|

وقتِ اشاعت :   September 1 – 2021

لفظ ’’بچھڑنا‘‘ یا ’’جدائی‘‘ ایسے اذیت ناک الفاظ ہیں جس کو انسان سنتے ہی تکلیف یا درد کی شدت سے گزرتا ہے، تو ذرا غور کریں کہ جن پر یہ سب گزر رہا ہے وہ کتنے درد میں ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 30 اگست کو جبری گمشدگی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

بین الاقوامی قوانین کے مطابق جبری گمشدگی کا مطلب انسانی حقوق کی پامالی اور ان قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اگر ہم اپنا توجہ پاکستان میں ہر روز ہونے والے جبری گمشدگیوںپر دیں تو پاکستان میں بلوچ، سندھی، پشتون، شیعہ، ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر یہاں اس مسئلہ کو حل کرنے میں تمام حکومتی ادارے ناکام رہے ہیں۔بلوچ اور بلوچستان کے لیے جبری گمشدگی ایک معمول کا عمل نظر آتا ہے۔ بالخصوص صوبہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ دن بہ دن تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ماما قدیر بلوچ بھوک ہڑتالی کیمپ میں ہر روز نئے لوگوں کی تصویر اٹھا کر بازیابی کے نعرے لگا کر جدائی جیسے عمل سے گزر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی جدائی ہے جس میں گھر والوں تک کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ ان کے پیارے زندہ ہیں بھی یا نہیں؟ وہ کہاں ہیں ؟ کیسے ہیں؟ کب آئیں گے؟ وہ مستقل اپنے پیاروں کی انتظار کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں۔

سیاسی لیڈرز جھوٹے دلاسے دے کر چلے جاتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟ ایک فرد کی جبری گمشدگی سے اس کا پورا خاندان اس اذیت ناک درد سے گزرتا ہے۔ ماں باپ آنسو بھرے آنکھوں سے راہ تھکتے ہیں تو بیوی اپنے شوہر کے انتظار میں یہ سوچ نہیں پاتی کہ وہ زندہ ہے بھی یا نہیں۔ بہن اور بیٹیاں اپنے لاڈ اور پیار کے لیے منتظر ہوتے ہیں، مگر حکومتی اداروں کی جانب سے بس گہری خاموشی ملتی ہے۔

انور سن رائے نے اپنے ناول ’’چیخ‘‘ میں اذیت خانے میں ہونے والے اس تشدد کو اس طرح بیان کیا ہے کہ کس طرح ایک بے گناہ انسان پر ایک ایسے جرم کو قبول کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے جو کہ اس سے سرزد ہی نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے وضاحت سے اذیت خانے میں گزرنے والے درد، تکلیف اور انسانی حقوق کی پامالی کے مرحلوں کو بیان کیا ہے کہ جب ہم سچائی اور حق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اذیت خانوں میں ان تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح عمر ریوابیلا کی مشہور کتاب ’’ماتم ایک عورت کا‘‘ جس کا اردو ترجمہ آصف فرخی نے کیا ہے۔ اس میں اذیت خانے میں عورت پر کی جانے والی ظلم کو بیان کیا گیا ہے، آخر میں بس اس کی انگلی اور انگوٹھی اس کے والدین کو نشانی کے طور پر بھیجی جاتی ہے۔ عورت کو بہت درد ناک اذیت دی جاتی ہے۔

جبری گمشدگی ایک غیر قانونی عمل ہے مگر پاکستان میں یہ ایک معمولی سی بات بن گئی ہے اور اس پر ملکی اور بین الاقوامی خاموشی واقعی حیران کن ہے۔ کسی فرد کے لاپتہ ہونے سے اس کا خاندان نفسیاتی اذیت کا شکار ہو جاتا ہے، وہ ہر ایک سیکنڈ اپنے پیاروں کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ کبھی بھوک ہڑتالی کیمپ میں تو کبھی مظاہروں اور ریلیوں میں پیاروں کی تصاویر اٹھائے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔ جیسے جارج آرویل کی کتاب ’’1984‘‘ میں ڈکٹیٹر شپ کو واضح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو بنیادی آزادی کا بھی حق نہیں۔ جس میں ’’ you watching is brother Big‘‘ ایک مشہور جملہ ہے۔اسی طرح پاکستان میں حق بات کرنے یا بنیادی حقائق پر سوال کرنے کی بنیاد پر بھی بڑا بھائی آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور ایک دن آپ کو لاپتہ کردیتا ہے۔

جبری گمشدگی ریاست کی طرف سے ایک پدرسری روایت ہے جس میں دوہری جبر کا ہر پہلو نظر آتا ہے۔ جب ہم اس کا تقابلی جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جبری گمشدگی میں عورت جس اذیت اور درد میں مبتلا ہوتی ہے اسکی مثال شاید ہی کہیں ملے۔ بلوچ عورتیں اسی درد میں مبتلا سڑکوں پر، گلیوں میں بینر اٹھا کر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہی ہوتی ہیں، ان احتجاجی عوامل کے دوران وہ ہر قسم کے سماجی و معاشی مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنے پیاروں کی واپسی کے لئے معاشرتی گھٹن کے ساتھ ریاستی استحصال کا سامنا کر رہی ہوتی ہیں۔

جب امریکہ میں عورتوں کی پہلی تحریک سامنے آئی تو اس میں قیادت سفید فام عورتوں کے پاس تھی۔ تحریک میں اکثریت سے سفید فام عورتوں کے مسائل کا تذکرہ ہوتا تھا۔یہاں تک کہ سفید فام جب اپنی آزادی کی تحریک چلا رہی تھیں تو انکے گھروں میں سیاہ فام عورتیں بطور غلام موجود تھیں۔ آج اسی طرح مختلف این جی اوز اور آئی این جی اوز کے تحت عورتوں کے مسائل پر تحقیق ہورہی ہے لیکن ان پروگراموں کی سربراہی وہی عورتیں کررہی ہیں جو امریکہ میں سفید فام عورتوں کے تحریک کے حامی ہیں، یہاں بھی اس عورت کی بات کبھی نہیں ہوتی جو پچھلے کئی سالوں سے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے احتجاج کررہی ہے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیوں کا بین الاقوامی سطح پر فوری نوٹس لیا جائے اور اس عمل کو روکنے کے لیے اقدامات کر کے لواحقین کے پیاروں کو بازیاب کرایا جائے۔