کی تھی۔چھبیس اگست 2006 کو نواب صاحب کی جان لینے کے لیے فوجی آپریشن ہوا۔
ــ’’ یہ مضمون نواب اکبر بگٹی کی 14ویں برسی کے موقع پر شائع ہو چکا ہے ۔آج 15ویںبرسی منائی جارہی ہے،قارئین کے لیے اسکو دبارہ شائع کیا جا رہا ہے ‘‘