مکران ثقافتی، تجارتی ، سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے دنیا کی نظریں اس خطہ پر ہے اور سی پیک کا جھرمر بھی اس خطہ میں واقع ہے۔مکران تین اضلاع پر مشتمل ہے جس میں گوادر ، کیچ اور پنچگور شامل ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق مکران کی آبادی 1,489,015 ہے۔ لیکن یہاں کے باسی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں نہ روزگار اور نہ ہی سہولیات ہیں۔مکران ایران کی بارڈر سے منسلک ہے یہاں کے لوگوں کی زیادہ تر ذریعہ معاش ایران تیل سے وابسطہ ہے بلکہ بلوچستان کی بیشتر آبادی اس کاروبار سے منسلک ہے۔ لیکن اب کبھی بارڈر کو بند اور کبھی کھول دیاجاتاہے اور بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے
اس کاروبار سے سینکڑوں خاندانوں کے گھروں کے چولہا جلتے ہیں۔
بیروزگاری کی شروع دن بدن بڑتا جارہی ہے اور دوسری جانب کاروبار کرنے نہیں دیاجارہاہے۔اگر ملازمت اور کاروبار کے موقع اپنے علاقے میں ہوتے تو یہ لوگ میلوں سفر اور دشوار گزار راستوں سے تیل لانے پر مجبور نہ ہوتے۔اس وقت مکران میں بجلی اور صاف پانی دو سنگین مسئلہ ہیں۔بجلی کو کبھی پورے دن بند کیاجاتاتھا اور کیسکو کی جانب سے کہاجاتاتھا کہ ایران نے بجلی بند کیاہے لیکن ہرگز ایسا نہیں ہے یہ خود عوام کو تنگ کرنے کے لئے ڈرامہ رچایا جارہاہے۔کبھی بجلی اور کبھی بارڈر کو بند کیاجاتاہے۔ہر طرف گوادر ہی گوادر لیکن اس کے باسی پانی کی بوند کے لئے ترس رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے کہا جاتاہے گوادر سینگاپور اور دبئی بن چکاہے میڈیا میں دنیا کو دیکھایا جاتاہے کہ گوادر نے ترقی کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں۔ کیا ترقی ایک کلو میٹر سڑک ، پارکس اور اسٹیڈیم سے ہوتاہے پچھلے کئی دنوں سے گوادر کے لوگ صاف پانی کے لئے سراپائے احتجاج ہیں لیکن اب تک مسئلے کو حل کی کوشش نہیں کی گئی بلکی ضلعی انتظامیہ مظاہرین پر تشدد پر اوتر آیاہے۔ پچھلے دنوں اے سی گوادر خود مظاہرین پر تشدد کرنے نظر آئے۔اس ملک میں حق کے لئے آواز اٹھانا بھی جرم سمجھتاہے۔
امن و امان کی صوتحال ناقابل بیان ہے گزشتہ دنوں پنجگور میں ایک 4 سالہ بچے کو گھر کے باہر کھیلتے ہوئے موٹر سائیکل سوار نامعلوم افراد نے انہوں گھسیٹ کے لے گئے اور قتل کردیاگیا۔کہاں ہیں ہمارے محافظ؟ یہ ہے مکران کی امن و امان کی صورتحال جہاں بچے کھیل نہیں کرسکتے۔اور ہمارے نام نہاد حکمران ریاستِ مدینہ کے دعویٰ کرتے ہیں۔ مکران کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ٹیچنگ ہسپتال تربت میں سہولیات نام کی کوئی چیز نہیں جہاں آپ کو سرنج بھی میڈیکل اسٹورز سے لینا پڑھتی ہے اور ایمرجنسی میں 24 گھنٹے ڈاکٹرز موجود ہونے چاہئیے لیکن افسوس سے کہا پڑتا ہے کہ ایمرجنسی کو ٹرینر نرسوں کے حوالے کردیاہے یہ ہے ہمارے ہسپتالوں کی حالت زار!
مکران کے نمائندوں سے اب کوئی امید رکھی نہیں جاسکتاہے۔عوامی مسائل میں روز اضافہ ہوتاجارہاہے اور منتخب نمائندے خواب خرگوش میں ہے۔