صحت قدرت کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے انسان جیسے جیسے ترقی کی منازل طے کرتا گیا روزمرہ کے مسائل پر قابو پانے اور اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی راہیںمتعین کرتا گیا۔قدرت کی دیگر نعمتوں میں اولاد ایک ایسی نعمت ہے جس کی خوشی اور صحت و تندرستی کے لیے ہر ذی شعور انسان ساری عمر لگا دیتا ہے۔
بچوں میں پائی جانے والی بہت سی بیماریاں آج سے کئی دہائیوں پہلے تک کافی پراسرار سمجھی جاتی تھیںجوکہ تپدق،پولیو،خناق،کالی کانسی،تشنج،خسرہ،نمونیا،کالایرقان،اسہال اورگردن توڑ بخار کی صورت میں بچوں کو اپنا شکار بنتی رہتی تھیں ان بیماریوں کی وجہ سے سالانہ دنیا بھر میں 60لاکھ سے زیادہ بچوں کی موت واقع ہو جاتی تھی۔
برسوں کی تحقیق اور محنت کے بعد ایسی ادویات اور ویکسین تیار کرنے میں کامیابی ہوئی جن کے ذریعے ان تمام بیماریوں سے بچوں کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ان ادویات کو بعد ازاں حفاظتی ٹیکہ جات کا نام دیا گیا۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے ان تمام ادویات کے استعمال کے عالمی سطح پر ایک گائیڈ لائن جاری کیا جس پر آج بھی پوری دنیا میں عملدرآمد کیا جاتا ہے۔
بہتر حکمت عملی اور موثر اقدامات کے ذریعے دنیا کے بیشترممالک نے آج ان تمام تر بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کر چکے ہیں۔ چند ترقی پذیر ممالک جن میں افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہے ابھی تک ان امراض سے چھٹکارا پانے میں مصروف عمل ہیں۔تاہم حکومت 2025تک ان بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی بچوں کی اموات کی شرح کو روک کر پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے ہرممکن وسائل بروئے کار لارہی ہے۔
امیونائزیشن توسیعی پروگرام (EPI) پاکستان میں 1978 میں شروع کیا گیا تھا تاکہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگا کر 6 متعدی بیماریوں سے بچایا جا سکے۔ جس میں ترقیاتی شراکت داروں (جی اے وی آئی، ڈبلیو ایچ او اور یونیسیف) کے تعاون سے، کئی نئی ویکسین مثلا ہیپاٹائٹس بی، ہیمو فیلس انفلوئنزا ٹائپ بی (Hib) اور نیوموکوکل ویکسین (PCV10) 2002، 2009 اور 2012 میں متعارف کرائی گئی تھیں، اور 2015 میں غیر فعال پولیو ویکسین بالترتیب روٹا وائرس ویکسین کی شمولیت سے حفاظتی ٹیکوں کا شیڈول مکمل کرنے والے بچے 10 مہلک بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔
ای پی آئی پروگرام ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کو تشنج سے بچانے کے لیے ویکسینیشن بھی فراہم کرتا ہے۔ EPI اور قومی/بین الاقوامی معاہدے نئی امیونائزیشن پالیسی پاکستان کے وژن 2025 کو اپنے کلیدی ہدف کو پورا کرتے ہوئے پیدائش کے اموات کو روکتے ہوئے پائیدار ترقی کا ہدف (SDG) حاصل کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں، بچوں کی بیماری اور اموات کو کم کرنے میں موجودہ صورتحال میں ہر سال EPI بلوچستان000 432 بچوں کی جان بچانے والی ویکسین فراہم کرتاہے تاہم اتنی کوششوں کے باوجود حفاظتی ٹیکہ جات کے اشعاریے ابھی تک متوقع معیارات تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔جس کی وجہ سے پولیو کے خاتمے اور خسرہ کے اہم اہداف حاصل نہیں ہوئے۔
اس پروگرام میں کوریج کے لحاظ سے شہری اور دیہی فرق بھی واضح نظر آتاہے۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر بلوچستان کے تمام اضلاع میں سوائے تین یعنی گوادر، جھل مگسی اور نصیر آباد کے 15 فیصد سے کم کی مکمل حفاظتی کوریج ہے جو کہ صوبے کے لیے زیادہ خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔ روٹا وائرس دنیا بھر میں بچوں کے قاتلوں میں سے ایک ہے اور روٹا وائرس شدید اسہال کی سب سے عام وجہ ہے۔
ہر سال روٹا وائرس/اسہال سے پاکستان میں,300 53 بچوں کی جان لے لیتا ہے، پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں 2013 میں انڈیا اور نائیجیریا کے بعدسب سے زیادہ اموات ہوئیں۔پاکستان میں دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان کی کارکردگی اس حوالے سے کمزور نظر آتی ہے بدقسمتی سے بلوچستان میں بچوں کی صحت کی صورت حال دیگر صوبوں کی نسبت انتہائی خراب ہے اور یہاں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے 111 اپنی پانچویں سالگرہ تک پہنچنے سے پہلے ہی مرجاتے ہیں۔
ان بچوں میں سے 97 بچے ایک سال کے اندر اندر ہی مر جاتے ہیں اور 60 بچے حفاظتی ٹیکے اور ویکسین نہ لگانے سے ان بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ جس کی بنیادی وجہ کم شرح خواندگی، انفراسٹرکچر کی کمی،وسیع اور دور دراز علاقوں اور افرادی قوت کی کمی ہے ہیں۔
اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے گزشتہ ادوار میں پروگرام کی ترقی اور ترویج کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے مگر پھر بھی بلوچستان میں ویکسین شدہ بچوں کی شرح 26 فیصد رہی جو کہ دیگر صوبوں کی نسبت انتہائی کم ہے۔موجودہ صورتحال میں بلوچستان میں ٹیکہ جات کی خصوصی مہم کے دوران 45ہزار سے زائدبچوں کو جان بچانے والی ویکسین لگائی جاتی ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ بلوچستان میں تاحال حفاظتی ٹیکے لگوانے کی شرح انتہائی کم ہے۔
ان مسائل کے علاوہ لوگوں میں شعور و آگاہی کی کمی اور منفی پروپیگنڈہ کی وجہ سے بچوں کو ٹیکے جات کے خصوصی مہم کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپا رہی اس سلسلے میں والدین کو باور کرانا کہ حفاظتی ٹیکہ جات مکمل طور پر محفوظ ہے اس سے بچوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بلکہ یہ بیماریوں سے چھٹکارا دلاتے ہیں۔ ان بیماریوں کے خلاف کامیابی کا دارومدار عوام کے تعاون سے مشروط ہے جب تک عوام میں اس پروگرام کی پزیرائی نہیں ہوگی تب تک مطلوبہ نتائج کے حصول مشکل رہیں گے۔
پوری دنیا آج ان تمام بیماریوں سے چھٹکارا پا چکی ہے مگر ہم ابھی تک بہت پیچھے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ عوامی تعاون کا نہ ہونا ہے۔ متعدی بیماریوں کے ٹیکے ہر بچے کا بنیادی حق ہے جو اسے دینا ریاست کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کا بھی اولین فریضہ بنتا ہے۔بلوچستان میں حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام کے لیے حکومتی سطح پر بہت سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن میں بین الاقوامی اداروں کی مدد بھی شامل ہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی سطح پر جو مسائل ہیں ان کے حل کے لئے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ٹیکہ جات کی خصوصی مہمات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے کمیونٹی کی سطح پر شعور و آگاہی فراہم کرنے کے لیے پروگرام اور ورکشاپ کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک کمیونٹی اس پروگرام کی افادیت سے پوری طرح واقف نہیں ہوگی۔اسکے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ان تمام عوامل اور مسائل کے باوجود صوبائی حکومت کی جانب سے موذی امراض کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
جس میں سٹیٹک سینٹرزکی فعالیت سرفہرست ہے جس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ای پی آئی سے متعلق معلومات اور خدمات کاحصول یقینی بنایا جاسکے گااس کے علاوہ اس پروگرام کو مدنظر رکھتے ہوئے مفصل اور قابل عمل ذرائع ابلاغ کی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس پر کام کرتے ہوئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں میں شعور و آگاہی پھیلائی جارہی ہے۔
اسی حکمت عملی کے تحت صوبائی اور ملکی سطح پر ایڈووکیسی پروگرام بھی مرتب کئے جائیں گے۔بلوچستان میں دور درازعلاقوں اور منتشر آبادی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ آؤٹ رینج خدمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مطلوبہ 90 فیصد کی کوریج کا حصول ممکن ہو اس پروگرام کے ذریعے شراکت داری کرتے ہوئے پروگرام کو مزید فعال کیا جا سکتا ہے۔
ہر نجی اسپتال کو پابند کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے اپنے ہسپتالوں میں سٹیٹک سینٹرز کا قیام عمل میں لائیں اور ان کی فعالیت میں حکومت کا بھر پور ساتھ دیں۔ پولیو اور ای پی آئی پروگرام میں ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آئی پی آئی پروگرام کو مضبوط کیے بنا پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں۔عوامی شمولیت کے ذریعے کسی بھی پروگرام کے اخذ کردہ نتائج کو حاصل کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔
صحت عامہ کے تمام تر پروگراموں میں عوامی شمولیت انتہائی اہم حیثیت کی حامل رہی ہے جن میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کا پروگرام سرفہرست ہے مختلف قسم کی سرگرمیوں کے باوجود ابھی تک عوامی سطح پر شعورو آگاہی ایک اہم ضرورت ہے جس کے لئے پروگرامز مرتب کئے جائیں تاکہ لوگوں میں ان بیماریوں کے روک تھام کے لیے آگاہی زیادہ سے زیادہ ہوسکے۔
اس کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔بالکل اسی طرح حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کو فعال بنانے کے لیے کمیونٹی کی شمولیت کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے تمام تر اداروں کو صوبائی حکومت کے ساتھ ملکر جامع منصوبہ بندی کرنی پڑے گی اس کے ساتھ ساتھ ایسے پروگرام اور سرگرمیاں مرتب کئے جائیں جس سے لوگوں کی سوچ اور رویوں کو تبدیل کیا جاسکے اگر سوچ اور رویے تبدیل ہونگے تو عوام میں پروگرام کی مقبولیت ہوگی۔